آپ علیہ السلام کا خط سینٹ کیتھرائن میں
سوال
گذشتہ دنوں جاوید چوہدری نے ایکسپریس اخبار میں ایک کالم لکھا جس میں کوہِ طور پر ایک گرجے میں آپ علیہ السلام کے خط کا تذکرہ ہے۔۔۔ جاوید چودھری لکھتے ہیں
یہ چیپل سکندریہ کی ایک نیک خاتون کیتھرائن کی وجہ سے سینٹ کیتھرائن کہلانے لگا‘ 565ء میں رومن بادشاہ سیزر جسٹینین نے یہاں ایک بڑی خانقاہ تعمیر کر دی‘ یہ آج تک سلامت ہے‘ حضرت موسیٰ ؑسے منسوب جھاڑی بھی اسی خانقاہ میں موجود ہے‘یہ مقام برننگ بش کہلاتا ہے‘ سینٹ کیتھرائن میں ایک لائبریری بھی ہے‘ یہ لائبریری دنیا کی دوسری قدیم ترین لائبریری ہے‘ اس میں دنیا کی قدیم معتبردستاویز موجود ہیں‘یہ دستاویز ڈاکومنٹس کہلاتے ہیں‘ ان ڈاکومنٹس میں نبی اکرمؐ سے منسوب ایک خط مبارک بھی موجود ہے‘ خط پر آپؐ کے دست مبارک کا نشان ہے‘ عیسائی اس خط کو نبی اکرمؐ کاکوونیٹ ٹیسٹامنٹ جب کہ مسلمان عہد نامہ کہتے ہیں‘ یہ دنیا میں ایسی واحد دستاویز ہے جس پررسول اللہ ﷺ کے دست مبارک کا نشان ہے۔
کیا یہ خط واقعی آپ علیہ السلام نے دیا تھا اور اس کی تاریخی حقیقت کیا ہے؟
الجواب باسمه تعالی
اس سوال کے جواب میں چند امور کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے:
١. آپ علیہ السلام کے خط کی اسنادی حیثیت.
٢. آپ علیہ السلام کا مصر کی جانب سفر کرنا.
٣. مصر کے کسی عیسائی وفد کا آپ علیہ السلام کے پاس آنا.
٤. آپ علیہ السلام کا عیسائیوں کو دیا گیا عہد.
□ ١. پہلا امر:
سینٹ کاترین میں موجود خط کی تاریخی حیثیت:
آپ علیہ السلام کی طرف منسوب خط جو کہ عیسائیوں کے گرجے میں موجود ہے اور اس کا اصل غالبا ترک میوزیم ہے، اس خط کے مضامین مختلف الفاظ کے ساتھ مختصر اور طویل منقول ہیں.
● خط کا خلاصہ:
یہ خط محمد بن عبداللہ کی طرف سے تمام لوگوں کیلئے ہے، اس کو نصاری کیلئے تحریر کیا گیا ہے جو مشرق اور مغرب میں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی بھی عیسائی کو عیسائیت سے نہیں ہٹایا جائےگا نہ راہب کو رہبانیت سے، نہ کوئی کنیسہ توڑا جائےگا، نہ کسی کنیسہ کو مسجد بنایا جائےگا، اور کسی رھبان پر کوئی جزیہ نہ ہوگا…الی آخرہ
□ “بسم الله الرحمن الرحيم، هذا كتاب كتبه محمد بن عبدالله إلى كافة الناس أجمعين بشيراً ونذيراً ومؤتمناً على وديعة الله في خلقه لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل وكان الله عزيزاً حكيماً، كتبه لأهل ملته ولجميع من ينتحل دين النصرانية من مشارق الأرض ومغاربها قريبها وبعيدها، فصيحها وعجميها، معروفها ومجهولها.. كتاباً جعله لهم عهداً فمن نكث العهد الذي فيه وخالفه إلى غيره وتعدى ما أمره كان لعهد الله ناكثاً ولميثاقه ناقضاً وبدينه مستهزئاً وللّعنة مستوجباً سلطاناً كان أو غيره من المسلمين المؤمنين. لا يغير أسقف من أسقفيته ولا راهب من رهبانيته ولا حبيس من صومعته ولا سايح من سياحته ولا يهدم بيت من بيوت كنائسهم وبيعهم، ولا يدخل شئ من بناء كنايسهم في بناء مسجد، ولا في منازل المسلمين. فمن فعل شئ من ذلك فقد نكث عهد الله وخالف رسوله ولا يحمل على الرهبان والأساقفة ولا من يتعبد جزيةً ولا غرامة وأنا أحفظ ذمتهم أين ما كانوا من بر أو بحر في المشرق والمغرب والشمال والجنوب وهم في ذمتي وميثاقي وأماني من كل مكروه”.
