حج بیت اللہ کا رک جانا
سوال
ایک روایت کثرت سے عام ہو رہی ہے کہ بیت اللہ کا حج رک جائےگا، اور موجودہ حالات پر اسکو منطبق کیا جارہا ہے…
اس بارے میں آپ کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ حج بیت اللہ اور طواف کا انقطاع تاریخ میں کئی بار پیش آچکا ہے اور مستقبل میں بھی ایسے کسی واقعے کا پیش آنا ناممکن نہیں.
■ ماضی میں حج کے رک جانے کے واقعات:
١. پہلی مرتبہ: 251 ہجری میں:
حضرت حسن کی اولاد میں اسماعیل بن یوسف نے حاجیوں پر حملہ کیا اور ایک لاکھ سے زائد حاجیوں کو قتل کیا اور اس سال حج نہ ہوسکا. (ابن کثیر)
□ وفيها ظهر إسماعيل بن يوسف بن إبراهيم بن موسى بن عبدالله بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثم عاد إلى مكة لا جزاه الله خيرا عن المسلمين، فلما كان يوم عرفة لم يمكن الناس من الوقوف نهارا ولا ليلا، وقتل من الحجيج ألفا ومائة، وسلبهم أموالهم، ولم يقف بعرفة عامئذ سواه.
٢. دوسری مرتبہ: 317 ہجری میں:
قرامطہ (جو شیعوں کی ایک قسم تھی ان) کی وجہ سے 317 ھجری میں حجاج قتل ہوئے، حجر اسود نکال کر لے گئے اور دس سال تک حج موقوف رہا.
□ سنة 317، حيث كانت مركز دعوتهم وعاصمة دولتهم، وكان أبوطاهر قد بنى بها دارا سماها دار الهجرة، فوضع فيها الحجر الأسود ليتعطل الحج إلى الكعبة ويرتحل الناس إلى مدينة “هجر”، وقد تعطل الحج فى هذه الأعوام يقال إنها 10 أعوام، حيث لم يقف أحد بعرفة ولم تؤد المناسك.
٣. تیسری مرتبہ: 357 ہجری میں:
اس بار مکہ مکرمہ میں ماشری نام کی وبا پھیل گئی جس کی وجہ سے بہت سارے حاجی انتقال کرگئے اور بہت کم لوگوں نے حج کیا.
□ كما توقّف الحج سنة 357هـ، ويُقال بأنها بسبب انتشار ما يُسمّى بـ(داء الماشري) في مكة المكرمة، وبسببه مات الحجاج، وماتت جمالهم في الطريق من العطش، ولم يصل منهم إلى مكة سوى القليل.
٤. چوتھی مرتبہ: 390 ہجری میں:
اس سال مہنگائی کی وجہ سے لوگوں نے حج نہیں کیا.
□ وسحب الدارة، فقد، تعطّل الحج في سنة 390هـ بسبب شّدة الغلاء.
٥. پانچویں بار: 492 ہجری میں:
راستوں پر خطرے کی وجہ سے حج نہ ہوسکا.
□ مشيرة إلى أنه «في سنة 492هـ، لم يحج أحد، بسبب ما حلَّ بالمسلمين من ارتباك وفقدان للأمن في أنحاء دولتهم الكبيرة؛ بسبب النزاع المستشرى بينهم، وقبل سقوط القدس في يد الصليبيين بخمس سنوات فقط.
● مختلف وباوؤں اور بیماریوں کی وجہ سے حج کا رک جانا:
١. 1246 ہجری میں ہندوستان سے ایک وبا (وائرس) کی وجہ سے بہت سے حجاج انتقال کر گئے.
□ وتابعت «الدارة»: انتشر سنة 1246هـ وباء قادم من الهند وقتل ثلاثة أرباع الحجاج.
٢. 1837 سے 1892 تک مختلف سالوں میں مختلف وبائیں پھیلتی رہیں جس کی وجہ سے ہزاروں حجاج شہید ہوئے.
□ وفي سنة 1837م تفشّت الأوبئة بالحج واستمرت حتى 1892م، وشهدت تلك الفترة موت ألف من الحجاج يوميًا؛ نظرًا لتفشّي وباء شديد الخطورة.
٣. 1871 میں کولیرا نامی وبا (وائرس) جو مدینہ منورہ میں پھیلا تھا اس کی وجہ سے عرفات اور منی میں حجاج کی کثرت سے اموات واقع ہوئی تھیں.
□ في سنة 1871 ضرب المدينة المنورة وباء، كما شهدت تفشّي وباء يُعرف بالكوليرا، الذي انتشر في موسم الحج، وتزايدت الوفيات في عرفات، وبلغت ذروتها في منى.
