شیعوں کی روایات کی حیثیت
سوال
محترم مفتی صاحب!
عموما علمائےکرام کے بیانات اور تحریروں اور آپ کی تحقیقات میں کثرت سے یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس روایت کو شیعوں نے نقل کیا ہو آپ حضرات اس کی سند کی تحقیق بھی گوارا نہیں کرتے اور اس پر من گھڑت کا حکم لگا دیتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ برائے مہربانی اسکی وضاحت فرمادیجئے…
(سائل: عظیم خان، کراچی)
الجواب باسمه تعالی
علم الرجال اور أحادیث کے متن اور سند پر کلام کے أصول متقدمین اور متأخرین علمائے کرام نے مقرر کر دیئے ہیں.
موجودہ زمانے میں اس علم پر کام کرنے والا محض ناقل ہوتا ہے، ان کی اپنی ذاتی کوئی رائے نہیں ہوتی.
اسی لئے آج کے زمانے کا ہر شخص کسی بھی روایت کے سند یا متن پر اپنی رائے سے کوئی حکم نہیں لگا سکتا بلکہ اس حکم کیلئے متقدمین اور متأخرین محدثین کے آراء پیش کرنا لازم ہے ورنہ اس شخص کی رائے اور تحقیق قابل قبول نہیں ہوگی.
اہل بدعت کی روایات قبول کرنے اور نہ کرنے کے متعلق اصول
شیخ علوان نے اہل بدعت کی روایات کے متعلق علماء کے مختلف اقوال نقل کئے ہیں
قال الشيخ العلوان في شرحه للموقظة:
مذاهب العلماء في حكم رواية المبتدع مختلفہ
○ پہلاقول
جس بدعتی کو اس کے کفر کی وجہ سے کافر کہا جائے اس کی روایات قابل قبول نہیں
■المذهب الأول: من كُفِّرَ ببدعته, فهذا لا يحتج به, على خلاف بين العلماء في الأمور المكفِّرة.
○ دوسرا قول
کسی بدعتی کی روایت بلکل قبول نہیں کی جائے گی یہ ابن سیرین وغیرہ کا قول ہے
■المذهب الثاني: لا تقبل رواية المبتدع مطلقاً, وهذا مذهب ابن سيرين, ويُحكَى عن مالك, وابن عيينة, والحميدي, وآخرين.
○ تیسرا قول
وہ بدعتی جو جھوٹا نہ ہو اس کی روایات قبول کی جائے گی
■المذهب الثالث: يرخص برواية المبتدع مطلقاً, ما لم يتهم بالكذب.
○ چوتھا قول
اگر بدعتی اپنی بدعت کی تائید والی روایات نقل نہیں کرتا تو اس کی روایات قابل قبول ہیں
■المذهب الرابع: يُخَرَّجُ للمبتدع, ما لم يكن داعية, وهذا يُحكَى عن ابن المبارك, وابن مهدي, وقول لأحمد, وهو مذهب ابن حبان رحمه الله في مقدمة صحيحه.
○ پانچواں قول
غالی قسم کے بدعتی کی روایات قبول نہیں کی جائے گی
■المذهب الخامس: تُجتَنب رواية الغلاة, سواء كانوا دعاةً أم لا, ويروى عن غيرهم.
○ چھٹا قول
وہ بدعتی جو کافر نہیں اس کی روایات قبول کی جائے گی بشرطیکہ وہ اپنی بدعت کی تائید کی روایات نقل نہ کرے
■المذهب السادس: يروى عن المبتدع, الذي لا تخرجه بدعته عن الإسلام, ما لم يكن داعيةً, أو يروي ما يؤيد بدعته.
○ ساتواں قول
جو بدعتی کافر نہ ہو اور اس فرقے کی بنیاد جھوٹ پر نہ ہو تو ان کی روایات قبول کی جائے گی لیکن روافض کی روایات قبول نہ ہوگی
■المذهب السابع: يروى عن كل مبتدع, ما لم تخرجه بدعته عن الإسلام, وما لم يكن الأصل في أهل البدعة الكذب, كغلاة الرافضة. وهذا أقرب الأقوال إلى الصواب.
● محدثین کے ہاں شیعہ کے مختلف مراتب:
١. حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ متقدمین کے ہاں شیعہ وہ شخص کہلاتا تھا جو حضرت علی کو حضرت عثمان اور دیگر صحابہ سے افضل قرار دیتا تھا اور یہ کہ حضرت علی حق پر تھے جبکہ ان کے مخالف غلطی پر تھے، لیکن حضرات شیخین کی تقدیم مانتے تھے.
□ قال الحافظ رحمه الله: التشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما.
٢. آگے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص باوجود ورع اور تقوی کے اس بات کا دعوی کرتا کہ حضرت علی آپ علیہ السلام کے بعد سب سے افضل تھے تو اس بات کی وجہ سے اس کی روایات رد نہیں کی جاتی تھیں خصوصا جبکہ وہ اس بات کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو.
□ وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا لاسيما إن كان غير داعية.
٣. اگے لکھتے ہیں کہ متأخرین کے ہاں شیعیت نام ہے روافض کا جن کی روایات کسی صورت بھی قابل قبول نہیں.
□ وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض، فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة. (تهذيب التهذيب:1/81).
٤. امام ذہبی کہتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں:
(١) بدعت صغری، جیسے غالی شیعہ (جو تفضیل علی کے قائل ہوں) یہ لوگ تابعین اور تبع تابعین میں بہت تھے، ان کی روایات مطلقا رد نہیں کی جاسکتیں.
(٢) بدعت کبری، جیسے رافضی کامل جو شیخین کے درجے کو کم کرے، اور اس بات کی دعوت دے، ایسے لوگوں کی روایات بلکل قبول نہیں کی جائینگی.
□ وقال الإمام الذهبي رحمه الله: البدعة على ضربين: فبدعة صغرى: كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق، فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة.
ثم بدعة كبرى: كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة.
٥. ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ سلف کے زمانے میں غالی شیعہ وہ ہوتا تھا جو حضرت علی کے مقابلے میں آنے والے صحابہ کرام کو غلط کہتا تھا اور ان کے بارے میں زبان درازی کرتا تھا، جبکہ ہمارے زمانے میں غالی شیعہ (روافض) وہ ہوتا ہے جو ان حضرات کو کافر کہے اور حضرات شیخین سے براءت کا اعلان کرے، ایسا شخص گمراہ ہے.
□ فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو مَن تَكَلَّم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضى الله عنه، وتعرض لسبهم.
والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضا، فهذا ضال معثَّر. (ميزان الاعتدال: 1/5-6).
● شیعہ (روافض) کے بارے میں علماء کی رائے:
١. علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ تمام محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام فرقوں میں سے شیعہ سب سے زیادہ جھوٹے ہیں.
□ قال شيخ الإسلام ابن تيمية: ومن تأمل كتب الجرح والتعديل المصنفة في أسماء الرواة والنقلة وأحوالهم، مثل كتب يحيى بن معين، والبخاري، وابن عدی والدارقطنی وغیرھم، وأمثال هؤلاء الذين هم جهابذةٌ ونقادٌ، وأهلُّ معرفةٍ بأحوال الإسناد، رأى المعروف عندهم الكذبَ في الشيعة أكثر منهم في جميع الطوائف. (منهاج السنة النبوية:1/18).
٢. امام مالک فرماتے ہیں کہ روافض سے نہ تو بات کرو نہ ہی ان سے روایات نقل کرو.
□ قال الإمام مالك، وقد سئل عن الرافضة: لا تكلمهم ولا ترو عنهم، فإنهم يكذبون.
٣. امام شافعی کہتے ہیں کہ میں نے شیعوں سے زیادہ جھوٹی گواہی دینے والا کسی کو نہیں دیکھا.
□ وقال الإمام الشافعي: لم أرَ أحداً أشهد بالزور من الرافضة.
٤. أعمش کہتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے لوگ روافض کو جھوٹا کہہ کر پکارتے تھے.
□ وقال الأعمش: أدركتُ الناسَ وما يسمُّونهم (أي الرافضة) إلا الكذابين.
٥. یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ہم ہر صاحبِ بدعت کی روایت نقل کرتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنی بدعت کی دعوت دینے والا نہ ہو، لیکن روافض کی روایات ہرگز نقل نہیں کرینگے کیونکہ وہ جھوٹے ہیں.
□ وقال يزيد بن هارون: نكتبُ عن كل صاحبِ بدعةٍ إذا لم يكن داعيةً إلا الرافضة، فإنهم يكذبون.
٦. شریک بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جس سے ملو اس سے علم حاصل کرو مگر روافض سے نہیں، کیونکہ یہ روایات گھڑتے ہیں اور اسی کو دین بناتے ہیں.
□ وقال شريك بن عبدالله: احمِل العلمَ عن كل من لقيتَ إلا الرافضة، فإنهم يضعون الحديث، ويتخذونه ديناً.
٧. عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ دین تو محدثین کے پاس ہے اور حیلے اور کلام اہل رائے کے پاس اور جھوٹ روافض کے پاس.
□ وقال عبدالله بن المبارك: الدينُ لأهل الحديث، والكلامُ والحيلُ لأهل الرأي، والكذبُ للرافضة. (المنتقى من منهاج الاعتدال للذهبي، ص:480).
٨. علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ روافض مخلوق میں سب سے زیادہ جھوٹے ہیں.
□ وقال العلامة ابن القيم: الرافضةُ أكذبُ خلق الله. [المنار المنيف (ص:52)، وانظر منهاج السنة النبوية (1/16) فما بعدها].
خلاصہ کلام
متقدمین محدثین نے متقدمین شیعوں کی روایات اپنی کتابوں میں ضرور نقل کی ہیں لیکن بعد کے علماء اور محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روافض کی کتابوں میں سوائے جھوٹ کے کچھ بھی نہیں ملتا، لہذا ایسی روایات جو صرف شیعہ کتب میں منقول ہوں اور اس کی کوئی معتبر سند نہ ہو وہ قابل قبول نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٢ فروری ٢٠٢٠ کراچی