آخر میں لکھا ہے کہ اس معاہدے کو حضرت علی نے لکھا ہے اور اس معاہدے کے وقت ابوبکر، عمر، عثمان، عبداللہ بن مسعود، عباس بن عبدالمطلب اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم موجود تھے.
□ وفي أخر المخطوطة مكتوب: “وكتب على بن أبى طالب هذا العهد بخطه في مسجد النبي صلى الله تعالى عليه وآله وسلم وشهد بهذا العهد صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم ومنهم: أبوبكر بن أبي قحافة، عمر بن الخطاب، عثمان بن عفان، علي بن أبي طالب، عبدالله بن مسعود، العباس بن عبدالمطلب، والزبير بن العوام”.
بعض جگہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت معاویہ کی موجودگی کا تذکرہ ہے.
○ یہ معاہدہ کب لکھا گیا؟
دکتور عبدالرحیم ریحان جو اس خط کو ثابت مانتے ہیں وہ اور ان جیسے محققین کا کہنا یوں ہے کہ:
شايد 7 ہجری میں آپ علیہ السلام نے جب خطوط روانہ کئے تو ہوسکتا ہے کہ آپ علیہ السلام کا ایلچی مقوقس سے ملنے کیلئے اس راستے سے گیا ہو اور واپسی میں راہبوں نے اپنا وفد آپ علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا ہو جن کو یہ عہد مل گیا ہو.
□ وسبب كتابة العهدة النبوية لرهبان دير سانت كاترين كما أوضح ريحان هو أن النبي محمد صلّى الله عليه وسلم حين أرسل كتبه إلى الملوك والأمراء ومنهم المقوقس نائب الرومان فى مصر، يدعوهم إلى الإسلام، أكرم المقوقس مندوب الرسول صلى الله عليه وسلم، وزوده بالهدايا، وقد عاد المندوب إلى المدينة المنورة عن طريق سيناء، وهنا قابله رهبان دير سانت كاترين فى الطريق، وأرسلوا معه وفدًا يُطلع النبي صلى الله عليه وسلم على حال ديرهم، ويطلب منه العهد تأمينًا للطريق وصيانة لديرهم ومصالحهم.
جاوید چوہدری ایک روایت یہ نقل کر تے ہیں
ایک روایت کے مطابق خانقاہ سینٹ کیتھرائن کے چند متولی مدینہ آئے‘ نبی اکرمؐ نے ان کی میزبانی فرمائی‘ متولیوں نے رخصت ہونے سے پہلے عرض کیا‘ہمیں خطرہ ہے مسلمان جب طاقتور ہو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل اور ہماری عبادت گاہوں کو تباہ کر دیں گے‘ آپؐ نے جواب دیا‘ آپ لوگ مجھ سے اور میری امت کے ہاتھوں سے محفوظ رہیں گے‘ متولیوں نے عرض کیا‘ ہم لوگ جب بھی کسی سے معاہدہ کرتے ہیں تو ہم وہ لکھ لیتے ہیں‘ آپ بھی ہمیں اپنا عہد تحریر فرما کر عنایت کر دیں تاکہ ہم مستقبل میں آپ کے امتیوں کو آپؐ کی یہ تحریر دکھا کر امان حاصل کر سکیں‘
آپؐ نے تحریر لکھوائی‘ تصدیق کیلئے کاغذ پر اپنے دست مبارک کا نشان لگایا اور عہدنامہ ان کے حوالے کر دیا‘ وہ لوگ واپس آئے اور یہ معاہدہ سینٹ کیتھرائن میں آویزاں کر دیا‘ مسلمان حکمرانوں نے اس کے بعد جب بھی مصر فتح کیا اور یہ سینا اور کوہ طور تک پہنچے تو خانقاہ کے متولی نبی اکرمؐ کا عہد نامہ لے کر گیٹ پر آ گئے‘ فاتحین نے عہد نامے کو بوسا دیا‘ خانقاہ اور مصر کے عیسائیوں کو پناہ دی اور واپس لوٹ گئے‘
○ اس معاہدے کا انکار کرنے والے:
١. ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ بعض عیسائی ایک خط کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ ہمارے ذمے جزیہ لازم نہیں کیونکہ آپ علیہ السلام نے ایک خط دیا تھا جس کی وجہ سے ہم پر سے جزیہ ساقط ہوگیا، لیکن ان کی بات درست نہیں کیونکہ یہ خط کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں.
□ قال فى المغنى: فَصْلٌ: وَمَا يَذْكُرُ بَعْضُ أَهْلِ الذِّمَّةِ مِنْ أَنَّ الْجِزْيَةَ لَا تَلْزَمُهُمْ، وَأَنَّ مَعَهُمْ كِتَابًا مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْقَاطِهَا عَنْهُمْ، لَا يَصِحُّ.
