حق چار یار
سوال
مندرجہ ذیل مضمون کے بارے میں آپ کی رائے اور تحقیق مطلوب ہے…
حق چار یار کے نعرے کو فروغ دینا معمولاتِ اہلِ سنت نہیں ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یار کہنا کیسا ہے؟ کیا کوئی صحابی حضور کا یار ہے؟ یا کسی صحابی کو رسول اللہ کا یار کہا جاسکتا ہے؟
یار کیلئے عربی میں خلیل کا لفظ بولا جاتا ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مسئلہ حل فرما دیا..
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ الله عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَابَكْرٍ وَلَكِنْ أَخِي وَصَاحِبِي”.
ترجمہ: اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو یار بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے دینی بھائی اور صحابی ہیں (یعنی صحبت یافتہ)…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیل یعنی یار ہونے کی نفی کردی، فقط دینی بھائی اور صحبت یافتہ مانا ہے. جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یار نہیں کہلائے جاسکتے تو باقی کون صحابی ہوسکتا ہے جسے یار کہا جاسکے، پس نعرہ حق چار یار اس صحیح حدیث سے متعارض ہے.
پس ان احادیث سے ثابت ہوا کہ صحابیت کا معنی یاری نہیں اور رسول اللہ کی خلت یعنی یاری فقط اللہ کے ساتھ ہے.
صحابی کا معنی ساتھی ہے یار نہیں، اسی لئے ابوبکر کے خلیل ہونے کی نفی آئی ہے.
صحابہ کرامؓ اور خلفائے رسول اللهﷺ:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِالله قال: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنَّ الله جَلَّ وَعَلا اخْتَارَ أَصْحَابِی عَلَى جَمِيعِ الْعَالَمِينَ سِوَى النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، وَاخْتَارَ مِنْ أَصْحَابِي أَرْبَعَةً: أَبَابَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيًّا رِضْوَانُ اللہ عَلَيْهِمْ، فَجَعَلَهُمْ أَصْحَابِي”. (رواہ البزار، رجاله ثقات، مجمع الزوائد: ج: ١٠، ص: ١٦)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ بیشک میرے صحابہ کو الله تعالیٰ نے سارے جہاں والوں میں سے پسند فرمایا ہے سواۓ انبیاء اور رسولوں کے، اور پسند کیا میرے لئے میرے صحابہ میں سے چار کو، (جو) ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضوان الله علیهم (ہیں)، بس بنادیا ان کو میرے ساتھی.
اس روایت میں صحابی سے مراد ساتھی ہے یار نہیں.
اس مضمون کو طوالت کی وجہ سے کچھ مختصر کیا گیا ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور مضمون درست نہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں:
● ١. پہلی وجہ:
لفظ یار کا معنی خلیل سے کرنا اور اردو میں صحابہ کیلئے اس کے استعمال کو غلط قرار دینا کسی بھی لغت کے اعتبار سے درست نہیں.
○ خلیل کے لغوی اور اصطلاحی معنی:
خَلِیۡلًا: گہرا دوست۔ خُلَّت کے معنی ہیں غیر سے مُنقطع ہوجانا، یہ اس گہری دوستی کو کہا جاتا ہے جس میں دوست کے غیر سے اِنقِطاع ہو جائے۔
ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ خلیل اس محب کو کہتے ہیں جس کی محبت کامل ہو اور اس میں کسی قسم کا خَلَل اور نقصان نہ ہو. یہ معنیٰ حضرت ابراہیم عَلَیْه الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں پائے جاتے ہیں۔
حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خلیل بھی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے.. نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بےشک اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْه الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا خلیل بنایا اسی طرح مجھے بھی اپنا خلیل بنایا ہے۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النهى عن بناء المساجد علی القبور۔۔۔ الخ، ص۲۷۰، الحدیث: ۲۳(۵۳۲)
○ تعريف الخُلَّة:
ابن اثیر کہتے ہیں کہ خلیل اس دوست کو کہتے ہیں جس کی دوستی اور محبت دلوں میں پیوست ہوگئی ہو.
□ قال ابن الأثير: الخُلة بالضم: الصداقة والمحبة التي تخللت القلب، فصارت خلاله؛ أي: في باطنه.
☆ گویا خلیل کا معنی اردو میں یار سے کیا جاسکتا ہے، لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محبت کو اللہ تبارک و تعالی کیلئے خاص کردیا تھا.
□ لفظ یار کیلئے قرآن مجید میں مستعمَل لفظ:
خِدْنُ [عام] (اسم)= دوست، یار، ساتھی. (٢) ہم راز، یارِ غار، گہرا دوست (مذکر و مؤنث دونوں کے لئے) ج: أخدان.
قرآن پاک میں ہے: {وآتوھن اجورھن بالمعروف محصنات غیر مسافحات ولا متخذات اخدان} دوسری جگہ ہے: {ولا متخذی اخدان} کہ یہ عورتیں یار نہ بنائیں.
هو خِلْصِيْ [عام]
(اسم): وہ میرا یارِ غار ہے.
