انگور کا گچھا میٹھا یا کھٹا
سوال
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
ایک غریب دیہاتی، بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں انگوروں سے بھری ایک ٹوکری کا تحفہ پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا۔ کملی والے آقاﷺ نے ٹوکری لی، اور انگور کھانے شروع کئے۔ پہلا دانہ تناول فرمایا اور مُسکرائے، اُس کے بعد دوسرا دانہ کھایا اور پھر مُسکرائے، اور وہ بیچارہ غریب دیہاتی، آپ کو مسکراتا دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال۔۔۔ صحابہ سارے منتظر، خلاف عادت کام جو ہو رہا ہے کہ ہدیہ آیا ہے اور انہیں حصہ نہیں مل رہا۔۔۔ سرکار علیہ السلام، انگوروں کا ایک ایک دانہ کر کے کھا رہے ہیں اور مسکراتے جا رہے ہیں۔
میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں۔۔۔۔ آپﷺ نے انگوروں سے بھری پوری رکابی ختم کر دی اور آج صحابہ سارے متعجب!!!
غریب دیہاتی کی تو عید ہو گئی تھی، خوشی سے دیوانہ۔۔۔ خالی ٹوکری لئے واپس چلا گیا۔
صحابہ نہ رہ سکے، چنانچہ ایک نے پوچھ ہی لیا: یارسول اللہﷺ! آج تو آپ نے ہمیں شامل ہی نہیں فرمایا؟ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: تم لوگوں نے دیکھی تھی اُس غریب کی خوشی؟ میں نے جب انگور چکھے تو پتہ چلا کہ کھٹے ہیں۔ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ تقسیم کروں تو ہو سکتا ہے کہ تم (میں سے کسی) سے کچھ ایسی بات (یا علامت) ظاہر ہو جائے (کہ انگور کھٹے ہیں) جو اس غریب کی خوشی کو خراب کر کے رکھ دے…
کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ گردش کر رہا ہے.
□ حكي أنه جاء رجل فقير من أهل الصفة بقدح مملوءة عنبا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يهديه له، فأخذ رسول الله القدح وبدأ يأكل العنب فأكل الأولى وتبسم، ثم الثانية وتبسم، والرجل الفقير يكاد يطير فرحا بذلك، والصحابة ينظرون وقد اعتادوا أن يشركهم رسول الله في كل شيء يهدى له، ورسول الله يأكل عنبة عنبة ويتبسم حتى أنهى بأبي هو وأمي القدح والصحابة متعجبون.. ففرح الفقير فرحا شديدا وذهب، فسأله أحد الصحابة يارسول الله! لِمَ لَمْ تشركنا معك؟ فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: قد رأيتم فرحته بهذا القدح وإني عندما تذوقته وجدته مرا؛ فخشيت إن أشركتكم معي أن يظهر أحدكم شيئا يفسد على ذاك الرجل فرحته.
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، بلکہ من گھڑت روایات کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ منقول نہیں.
لہذا جب روایات کی تحقیق کرنے والے مختلف اداروں سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کو موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے.
○ الدرر السنیة:
الدرر السنیة والے لکھتے ہیں کہ یہ جھوٹ من گھڑت ہے، اس واقعے کا کتب حدیث میں کوئی وجود نہیں.
¤ الدرجة: كذب موضوع لا وجود له في كتب الحديث.
○ اسلام ویب:
اسلام ویب والے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ہمیں نہ ملی اور یہی لگ رہا ہے کہ یہ بےاصل روایت ہے.
¤ فلم نجد هذا الحديث، فيما اطلعنا عليه، والذي يظهر أنه لا أصل له.
○ ایک اور ادارے والے لکھتے ہیں:
اس واقعے کی کوئی اصل نہیں اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
¤ ولا أصل له. ولا تصح نسبته للنبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وسلم.
● روایات کے بیان میں احتیاط کا تقاضہ:
آپ علیہ السلام کی ذات پر جھوٹ بولنے والے دو قسم کے لوگ ہیں:
أقسام الذين يكذبون علي الرسول ﷺ:
١. ایک وہ لوگ جو جان بوجھ کر جھوٹ بناتے ہیں، ان کا دین میں کوئی حصہ نہیں، اور اگر وہ اس جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں تو یہ کفر ہے.
□ القسم الأول: القسم الذي يكذب متعمداً ليس عنده دين، وإن استحل الكذب كفر.
٢. دوسرے وہ لوگ ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے لیکن روایات کو اچھی طرح یاد نہ کرنے کی وجہ سے غیر ارادی طور پر جھوٹی روایات بیان کرجاتے ہیں، کبھی الفاظ بدل دیتے ہیں اور کبھی مضمون ہی بدل دیتے ہیں.
□ القسم الثاني من الكذب: وهو الخطأ غير المقصود من رواة صالحين أي أناس فضلاء وأتقياء وأصحاب ديانة، لكن لم يضبطوا الحديث، يسمع الكلام يبدل لفظة بلفظة أو يبدل كلاما بكلام بسبب عدم تركيزه.
امام مالک فرماتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں سے زیادہ احادیث میں جھوٹ بولنے والوں کو نہیں دیکھا.
□ كما قال يحيى بن سعيد القطان أو كالإمام مالك أيضا قال: لم نر الصالحين في شيء أكذب منهم في الحديث.
امام مسلم فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے لیکن جھوٹی روایات ان لوگوں کی زبان پر جاری ہوجاتی ہیں.
□ قال الإمام مسلم بعد ما روى هذا الكلام في مقدمة صحيحه: يعني يجري الكذب على ألسنتهم ولا يتعمدون الكذب.
امام ابن حبان کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کی طرف جھوٹی روایات كو منسوب کرنے والوں میں وہ شخص بھی شامل ہے جو احادیث کی صحت معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا.
□ قال ابن حبان في مقدمة كتاب المجروحين تحت قول النبي ﷺ: “من حدث عني بحديث وهو يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين”، وهو يرى، فإن حبان يقول: أن كل من لم يتحري البحث عن صحة هذا الحديث يخشى أن يدخل تحت هذا الوعيد.
خلاصہ کلام
آپ علیہ السلام کی ذات کی طرف کسی بھی بات یا واقعے کو منسوب کرنے اور اس کو پھیلانے سے پہلے اس بات کی حتی الامکان کوشش کی جائے کہ وہ بات درست اور قابل بیان ہے یا نہیں، ایسا نہ ہو کہ ہماری ذرا سی چوک ہمیں آپ علیہ السلام پر جھوٹ باندھنے والوں میں شامل کردے.
سوال میں مذکور واقعہ درست نہیں اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٠ جنوری ٢٠٢٠ کراچی