انگوٹھے کا نشان، اسلام کا نشان
سوال
بعض لوگوں سے سنا ہے کہ اس علامت 👍🏻 سے میسج کو لائک کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا تَشَبُّه بالکفار (یعنی کافروں سے مشابہت) ہے…
کیا یہ بات درست ہے؟
(سائل: عبدالحی، شیخ عدنان کا شاگرد، ایران)
الجواب باسمه تعالی
انگوٹھے کو کھڑا کرکے بطور تائید یا کسی بات کی مضبوطی کی علامت کے طور پر استعمال کرنا مختلف علاقوں اور زمانوں میں ہوتا رہا ہے.
امام احمد بن حنبل رحمه اللہ سے جب مختلف راویوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ موسی بن عبیدہ نیک آدمی تھے لیکن منکر روایات نقل کرگئے اور محمد بن اسحاق سے مغازی (جنگوں کے واقعات) کی روایات نقل کی جاسکتی ہیں، البتہ جب حلال اور حرام کا معاملہ آئےگا تو ہمیں مضبوط لوگ چاہیئے اور انگوٹھے سے اشارہ کیا.
□ وقال في موضع آخر: سمعت عباساً يقول: سمعت أحمد بن حنبل يقول وهو على باب أبى النضر وسأله رجل فقال: يا أبا عبدالله! ما تقول في محمد بن إسحاق وموسى بن عبيدة الربذي؟ فقال: أما موسى بن عبيدة فكان رجلا صالحاً حدث بأحاديث مناكير، وأما محمد بن إسحاق فيكتب عنه هذه الأحاديث يعنى المغازي ونحوها، فإذا جاء الحلال والحرام أردنا قوماً هكذا؛ قال أحمد بن حنبل بيده وضم يديه وأقام أصابعه الإبهامين.
ویکیپیڈیا میں بھی اس نشان کے بارے لکھا ہے:
انگوٹھے کا یہ مخصوص نشان کئی تہذیبوں میں تائید کی علامت سمجھا جاتا ہے.
خلاصہ کلام
انگوٹھے کا یہ نشان تائید کی علامت ہے جو کسی بھی قوم میں ہوسکتی ہے، لہذا اس کو تشبه بالکفار قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اسلاف میں اس کا استعمال رہا ہے، البتہ اگر اس کے ساتھ کچھ ایسا عمل جوڑ دیا جائے جو کفار کا خاصہ ہو تو پھر اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣١ جنوری ٢٠٢٠ کراچی