● ٢. دوسری وجہ:
صحابہ کرام کا آپ علیہ السلام کیلئے لفظ “خلیل” استعمال کرنا:
١. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی کہ مرتے دم تک انکو نہ چھوڑوں: ہر مہینے کے تین روزے، چاشت کی نماز، اور سونے سے پہلے وتر.
□ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: أوصاني خليلي بثلاث لا أدعهن حتى أموت: صوم ثلاثة أيام من كل شهر، وصلاة الضحى، ونوم على وتر. (رواه البخاري:1124، ومسلم:721).
٢. ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل نے سات چیزوں کا حکم دیا…الخ
□ أمَرَني خَليلي صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بسَبعٍ: أمَرَني بحُبِّ المَساكينِ، والدُّنُوِّ منهم، وأمَرَني أنْ أنظُرَ إلى مَن هو دوني، ولا أنظُرَ إلى مَن هو فَوْقي، وأمَرَني أنْ أصِلَ الرحِمَ وإنْ أدبَرَتْ، وأمَرَني ألَّا أسأَلَ أحَدًا شيئًا، وأمَرَني أنْ أقولَ بالحقِّ، وإنْ كان مُرًّا، وأمَرَني ألَّا أخافَ في اللهِ لَومةَ لائمٍ، وأمَرَني أنْ أُكثِرَ من قولِ: لا حَولَ ولا قُوَّةَ إلَّا باللهِ؛ فإنَّهُنَّ من كَنزٍ تحتَ العَرشِ.
– الراوي: أبوذر الغفاري.
– المحدث: شعيب الأرناؤوط.
– المصدر: تخريج المسند.
– الصفحة أو الرقم: 21415.
– خلاصة حكم المحدث: صحيح.
صحابی نے آپ علیہ السلام کو خلیل اس لئے کہا کہ وہ آپ علیہ السلام سے اپنی محبت کی شدت کو بیان کرنا چاہتے تھے.
□ قولَه: “خليلي” مكانَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ؛ إظهارًا لغايةِ تعطُّفِه وحبِّه الشديدِ للنبيِّ صلَّى اللہ علیه وسلم.
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ صحابی نے آپ علیہ السلام کو خلیل کہا کیونکہ وہ آپ علیہ السلام کے ساتھ اپنے تعلق پر فخر کرنا چاہتے تھے اور اہل اللہ کی صحبت واقعی باعث افتخار ہے بشرطیکہ اس میں خود کی بڑائی مقصود نہ ہو.
□ وقوله: “خليلي”. قال الحافظ ابن حجر في فتح الباري: ويؤخذ منه الافتخار بصحبة الأكابر، إذا كان ذلك على معنى التحدث بالنعمة والشكر لله لا على وجه المباهاة.
○ حدیث اور صحابی کے قول میں تعارض:
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ صحابی کا خلیل کہنا آپ علیہ السلام کی حدیث سے متعارض نہیں کیونکہ آپ علیہ السلام نے خود کسی کو خلیل بنانے سے منع فرمایا (یعنی کہ میں دنیا میں کسی کو خلیل نہیں بناؤنگا) لیکن کوئی مجھے خلیل بنائے اس سے منع نہیں فرمایا.. گویا ابوہریرہ اور ابوذر رضی اللہ عنہما یہ بتارہے ہیں کہ ہمارے دل میں آپ علیہ السلام کی محبت پیوست ہوچکی اور آپ علیہ السلام ہمارے خلیل بن چکے.
□ وليس في قول أبي هريرة رضي الله عنه تعارض مع قوله عليه الصلاة والسلام: “لو كنت متخذا من أمتي خليلا لاتخذت أبابكر خليلا، ولكن صاحبكم خليل الله”. (متفق عليه) لأن أباهريرة لم يُخبر أن النبي صلى الله عليه وسلم اتَّخَذه خليلا، ولكنه يُخبر عن نفسه أن النبي صلى الله عليه وسلم خليله، أي أن الْخُلّة مِن جِهة أبي هريرة رضي الله عنه.
تیسری وجہ
☆ اردو زبان میں لفظ “یار” کا استعمال:
اردو لغات میں یار کا معنی دوست، ساتھی کے کیا گیا ہے
مطلب کا آشنا، دوست، ساتھی، یار
خلاصہ کلام
مضمون نگار نے اس بات پر زور دیا تھا کہ لفظ یار اور خلیل کا معنی ایک ہے اور آپ علیہ السلام نے کسی انسان کیلئے اس لفظ کو استعمال نہیں فرمایا لہذا ہم بھی کسی کو آپ علیہ السلام کا یار نہ کہیں
اس بات سے بلکل بھی اتفاق نہیں کیونکہ ہر زبان کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر کچھ الفاظ کو استعمال کیا جاتا ہے.
اردو زبان میں یار کا استعمال بہت قریبی ساتھی اور جگری دوست کیلئے ہوتا ہے اور چاروں خلفائے راشدین آپ علیہ السلام کے قریبی ساتھی تھے، لہذا چار یار کا لفظ استعمال کرنا کسی صورت بھی غلط نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٥ فروری ٢٠٢٠ کراچی