■ قرب قیامت والی روایات کا جائزہ:
١. پہلی روایت:
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُحَجَّ الْبَيْتُ”. یعنی قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ بیت اللہ کا حج موقوف نہ ہو جائے۔ (صحیح بخاری، كتاب الحج، حدیث:1593)
٢. دوسری روایت:
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لَيُحَجَّنَّ الْبَيْتُ وَلَيُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ”.
بیت اللہ کا حج اور عمرہ یاجوج اور ماجوج کے خروج کے بعد بھی ہوتا رہےگا۔ (صحیح بخاری، كتاب الحج، حدیث:1593)
□ دو اور اہم روایات:
٣. تیسری روایت:
حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللہ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “يَغْزُو جَيْشٌ الْكَعْبَةَ، فَإِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللہ! كَيْفَ يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، وَفِيهِمْ أَسْوَاقُهُمْ وَمَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ؟ قَالَ: يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، ثُمَّ يُبْعَثُونَ عَلَى نِيَّاتِهِمْ”.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرےگا۔ جب وہ ایک کھلے میدان میں پہنچےگا تو انہیں اول سے آخر تک سب کو زمین میں دھنسا دیا جائےگا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا: یارسول اللہ! ان تمام کو کیوں کر دھنسایا جائےگا جب کہ وہیں ان کے بازار بھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو ان لشکریوں میں سے نہیں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان سب کو دھنسا دیا جائےگا۔ پھر ان کی نیتوں کے مطابق وہ اٹھائے جائیں گے۔ (صحیح بخاری، كتاب البيوع، حدیث: 2118)
٤. چوتھی روایت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ”.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا ایک حبشی برباد کر دےگا۔ (صحیح بخاری، كتاب الحج، حدیث:1591)
٥. سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “كَأَنِّي بِهِ أَسْوَدَ أَفْحَجَ يَقْلَعُهَا حَجَرًا حَجَرًا”. یعنی گویا میری نظروں کے سامنے وہ پتلی ٹانگوں والا سیاہ آدمی ہے جو خانہ کعبہ کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکےگا۔ (صحیح بخاری، كتاب الحج، حدیث: 1595)
○ ان روایات میں ترتیب زمانی:
یعنی ان چاروں روایات کو اگر زمانے کے اعتبار سے مرتب کیا جائے تو (واللہ اعلم) ترتیب کچھ یوں بنےگی.
١. پہلا مرحلہ:
کچھ لوگ کعبے کو منہدم کرنے آئینگے اور زمین میں دھنس جائینگے اور طواف چلتا رہےگا.
٢. دوسرا مرحلہ:
یاجوج ماجوج نکل کر فساد مچائینگے اور ان کی ہلاکت کے بعد بھی طواف اور حج جاری رہےگا.
٣. تیسرا مرحلہ:
حبشی لوگ خانہ کعبہ کو گرا دینگے اور پھر کعبے کا طواف اور حج بھی ختم ہوجائےگا
جبکہ بعض علماء کی رائے ہے کہ کعبے کا انہدام یاجوج ماجوج کے نکلنے سے قبل ہوگا اور پھر اگرچہ خانہ کعبہ تعمیر نہ ہوگا لیکن اس مقام پر طواف اور حج جاری رہےگا.
● ان روایات کے درمیان علامہ ابن حجر کی تطبیق:
علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اگرچہ دونوں روایات درست ہیں لیکن امام بخاری نے بھی اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی حج عمرہ جاری رہےگا.
□ فقال: قوله: لا تقوم الساعة حتى لا يحج البيت. وصله الحاكم من طريق أحمد بن حنبل عنه، قال البخاري: والأول أكثر، أي لاتفاق من تقدم ذكره على هذا اللفظ وانفراد شعبة بما يخالفهم، وإنما قال ذلك لأن ظاهرهما التعارض، لأن المفهوم من الأول أن البيت يحج بعد أشراط الساعة، ومن الثاني أنه لا يحج بعدها، ولكن يمكن الجمع بين الحديثين، فإنه لا يلزم من حج الناس بعد خروج يأجوج ومأجوج أن لا يمتنع الحج في وقت ما عند قرب ظهور الساعة، ويظهر. والله أعلم.
بیت اللہ کے انہدام کے بعد اس جگہ حج عمرہ ہوگا.
□ أن المراد بقوله: ليحجن البيت: أي مكان البيت لما سيأتي بعد باب: أن الحبشة إذا خربوه لم يعمر بعد ذلك.
خلاصہ کلام
طواف یا حج کا رک جانا یا معطل ہوجانا مطلقا قیامت کی علامات میں سے نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ دیگر علامات کا پایا جانا بھی ضروری ہے، جیسے: مہدی، دجال، یاجوج ماجوج اور کعبے کا منہدم ہونا، لہذا مطلقا ایک روایت کو موجودہ حالات پر منطبق کرنا کسی صورت بھی درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٨ مارچ ٢٠٢٠ کراچی