ایک یہودی کے اسلام لانے کا عجیب واقعہ
سوال
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ملک شام میں ایک یہودی رہتا تھا، وہ ہفتہ کے دن تورات کی تلاوت کیا کرتا تھا… ایک دفعہ جب اس نے تورات کھولی تو اس میں چار مقامات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف دیکھی، یہودی نے وہ جگہ کاٹ کر جلا دی، اگلے ہفتہ پھر تورات کھولی تو آٹھ جگہوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور وصف کا ذکر پایا، اس نے یہاں سے بھی کاٹ کر جلا دیا، تیسرے ہفتہ تورات کھولی تو یہی ذکر بارہ جگہ موجود پایا… یہودی یہ سوچنے لگا کہ اگر میں یوں ہی کرتا رہا تو ساری کی ساری تورات اس ذکر سے پُر ہوجائےگی، اپنے ساتھیوں سے پوچھنے لگا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ تو انہوں نےبتایا کہ ایک جھوٹا شخص ہے، (معاذ اللہ) بہتر یہی ہے کہ تو اسے نہ دیکھے، یہودی کہنے لگا: موسی علیہ السلام کی تورات کی قسم! مجھے اس کی زیارت سے نہ روکو، ساتھیوں نے اجازت دے دی، یہ اپنی سواری پر سوار ہو کر رات دن منزل بمنزل چلتا رہا، مدینہ طیبہ کےقریب پہنچا تو سب سے پہلے حضرت سلمان سے ملاقات ہوئی، بہت خوبصورت دیکھ کر وہ سمجھا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حالانکہ آپ علیہ السلام کو اس دنیا سے سفر کئے تین دن ہو چکے تھے، حضرت سلمان اس کی بات سن کر روئے اور کہا کہ میں تو ان کا خادم ہوں، اس نے پوچھا کہ آپ علیہ السلام کہاں ہیں؟ اب سلمان سوچنے لگے کہ اگر وصال کی خبر سناتا ہوں تو واپس ہو جائےگا اور اگر یہ کہہ دوں کہ موجود ہیں تو جھوٹ ہوگا… بالآخر کہنے لگے کہ میں تجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے پاس لے چلتا ہوں، مسجد میں آئے تو سب کے سب صحابہ غم کی تصویر بنے ہوئے تھے، وہ یہودی یہ سمجھ کر کہ ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور موجود ہوں گے، اس نے السلام علیك یا محمد کا کلمہ پکارا، جس سے تمام صحابہ میں کہرام مچ گیا اور آہ و بکاہ کرنے لگے اور اس سے پوچھنے لگے کہ تو کون ہے؟ جس نے ہمارا زخم تازہ کر دیا ہے، کوئی اجنبی شخص معلوم ہوتا ہے، شاید تجھے معلوم نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تین روز پہلے وصال ہو چکا ہے…
یہ سن کر وہ یہودی چیخنے لگا: ہائے میرا غم، ہائے میرے سفر کی ناکامی، اے کاش میری ماں مجھے نہ جنتی، جن ہی دیا تو کاش میں تورات نہ پڑھتا اور وہ بھی پڑھی تھی تو کاش آپ کی تعریف و توصیف پر نظر نہ پڑتی اور اگر یہ بھی ہو گیا تھا تو مجھے آپ کی زیارت بھی نصیب ہو جاتی، پھر کہنے لگا: یہاں پر علی موجود ہیں جو مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور حلیہ مبارک کا تعارف کرائیں…
حضرت علیؓ آگے بڑھے اور فرمایا: میرا نام علی ہے، وہ بولا کہ میں نے تیرا نام تورات میں دیکھا ہے، حضرت علیؓ نے حلیہ مبارک بیان کرنا شروع کیا کہ آپ نہ حد سے زیادہ لمبے اور نہ ہی زیادہ چھوٹے تھے، سر مبارک گول تھا اور پیشانی کشادہ، آنکھوں کی سیاہی خوب سیاہ تھی، پلکیں دراز تھیں، ہنسی کے وقت دانتوں سے نورانی شعاع نکلتی تھی، سینہ سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی، ہتھیلیاں پُرگوشت تھیں، قدموں کے تلوے قدرے گہرے تھے، بدن کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں، مثلاً: کہنیاں اور گھٹنے، آپ کے شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی…
یہودی کہنے لگا: علی! تو نے جو کچھ بتایا صحیح بتایا، تورات میں آپ کی تعريف و توصیف اسی طرح موجود ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا ہو تو میں اسے سونگھنا چاہتا ہوں، فرمایا: ہاں، سلمان جاؤ فاطمہ سے کہو کہ اپنے ابا کا جبہ ذرا بھیج دو، سلمان دروازے پر آئے اور آواز دی لیکن اندر حسن و حسین رضی اللہ عنہما رو رہے تھے، لہذا دروازے کو کھٹکھٹانا پڑا تو حضرت فاطمہ کی آواز آئی کہ یتیموں کا دروازہ کون کھٹکا رہا ہے؟ حضرت سلمان نے اپنا نام بتایا اور حضرت علیؓ کا پیغام دیا، وہ روتے ہوئے بولیں کہ میرے ابا کا جبہ کون پہنےگا؟ حضرت سلمان نے سارا قصہ سنایا، وہ جبہ نکال کر لے آئیں، جو سات جگہ سے کھجور کے ریشہ سے سلا ہوا تھا، حضرت علیؓ نے اسے پکڑ کر سونگھا، پھر دوسرے صحابہ کرام نے، پھر یہودی پکڑ کر سونگھنے لگا اور کہتا تھا: واہ! کیسی عمدہ خوشبو ہے، پھر قبر شریف پر حاضر ہوا اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہنے لگا: اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تو واحد ہے، یکتا و یگانہ ہے، کائنات تیری نیازمند اور تو بےنیاز ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ اس قبر شریف والا تیرا حبیب ہے، جو کچھ اس نے فرمایا میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس پر ایمان لاتا ہوں… اے اللہ! اگر میرا اسلام تیری بارگاہ میں قبول ہے تو میری روح کو ابھی قبض کر لے.. یہ کہہ کر وہیں گر کر جان دے دی…
حضرت علیؓ نے اسے غسل دیا اور جنت البقیع میں دفن کروایا… (حوالہ: تنبيه الغافلین، صفحہ:579)
کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں اور نہ ہی کسی موضوعات کی کتابوں میں موجود ہے، لہذا اس واقعے کو بیان کرنا اور پھیلانا درست نہیں.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں اور نہ ہی کسی موضوعات کی کتابوں میں موجود ہے، لہذا اس واقعے کو بیان کرنا اور پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١١ مارچ ٢٠٢٠ کراچی