یہی بات ابولعباس بن سریج سے بھی نقل ہے
وَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ أَبُو الْعَبَّاسِ بْنِ سُرَيْجٍ، فَقَالَ: مَا نَقَلَ ذَلِكَ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ. وَذَكَرَ أَنَّهُمْ طُولِبُوا بِذَلِكَ، فَأَخْرَجُوا كِتَابًا ذَكَرُوا أَنَّهُ بِخَطِّ عَلِيٍّ رَضِيَ الله عَنْهُ، كَتَبَهُ عَنْ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِيهِ شَهَادَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، وَمُعَاوِيَةَ، وَتَارِيخُهُ بَعْدَ مَوْتِ سَعْدٍ وَقَبْلَ إسْلَامِ مُعَاوِيَةَ، فَاسْتُدِلَّ بِذَلِكَ عَلَى بُطْلَانِهِ. وَلِأَنَّ قَوْلَهُمْ غَيْرُ مَقْبُولٍ، وَلَمْ يَرْوِ ذَلِكَ مَنْ يُعْتَمَدُ عَلَى رِوَايَتِهِ.
٢. احمد زکی پاشا لکھتے ہیں کہ سیناء کے پادریوں نے خط اپنی طرف سے بنایا ہے تاکہ بادشاہوں کے ظلم سے بچ سکیں.
□ أحمد زكي باشا، سكرتير مجلس النظار الذي ذكر أن رهبان سيناء اختلقوها للاستعانة بها على دفع ظلم الحكام،
٣. استاد حسن محمد قاسم کہتے ہیں کہ یہ خطوط پادریوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اس کے چار اسباب ہیں:
١- ان خطوط کی زبان دور نبوت کی زبان سے مختلف ہے.
٢- یہ دوسری ہجری میں لکھا گیا خط ہے جبکہ اسلام میں تاریخ کی بنیاد ١٢ ہجری میں پڑی ہے.
٣- مؤرخین اسلام جنہوں نے کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی نہ چھوڑی انہوں نے اس خط کا تذکرہ نہیں کیا.
٤- بعض حاضرین مثلا: حضرت عباس، حضرت معاویہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ تو اس وقت تک مسلمان بھی نہ ہوئے تھے.
□ يقول الأستاذ حسن محمد قاسم: وقد اختلق الرهبان هذه الأساطير لدفع الظلم عنهم، وأيدوا ذلك بأربعة أسباب مهمة:
١. لغة العهد الأولى والثانية تختلف عن لغة عصر النبوة، ففيها تراكيب لم تكن مألوفة حينذاك.
٢. هى مؤرخة فى السنة الثانية للهجرة، مع أن الهجرة لم يؤرخ بها إلا فى السنة الثانية عشرة، أى بعد وفاة النبى صلى الله عليه وسلم بسبع سنين، فضلا عن أن بعض الشهود كأبى هريرة وأبى الدرداء لم يكونوا قد أسلموا فى السنة الثانية للهجرة.
٣. مؤرخوا الإسلام الذين أحصوا كل آثار النبى صلى الله عليه وسلم لم يذكروها ولم يشيروا إليها، وغاية ما ورد وصية النبى صلى الله عليه وسلم بقبط مصر.
٤. ورود هذه الأسماء المجهولة فى ذيل العهدة، مع شهرة أسماء الصحابة.
عبدالرحیم ریحان یہ مانتے ہیں کہ مؤرخین اسلام نے اس معاہدے کو ذکر نہیں کیا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مؤرخین نے سب باتیں تو ذکر نہیں کیں.
□ أكد خبير الآثار الدكتور عبدالرحيم ريحان مدير عام البحوث والدراسات الأثرية والنشر العلمى بمناطق آثار جنوب سيناء،
لـ”صدى البلد” إن المخطوط الموجود في الدير هو عهد صحيح تمامًا بعدة أدلة، منها أن عدم ذكر أحد المؤرخين للأصل لا يطعن بصحته، لأنه لا يمكن أن يكون المؤرخون أحصوا كل أثر للنبى.
□ ٢. دوسرا امر:
آپ علیہ السلام کا مصر کی جانب سفر:
● پہلا سفر:
آپ علیہ السلام نے نبوت سے پہلے مصر کا سفر کیا اور وہاں آپ نے عیسائیوں کو ایک عہد نامہ دیا جس میں ان کی حفاظت کی بات تھی اور مدینہ ہجرت کے بعد اس کی تازگی کی گئی.
□ طور سيناء (دير سانت كاترين فيما بعد) هو فى طريق مصر من بلاد العرب.
