علمائےکرام کی صحبت کا فائدہ
سوال
کیا مندرجہ ذیل روایت کو بیان کیا جاسکتا ہے؟
کیسے علماء کی صحبت میں بیٹھنا چاہیئے؟ رسول کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ: “لا تجلسوا عند کل عالم الا الذی یدعوکم من خمس إلی خمس: من الشک الی الیقین، ومن التکبر الی التواضع، ومن العداوۃ الی النصیحة، ومن الریاء الی الاخلاص، ومن الرغبة الی الزھد.”
ترجمہ: ہر عالم کے پاس نہ بیٹھا کرو، ایسے عالم کی صحبت میں بیٹھو جو تمہیں پانچ چیزوں سے پانچ کی طرف بلاتا ہے.
١- شک سے یقین کی طرف.
٢- تکبر سے عجز وانکساری کی طرف.
٣. عداوت سے خیر خواہی کی طرف.
٤- ریا سے اخلاص کی طرف.
٥- (دنیا میں) رغبت سے زہد کی طرف.
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
اس مضمون کی روایت مختلف اسناد سے منقول ہے اور متعدد علمائےکرام نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے.
● حلیة الاولیاء میں حضرت جابر کی سند:
□ حَدَّثَنَاهُ أَبُوالْقَاسِمِ زَيْدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي بِلالٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ مَهْرَوَيْهِ، ثنا يُوسُفُ بْنُ حَمْدَانَ، ثنا أَبُوسَعِيدٍ الْبَلْخِيُّ، ثنا شَقِيقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الزَّاهِدُ، ثنا عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لا تَجْلِسُوا مَعَ كُلِّ عَالِمٍ ، إِلا مَعَ عَالِمٍ يَدْعُوكُمْ مِنْ خَمْسٍ إِلَى خَمْسٍ: مِنَ الشَّكِّ إِلَى الْيَقِينِ، وَمِنَ الْعَدَاوَةِ إِلَى النَّصِيحَةِ، وَمِنَ الْكِبْرِ إِلَى التَّوَاضُعِ، وَمِنَ الرِّيَاءِ إِلَى الإِخْلاصِ، وَمِنَ الرَّغْبَةِ إِلَى الرَّهْبَة”.
■ اس سند کی تحقیق:
١. اس سند میں عباد بن کثیر من گھڑت روایات بنانے والا ہے.
◇ عَبَّادُ بْنُ كَثِير وضاع.
٢. ابوسعید البلخی مجہول الحال ہے.
◇ أَبُوسَعِيدٍ الْبَلْخِيُّ مجهول الحال.
٣. یوسف بن حمدان بھی مجہول الحال ہے.
◇ يُوسُفُ بْنُ حَمْدَانَ مجهول الحال.
○ حضرت انس والی سند:
١. ابان متروک الحدیث ہے.
◇ أَبَانَ متروك الحديث.
١. ابان متروک الحدیث ہے.
◇ أَبَانَ متروك الحديث.
٢. عباد بن کثیر من گھڑت روایات بنانے والا.
◇ عَبَّادٌ وضاع.
٣. محمد بن خالد مجہول الحال ہے.
◇ مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ: مجهول الحال.
٤. محمد بن زکریا الفارسی مجہول الحال ہے.
◇ مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْفَارِسِيُّ: مجهول الحال.
● اللآلی المصنوعة میں علامہ سیوطی کی تحقیق:
□ لا تَجْلِسُوا مَعَ كُلِّ عَالِمٍ، إلا عالِم يَدْعُوكُمْ مِنْ خَمْسٍ إِلَى خَمْسٍ: مِنَ الشَّكِّ إِلَى الْيَقِينِ، وَمِنَ الْعَدَاوَةِ إِلَى الْمَحَبَّةِ، وَمِنَ الْكِبْرِ إِلَى التَّوَاضُعِ، وَمِنَ الرِّيَاءِ إِلَى الإِخْلاصِ، وَمِنَ الرَّغْبَةِ إِلَى الزُّهْدِ.
¤ ھذا الحدیث موضوع.
علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ یہ روایت من گھڑت ہے، دراصل یہ شقیق بلخی کی وعظ و نصیحت ہوتی تھی جس کو لوگوں نے حدیث سمجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا.
◇ قَالَ أَبُونُعَيْم: كَانَ شقيق يعظ أصحابه، فقال: هذا فهم فِيهِ الرواة فرفعوا.
ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس روایت کو نقل کرنے والوں میں ایک احمد بن عبداللہ الجویباری ہیں جو کہ جھوٹے راویوں میں سے ہیں.
◇ قَالَ الحافظ ابن حجر فِي اللسان: أَحْمَد بْن عَبْدالله هُوَ الجويباري، أحد الكذابين.
خلاصہ کلام
یہ شقیق بلخی رحمه اللہ کا کلام ہے لہذا اس کو ان ہی کی نسبت سے بیان کرنا درست ہے، لیکن اس کلام کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٩ فروری ٢٠٢٠ کراچی