حضرت عمر کا منکر نکیر سے سوال
سوال
ایک روایت مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قبر میں منکر نکیر سے سوال کرینگے جس سے منکر نکیر بھی حیرت زدہ ہوجائیں گے…
کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
منکر نکیر کا قبر میں آنا صحیح احادیث سے ثابت ہے اور آپ علیہ السلام کا حضرت عمر کو قبر کے فرشتوں کے بارے میں آگاہ کرنا بھی روایات سے ثابت ہے.
حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے عمر! تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب تم چار ہاتھ لمبی اور دو ہاتھ چوڑی زمین (یعنی قبر) میں ہوگے اور تم منکر نکیر کو دیکھو گے؟ میں نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! منکر نکیر کون ہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: یہ قبر میں امتحان لینے والے (دو فرشتے) ہیں جو قبر کو اپنے دانتوں سے کریدیں گے اور ان کے بال اتنے لمبے ہوں گے کہ وہ اپنے بالوں کو روندتے ہوئے آئیں گے۔ ان کی آواز زوردار گرج کی طرح ہوگی اور ان کی آنکھیں اُچکنے والی بجلی کی طرح چمک رہی ہوں گی۔ ان دونوں کے پاس اتنا بڑا ہتھوڑا ہوگا کہ سارے منیٰ والے مل کر اسے نہ اٹھا سکیں۔ حضور ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جسے آپ ﷺ ہلا رہے تھے، آپﷺ نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لیکن ان دونوں کے لئے اسے اٹھانا میری اس چھڑی سے زیادہ آسان ہوگا۔ وہ دونوں تمہارا امتحان لیں گے، اگر تم جواب نہ دے سکے یا تم لڑکھڑا گئے تو پھر وہ تمہیں وہ ہتھوڑا اس زور سے ماریں گے کہ تم راکھ ہو جاؤ گے۔ میں نے کہا: یارسول اللہ ﷺ! میں اپنی اسی حالت میں ہونگا؟ (یعنی اس وقت میرے ہوش و حواس ٹھیک ہوں گے) حضور ﷺ نے فرمایا :ہاں. میں نے کہا: پھر میں ان دونوں سے نمٹ لونگا.
□ حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه: أخرجه ابن أبي داود في «البعث» (7) ومن طريقه قوام السنة في «الحجة في بيان المحجة» [1477 رقم: 324-325] من طريق مفضل يعني ابن صالح أبا جميلة عن مفضل بن صالح عن إسماعيل بن أبي خالد عن أبي شهر (وفي رواية عن أبي سهل، وفي أخرى: عن أبي شهم) عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «كيف أنت إذا كنت في أربعة أذرع في ذراعين، ورأيت منكرا ونكيرا؟» قال: قلت: يارسول الله! وما منكر ونكير؟ قال: فتاتا القبر، يبحثان الأرض بأنيابهما، ويطآن في أشعارهما، أصواتهم كالرعد القاصف، وأبصارهما كالبرق الخاطف، معهما مرزبة لو اجتمع عليها أهل منى، لم يطيقوا رفعها، هي أيسر عليهما من عصاتي هذه. قال: قلت: يارسول الله! وأنا على حالي هذه؟ قال: «نعم»، قلت: إذن أكفيكهما.
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت تین صحابہ سے مرفوع اور دو سندوں سے مرسل منقول ہے:
١. پہلی سند:
یہ روایت حضرت عمر سے منقول ہے، اس سند میں مفضل بن صالح الاسدی منکر الحدیث ہے، اور ابوشهر مجہول راوی ہے.
٢. دوسری سند:
یہ روایت ابن عباس سے منقول ہے، اس سند میں واقدی ہے جو متروک راوی ہے.
٣. تیسری سند:
یہ روایت حضرت جابر سے منقول ہے، اس میں اسماعیل بن مسلم المکی کثیر الغلط راوی ہے.
٤. چوتھی سند:
یہ عطاء بن یسار سے مرسل منقول ہے.
٥. پانچویں سند:
یہ عمرو بن دینار سے مرسل ہے.
¤ خلاصہ تحقیق:
اس قدر روایت مختلف اسناد سے وارد ہے جو اگرچہ ضعیف ہیں لیکن قابل بیان ہیں.
● حضرت عمر کا منکر نکیر سے سوال کرنا
روایت کا اگلا حصہ:
سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم سے نکیرین کے بارے میں سن کر حضرت سیِّدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم! جب وہ میرے پاس آئیں گے تو کیا میں اسی طرح صحیح سَالِم رہونگا جیسے اب ہوں؟ فرمایا: ”ہاں‘‘ عرض کیا: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم! پھر تو میں انہیں آپ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی طرف سے خُوب جواب دوں گا۔ سرکار صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے عمر! اس رب عَزَّوَجَلَّ کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا! مجھے جبریل امین نے بتایا ہے کہ وہ دونوں فرشتے جب تمہاری قبر میں آئیں گے اور سوالات کریں گے تو تم یوں جواب دو گے کہ میرا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے مگر تمہارا رب کون ہے؟ میرا دین اسلام ہے مگر تمہارا دین کیا ہے؟ میرے نبی تو محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم ہیں مگر تمہارا نبی کون ہے؟ وہ کہیں گے: بڑے تعجب کی بات ہے، ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں یا تم ہماری طرف بھیجے گئے ہو؟ (ریاض النضرۃ ،ج:1، ص:34)
□ وأما قصة مساءلة عمر بن الخطاب رضي الله عنه للملكين، التي يُحكى أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعمر رضي الله عنه: «والذي بعثني بالحق نبيًّا، لقد أخبرني جبريل أنهما يأتيانك فتقول أنت: الله ربي فمن ربكما؟ ومحمد نبيي فمن نبيكما؟ والإسلام ديني فما دينكما؟ فيقولان: واعجباه!! ما ندري نحن أرسلنا إليك، أم أنت أرسلت إلينا؟»
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
روایت کا یہ حصہ (جس میں حضرت عمر فرشتوں سے سوال کرینگے) کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، البتہ محب الدین الطبری نے اپنی کتاب “ریاض النضرة فی مناقب العشرة” میں عبدالواحد المقدسی سے اسکو نقل کیا ہے جبکہ المقدسی نے خود اپنی کتاب میں قصے کا صرف اول حصہ نقل کیا ہے لیکن بقیہ حصہ وہاں بھی موجود نہیں.
¤ فهي قصة باطلة لا أصل لها، ولا زمام لها ولا خطام! وإنما ذكرها محب الدين الطبري (ت: 694هـ) في الرياض النضرة في مناقب العشرة (2/346) بلا إسناد وقال: «خرجه عبدالواحد بن محمد بن علي المقدسي في كتابه التبصير، وخرج الحافظ أبو عبدالله القاسم الثقفي عن جابر من أوله إلى ذكر السؤال وقال: فقال عمر: يارسول الله! أية حال أنا يومئذ؟ قال: “على حالك” قال: إذن أكفيكهما، ولم يذكر ما بعده».
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعے کے دو حصے ہیں: اول حصہ جس میں منکر نکیر کی صفات اور قبر کے سوالات کا تذکرہ ہے، یہ حصہ روایات سے ثابت ہے، البتہ دوسرا حصہ جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرشتوں سے سوال کرنا مذکور ہے، یہ حصہ کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کر کے اسکو بیان کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٤ فروری ٢٠٢٠ کراچی