ناظرہ قرآن پڑھنے کی ایک خاص فضیلت
سوال
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق مطلوب ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص روزانہ قرآن کریم کی دو سو(٢٠٠) آیات دیکھ کر تلاوت کرےگا اسکی قبر کے اردگرد کی سات قبر والوں کے حق میں اسکی شفاعت قبول کی جائےگی اور اللہ تعالی اسکے والدین کے سر سے بھی عذاب ہلکا کردےگا اگرچہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں.. (حوالہ: کنزالعمال، جلد: ١، صفحہ: ٥٣٨، حدیث نمبر: ٢٤٠٨)
کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب میں منقول ہے
رواه ابن شاهين في الترغيب (192) وابن ابي داود في المصاحف (لم أقف عليه فيه) والديلمي من طريق خلف ابن يحيى، ثنا إسماعيل بن عياش، عن بحير بن سعد، عن خالد بن معدان، عن أبي الدرداء، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من قرأ مائتي آية في كل يوم نظرا؛ شفع في سبعة قبور حول قبره، وخفف الله عن والديه وإن كانا مشركين
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت درست نہیں کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی خلف بن یحیی ہے جو روایات گھڑتا تھا
◇ ھذہ الروایة لا تصح لأن فی سندہ خلف بن يحيى الذی يضع الحديث
○ خلف بن يحيى الْخُرَاسَانِي
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال
. ابن جوزی نے اپنی کتاب الضعفاء والمتروکون میں لکھا ہے کہ ابوحاتم نے اس کو کذاب (جھوٹا) کہا ہے
◇ قال ابن الجوزي فی الضعفاء والمتروكون: قَالَ أَبُوحَاتِم الرَّازِي: كَذَّاب لَا یشتغل بحدیثه
بن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں اپنے والد کا قول نقل کیا ہے کہ یہ شخص جھوٹا، متروک الحدیث ہے، اس کی روایات میں مشغول نہیں ہونا چاہیئے.
☆ گویا خلیل کا معنی اردو میں یار سے کیا جاسکتا ہے، لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اقال ابن أبي حاتم الرازي فی الجرح والتعديل: خلف بن يحيى الخراساني بخاري قاضي الري روى عن إبراهيم بن حماد المصري روى عنه يحيى بن عبدك القزويني سمعت أبي يقول ذلكس محبت کو اللہ تبارک و تعالی کیلئے خاص کردیا تھا.
وسألته عنه فقال: متروك الحديث كان كذابا لا يشتغل به ولا بحديثه
● اس مضمون کی ایک اور روایت
جو ناظرہ قرآن پڑھ لےگا اللہ تعالی اس کے والدین سے عذاب ہٹالینگے اگرچہ وہ کافر ہوں
وروى نحوه ابن حبان في المجروحين (311/2) ومن طريقه رواه ابن الجوزي في الموضوعات (245/1) من طريق محمد بن المهاجر عن أبي معاوية عن عبيدالله بن عمر العُمَرِي عن نافع عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من حفظ القرآن نظراً، خفف الله العذاب عن والديه، وإن كانا كافرين
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت
١. یہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ اس کا راوی محمد بن مہاجر من گھڑت روایات بناتا تھا.
◇ محمد بن المهاجر يضع الحديث. قال ابن طاهر المقدسي في المعرفة (210/1): فيه محمد بن المهاجر يضع الحديث.
٢خطیب بغدادی نے اپنی سند سے یہ بات نقل کی ہے کہ محمد بن مہاجر اخو حنیف مخلوق میں سب سے بڑا جھوٹا ہے، وہ ان لوگوں سے روایات نقل کرتا ہے جو اس کی پیدائش سے 30 سال پہلے انتقال کرچکے ہیں
قال الخطيب البغدادي فی تاريخ بغداد: محمد بن مهاجر، أبوعبدالله القاضي، يعرف بأخي حنيف: حدّثنا أبوبكر البرقاني قَالَ: قَالَ مُحَمَّد بْن العباس العصمي: حَدَّثَنَا أَبُوالفضل يَعْقُوب بن إِسْحَاق بن محمود الهرويّ حدثنا صالح بن محمد الأسدي. قَالَ: محمد ابن مهاجر أخو حنيف أكذب خلق الله، يحدث عن قوم ماتوا قبل أن يولد هو بثلاثين سنة، واعرفه بالكذب منذ خمسين سنة
٣. دارقطنی سے منقول ہے کہ محمد بن مہاجر متروک راوی ہے.
◇ حدّثنا البرقاني قَالَ سمعت الدارقطني يقول: محمد بن مهاجر أخو حنيف بغدادی متروك.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٢ مارچ ٢٠٢٠ کراچی