زيارة محمد صلى الله عليه وسلم لسيناء
وعلى أرض سيناء أرض الأنبياء والرسل وطأت أقدام سيدنا محمد صلى الله عليه وسلم أكثر من مرة جاءت زيارته الأولى قبل نزول الرسالہ
وتذكر أخبار الرحلات أنه إتجه في رحلة من رحلات الصيف ۔۔۔۔۔
مروا بمخبأ العقيدة الذي تحول إلى دير سانت كاترين في العصر المسيحي. وفي لقائه مع رهبان الدير تقدموا له بالشكوى من البدو والأعراب الذين يسرقون ماشيتهم ويدمرون مزارعهم فوعدهم أمير التجار وهو الاسم الذي كانوا يطلقونه عليه بالعمل على حمايتهم وعقيدتهم ويحتفظ دير سانت كاترين بوثيقة الوعد التي طبعها الرسول عليه الصلاة والسلام بكف يده الشريفة
وعندما عاد إلى مكة ونزلت عليه الرسالة وعلم كهنة دير سانت كاترين أنه أصبح زعيم العرب وملك الصحراء أرسلوا إليه الرسالة الشهيرة التي يذكرونه بوعده الذي ختمه بكف يده الشريفة
● دوسرا سفر:
آپ علیہ السلام نے معراج کی رات جبل طور پر نماز ادا کی.
سنن نسائی کی روایت ہے کہ آپ علیہ السلام کو جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ اتر کر نماز ادا کریں اور پھر بتایا کہ آپ نے طور سینا میں نماز ادا کی.
□ روى النسائي في سننه (450) قال: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “أُتِيتُ بِدَابَّةٍ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ خَطْوُهَا عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهَا، فَرَكِبْتُ وَمَعِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَسِرْتُ فَقَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ فَفَعَلْتُ. فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ؟ صَلَّيْتَ بِطَيْبَةَ وَإِلَيْهَا الْمُهَاجَرُ، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ؟ صَلَّيْتَ بِطُورِ سَيْنَاءَ حَيْثُ كَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ”.
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
١. علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس روایت کے راوی مخلد بن یزید اور یزید بن ابی مالک دونوں ایسے راوی ہیں جن کو وہم ہوتا رہتا تھا.
◇ الحافظ ابن حجر رحمه الله تعالى؛ حيث قال: مخلد بن يزيد القرشي الحراني، صدوق له أوهام. (تقريب التهذيب، ص:524).
◇ وقال: يزيد بن عبدالرحمن بن أبي مالك الهمْداني (بالسكون) الدمشقي القاضي، صدوق ربما وهم. (تقريب التهذيب، ص:603).
٢. علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس روایت میں نکارت اور غرابت ہے (یعنی یہ انوکھا اور عجیب متن ہے).
¤ وفيها غرابة ونكارة جدا. (تفسير ابن كثير:5/12).
٣. علامہ البانی نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے.
¤ وقال الألباني رحمه الله تعالى: منكر. كما في “ضعيف سنن النسائي” (449).
¤ خلاصہ تحقیق سفر مصر:
آپ علیہ السلام کا پوری زندگی میں مصر جانا ثابت نہیں، اگر معراج والی روایت کو مان بھی لیا جائے تو وہ دو رکعت نماز پڑھنے کی حد تک ہے.
□ ٣. تیسرا امر:
کسی عیسائی وفد کا آپ علیہ السلام کی خدمت میں آنا:
آپ علیہ السلام کی خدمت میں نجران کے عیسائیوں کا وفد آیا تھا جو اولا مباہلہ کرنا چاہتے تھے لیکن بعد میں معاہدہ کرکے چلے گئے، ان کے علاوہ کسی وفد کی آمد اور آپ علیہ السلام کا ان کو عہد دینا ثابت نہیں.
□ ٤. چوتھا امر:
آپ علیہ السلام کا عیسائیوں کو عہد دینا:
آپ علیہ السلام نے نجران کے عیسائیوں کو عہد ضرور دیا تھا لیکن اس میں باقاعدہ جزیہ کی ادائیگی کو لازم قرار دیا گیا ہے. دلائل نبوہ للبیهقی اور طبقات ابن سعد میں اس معاہدے کا ذکر موجود ہے.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور معاہدہ درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ نہ کسی مستند حدیث کی کتاب اور نہ ہی کسی مستند تاریخ کی کتاب میں اس کا ذکر ملتا ہے.
البتہ نجران کے عیسائیوں کو دیئے گئے عہد کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ یہ معاہدہ اسی معاہدے کو نقل کرکے اپنی طرف سے بنایا گیا ہے کیونکہ دونوں مضامین تقریبا ایک ہی ہیں، لہذا سینٹ کیتھرین چرچ کے معاہدے کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٨ فروری ٢٠٢٠ کراچی