تنبیہ نمبر 281

حضرت فاطمہ کا مہر امت کی شفاعت

سوال
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
جب حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے وصال کا وقت آیا تو آپ سلام اللہ علیہا نے حضرت سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے فرمایا کہ گھر میں فلاں جگہ ایک تحریر پڑی ہے جو میں نے بڑی حفاظت سے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے، اس تحریر کو میرے کفن میں رکھ دینا، اسکو پڑھنا نہیں۔ مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: اے جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم آپ سلام اللہ علیہا کو واسطہ ہے سرکار کل جہاں صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کا اس راز سے پردہ اٹھا دیجئے کہ اس کاغذ کے ٹکڑے پر جو کچھ لکھا ہے۔
خاتون جنت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا فرمانے لگیں کہ جب آپ کرم اللہ وجہہ الکریم سے میرا نکاح ہونے لگا تھا اس وقت میرے بابا حضور تاجدار عرب وعجم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ چار سو مثقال چاندی مہر کے بدلے آپ سلام اللہ علیہا کا نکاح حضرت سیدنا مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے، آپ سلام اللہ علیہا کو قبول ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم تو قبول ہیں لیکن اتنا تھوڑا مہر قبول نہیں، میں شہنشاہ کل عالم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کی بیٹی ہوں، اسی دوران جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں یا رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم! اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ جنت اور اس کی تمام نعمتیں فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا كا مہر مقرر کر دوں؟ بابا جان صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے مجھ سے پوچھا اور جب میں نے اس کو قبول نہ کیا تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ خود بتائیں، میں نے عرض کیا کہ میں نے بچپن سے لے کر اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے غم میں روتے دیکھا ہے، آج اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیه واله واصحابہ وسلم میری مرضی کا حق مہر ادا کرنا چاہتے ہیں تو گنہگار امت کی بخشش، یہی حق مہر مجھے قبول ہوگا، اس وقت حضرت جبرائیل امین علیہ السلام بارگاه خداوندی سے یہ تحریر لے کر حاضر ہوئے تھے:
“جعلت شفاعة امة محمد صلی اللہ علیه واله وسلم صداق فاطمة” یعنی میں نے امت محمد صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کی شفاعت کو فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مہر مقرر کیا ہے.
وعدہ خاوندی کا یہ کاغذ ساری زندگی میں نے سنبھالے رکھا، میں چاہتی ہوں کہ جب میں اس جہاں سے اگلے جہاں جاؤں جس میں گنہگاروں کی بخشش اور شفاعت کا اختیار اللہ تعالیٰ نے مجھے حق مہر کی صورت عطا کیا وہ ساتھ لے جاؤں. (حوالہ: سچی حکایات، جلد دوم، ص:230، جامع المعجزات مصری، ص:92)
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعہ شیعوں کی مختلف کتب میں کچھ کمی اور اضافے کے ساتھ منقول ہے.

١. كشف الغمة (ج: ۱، ص: ۴۹۷).
۲. بحار الأنوار (ج: ۲۲، ص: ۵۳۵).
۳. عوالم العلوم (ج: ۱۱، ص: ۹۲۵).
المتن:
قال أحمد الدمشقي: قد ورد في الخبر أن فاطمة عليها السّلام لما سمعت بأن أباها زوّجها وجعل الدراهم مهرا لها، فقالت: يارسول الله! إن بنات الناس تتزوّجن بالدراهم، فما الفرق بيني وبينهنّ؟ أسألك أن تردّها وتدعو الله تعالى أن يجعل مهري الشفاعة في عصاة أمتك. فنزل جبرئيل ومعه بطاقة من حرير مكتوب فيها: جعل الله مهر فاطمة الزهراء عليها السّلام شفاعة المذنبين من أمة أبيها. فلما احتضرت، أوصت بأن توضع تلك البطاقة على صدرها تحت الكفن، فوضعت. وقالت: إذا حشرت يوم القيامة، رفعت تلك البطاقة بيدي وشفّعت في عصاة أمة أبي.
المصادر:
۱.أخبار الدول، (ص: ۸۸) على ما في الإحقاق.
۲. إحقاق الحق، (ج: ۱۰، ص: ۳۶۷).
۳. نزهة المجالس، (ج: ۲، ص:۲۲۵) على ما في الإحقاق، بتفاوت واختصار.
۴. المحاسن المجتمعة، (ص: ۱۹۴) على ما في نزهة المجالس.
۵. تجهيز الجيش، (ص: ۱۰۲) عن أخبار الدول.
۶. عوالم العلوم، (ج: ۱۱، ص: ۱۱۸۸) عن أخبار الدول.
۷. فاطمة الزهراء عليها السّلام من المهد إلى اللحد، (ص:۱۸۵) عن نزهة المجالس.
□ بعض کتب میں اضافہ:

حضرت فاطمہ نے اس وقت دعا کی کہ اے اللہ! میں آپ کو تمام پاکیزہ لوگوں کا واسطہ دیتی ہوں اور اپنے بچوں کے رونے کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ میرے گناہگار شیعوں اور میرے بچوں کے شیعوں کو معاف فرمادیں.

○ إِلَهِی وَسَیدِی! اسْئَلُك بِالَّذینَ اصْطَفَیتَهُمْ وَبِبُکاءِ وَلَدَی فی مُفارِقَتی انْ تَغْفِرَ لِعُصاةِ شیعَتی وَشِیعَةِ ذُرِّیتِی.

اور مزید اضافہ ہے کہ اے میرے مالک! میری اولاد اور میرے شیعہ اور میری اولاد کے شیعہ اور مجھ سے محبت کرنے والے اور میری اولاد سے محبت کرنے والوں کی مغفرت فرما.

○ إِلَهِی وَسَیدِی ذُرِّیتِی وَشِیعَتِی وَشِیعَةُ ذُرِّیتِی وَمُحِبِّی وَمُحِبِّ ذُرِّیتِی.
خلاصہ کلام

سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، بلکہ یہ شیعوں کی من گھڑت باتیں ہیں جن کو بعض کمزور کتب میں نقل کیا گیا ہے، لہذا اس کو بیان کرنا اور پھیلانا ہرگز درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٣ مارچ ٢٠٢٠ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں