تنبیہ نمبر 265

عنوان

سوال
مندرجہ ذیل واقعے کی تحقیق مطلوب ہے:
حدیث: “علماء أمتی کمثل أنبیاء بنی اسرائیل”.
کیا اس حدیث کے پس منظر میں ایسا کوئی واقعہ کتابوں میں موجود ہے جس کا مختصر احوال سنا ہے کہ:
جب یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمائی تو خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے اس حدیث کے متعلق اس بات کا اظہار فرمایا کہ آپ علیہ السلام نے اپنی امت کے علمائےکرام کو بنی اسرائیل کے انبیائےکرام کے برابر درجہ دے دیا…
اس کے جواب میں آپ علیہ الصلاة والسلام نے حضرت امام غزالی رحمه اللہ کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کرائی جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے امام غزالی سے انکا نام پوچھا تو انہوں نے اپنا تفصیلی تعارف کروایا اور وجہ یہ بتائی کہ جب موسیٰ علیہ السلام کی اللہ ربّ العزت کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے عصا کا تفصیلی تعارف کروایا تھا…
کیا یہ واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی

یہ واقعہ چونکہ ایک بزرگ کا خواب ہے لہذا اس پر سند کے اعتبار سے زیادہ کلام تو نہیں کیا جائےگا لیکن اس واقعے میں جس روایت کو بنیاد بنا کر پورا واقعہ بنایا گیا ہے اس روایت پر کلام ضروری ہے کیونکہ وہ روایت موضوع (من گھڑت روایت) ہے.

سوال میں مذکور واقعہ تفسیر روح البیان میں امام راغب الاصفہانی کی کتاب المحاضرات سے نقل کیا گیا ہے.

امام شاذلی کہتے ہیں کہ ایک رات میں مسجد اقصی میں سویا تو خواب دیکھتا ہوں کہ مسجد اقصی کے حرم میں ایک بہت بڑا شامیانہ لگایا گیا ہے اور اس میں بہت بڑی مخلوق جمع ہے، میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو بتایا گیا کہ یہ انبیائےکرام ہیں. اسی دوران میں نے دیکھا کہ آپ علیہ السلام ایک تخت پر براجمان ہیں اور تمام انبیائےکرام موجود ہیں تو حضرت موسی علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ کی حدیث ہے کہ علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل تو ہمیں کسی ایک سے ملوادیں… اس کے بعد امام غزالی والا واقعہ پیش آیا…

□ ذكر صاحب روح البيان (5/288) في تفسير سورة طه ناقلا عن الراغب الأصفهاني في “المحاضرات” أن الإمام الشاذلي قدس سره (صاحب حزب البحر) قال: اضطجعت في المسجد الأقصى فرأيت في المنام قد نصب خارج الأقصى في وسط الحرم فسطاط كبير فدخل خلق كثير أفواجاً أفواجاً فقلت: ما هذا الجمع؟ فقالوا: جميع الأنبياء والرسل عليهم السلام قد حضروا ليشفعوا في حسين الحلاج عند محمد عليه السلام في إساءة أدب وقعت منه فنظرتُ إلى التخت فإذا نبينا صلى الله عليه وسلم جالس عليه بانفراده وجميع الأنبياء على الأرض جالسون مثل إبراهيم وموسى وعيسى ونوح عليهم السلام، فوقفت أنظر وأسمع كلامهم فخاطب موسى نبيَّنا عليه السلام وقال له: إنك قد قلت: “علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل” فأرنا منهم واحداً، فقال: هذا، وأشار إلى الإمام الغزالي قدس سره، فسأله موسى سؤالاً فأجابه بعشرة أجوبة فاعترض عليه موسى بأن الجواب ينبغي أن يطابق السؤال، والسؤال واحد والجواب عشرة، فقال الإمام: هذا اعتراض وارد عليك أيضاً حين سُئِلت: {وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ} وكان الجواب عصاي، فأوردت صفات كثيرة، قال: فابتسم النبي صلى الله عليه وسلم وقال لسيدنا موسى: أفي أمتك حبر مثل هذا؟ فقال: اللهم لا، قال الشاذلي: فبينما أنا متفكر في جلالة قدر سيدنا محمد عليه الصلاة السلام وكونه جالساً على التخت بانفراده والخليل والكليم والروح جالسون على الأرض إذ رفسني شخص برجله رفسة مزعجة (أي: ضربني) فانتبهت فإذا بقيّم يشعل قناديل الأقصى وقال لي: لا تعجب فإن الكل خلقوا من نوره فخررت مغشياً، فلما أقاموا الصلاة أفقت وطلبت القيم فلم أجده إلى يومي هذا.
■ اس واقعے پر تحقیقی نظر:

١. پہلا نکتہ:

اس خواب میں موسی علیہ السلام نے جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے ایسی کوئی روایت درحقیقت موجود ہی نہیں ہے، بلکہ اس مضمون کو تمام محدثین اہل سنت اور شیعہ سب نے من گھڑت قرار دیا ہے، لہذا ایک عظیم الشان نبی کسی من گھڑت روایت کی بنیاد پر دلیل کا مطالبہ کیسے کرسکتے ہیں.

○ علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل:

١. اس روایت کو تمام محدثین نے موضوع قرار دیا ہے، جیسے عجلونی اور ملا علی قاری نے الأسرار المرفوعہ میں.

¤ وهو مكذوب على رسول الله صلى الله عليه وسلم.. ذكره العجلوني في كشف الخفاء ومزيل الإلباس، والقارئ في الأسرار المرفوعة في الأحاديث الموضوعة.

٢. طرابلسی کہتے ہیں کہ ترمذی، دمیری اور ابن حجر نے اس روایت کو بےاصل قرار دیا ہے.

¤ قال الطرابلسي في اللؤلؤ المرصوع: قال الترمذي والدميري وابن حجر: لا أصل له.. وكذا قال الزركشي.

٣. علامہ سخاوی کہتے ہیں کہ یہ حدیث کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں.

¤ وقال السخاوي في المقاصد الحسنة: قال شيخنا ومن قبله الدميري والزركشي: إنه لا أصل له، زاد بعضهم: ولا يعرف في كتاب معتبر.

٤. شیخ البانی کہتے ہیں کہ باتفاق علماء یہ روایت بےاصل ہے.

¤ وقال الشيخ الألباني في سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة (466): لا أصل له باتفاق العلماء.
□ شیعہ محدثین کی رائے:

یہ روایت کسی بھی امامیہ کی کتاب میں موجود نہیں اور راجح یہی ہے کہ یہ من گھڑت یا صوفیہ کی من گھڑت باتیں ہیں.

□ الحديث مورد السؤال (علماء أمتي أفضل من أنبياء بني إسرائيل) لم نعثر له على أثر في كتب الإمامية، إلا ما نقله بعضهم عن وجوده في كتاب “مفتاح الفلاح” للشيخ البهائي، ولم نجده في النسخة المطبوعة منه.
وهناك لفظ حديث قريب منه وهو: “علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل”، وهو أيضا لم يرد في الجوامع الحديثية عندنا، نعم روي مرسلا في (تحرير الأحكام، للعلامة الحلي (1/38)، و(عوالي اللاّلي/للأحسائي:4/77).
ولكنه ورد عند أهل السنة، وقال فيه محققوهم أنه لا أصل له كالزركشي فی (تذكرة الموضوعات:5/20) والحافظ العراقي فی (فيض القدير: 4/504). والسيوطي وابن حجر والديمري (كشف الخفاء: 2/640).
ولذلك ذكر علمائنا المحدثون كالحر العاملي في “الفوائد الطوسية” والنوري في “دار السلام” ونعمة الله الجزائري بأنهم لم يعثروا على هذا الخبر في كتب الأخبار حتى رجح الحر العاملي كونه من موضوعات العامة أو الصوفية.
٢. دوسرا نکتہ:

تفسیر روح البیان میں ہر طرح کی روایات موجود ہوتی ہیں اور ہر طرح کے واقعات منقول ہوتے ہیں، لہذا اس تفسیر میں موجود ہونا اس واقعے کی صحت کی علامت نہیں.

٣. تیسرا نکتہ:

راغب الاصفہانی ایک مشہور ادبی شخصیت ہیں (اگرچہ ان پر شیعیت اور معتزلی ہونے کے الزامات بھی لگے ہیں) ایسی شخصیات کے ہاں واقعات کا نقل کرنا اصل ہوتا ہے، اس کا درست ہونا زیادہ ضروری نہیں ہوتا. (یعنی یہ ضروری نہیں کہ ان حضرات کا نقل کردہ ہر واقعہ درست ہی ہو).

خلاصہ کلام

سوال میں مذکور واقعہ کی بنیاد چونکہ ایک من گھڑت روایت پر رکھی گئی ہے جس سے اس واقعے کی صحت کمزور ہوگئی، لہذا اس واقعے کو درست نہیں کہا جاسکتا.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣ فروری ٢٠٢٠ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں