قیامت سے قبل بیماریاں
سوال
محترم مفتی زرولی خان صاحب نے ایک بیان میں قیامت کے قرب میں ہونے والی کچھ بیماریوں کا تذکرہ احادیث کی روشنی میں کیا ہے…
کیا یہ تحقیق درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
مفتی زرولی خان صاحب نے احادیث کی نسبت سے جن بیماریوں کا تذکرہ کیا ہے اس نام کی کوئی بیماری کسی بھی حدیث میں موجود نہیں ہے.
▪ مفتی زرولی خان صاحب کے بیان پر شیخ طلحہ منیار صاحب کی تحقیق:
(الجواب باسم ملهم الصواب)
انہوں نے تین کتابوں کا حوالہ دیا ہے:
١. نهایة البدایة لابن کثیر.
٢. آثار قیامت، شاہ رفیع الدین.
٣. ماوردی کی کتاب ظہور مہدی.
پہلی دو کتابوں میں “کوہان” نامی بیماری کا کہیں تذکرہ نہیں ملا، شاملہ میں بحثِ شامل کے نتیجے میں “کوہان” کا لفظ تین جگہ نظر آیا: عمیرة بن کوھان راوی کے نام میں، سنام البعیر کا ترجمہ “کوہان شتر” سے فارسی میں، اور ایک کوئی جڑی بوٹی ہے جس کو عاقر قرحا بھی کہتے ہیں.
رہ گئی مولانا زرولی صاحب والی “کوہان” نامی بیماری، تو اس کا پتہ نہیں.
مولانا زرولی نے کوہان بیماری کے متعلق کہا کہ اس سے نزلہ زکام اور ناک سے پانی بہےگا، اور دوسری بیماری کی کوئی وجہ نہیں ہوگی، انسان صحیح سلامت ہوگا، اور اچانک گر کر مر جائےگا.
مولانا کی اس تشریح کا مستند بھی کیا ہے؟ نہیں معلوم.
شاہ رفیع الدین کی کتاب میں جہاں دھویں (دخان) کا تذکرہ ہے وہاں پر صرف نزلہ زکام کی بات ہے.
ماوردی کی اس نام کی کوئی کتاب غالباً نہیں ہے، ہاں (اعلام النبوہ) ہے، مگر اس کا مضمون الگ ہے۔ البتہ بعض کتبِ رَوافض میں ماوردی کی طرف منسوب ایک کتاب کا نام “البیانات عن المہدی” ملتا ہے، مگر ماوردی کے ترجمہ میں اس کا کہیں تذکرہ نہیں ہے.
تیسری کتاب سے شاید مولانا کی مراد امام دانی کی کتاب “السنن الواردہ فی الفتن” ہے، مگر اس میں بھی قُربِ قیامت واقع ہونے والی بیماریوں میں “کوھان اور مہتان” کا تذکرہ نہیں ہے.
دوسری بیماری کا نام مولانا نے شاید (موتان، یا مہتان) لیا ہے، اگر اس سے لفظ (مُوتان) مراد ہے ، تو یہ تو بضم المیم ہے، اور بخاری وغیرہ میں ایک روایت میں وارد ہے، مگر اس سے کثرتِ موت مراد ہے، جیسا کہ لغت کی کتابوں میں مذکور ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت موت کی تشبیہ (قُعاص الغنم) نامی بیماری کا نام لیتے ہوئے دی ہے، اس لئے کہ اس کی وجہ سے بھیڑ بکریوں میں کثرت سے موت واقع ہوتی ہے.
بعض شراح اس کی تفسیر وباء سے کرتے ہیں، مگر اس سے بھی کثرتِ موت مراد ہے.
قال التوربشتی فی “المیسَّر على المصابيح”: أراد بالمُوتان الوباءَ، وهو في الأصل: مَوتٌ يقع في الماشية، والميم منه مضمومة، واستعمالُه في الإنسان تنبيهٌ على وقوعه فيهم وُقوعَه في الماشية، فإنها تُسْلَب سَلْبا سريعا.
توربشتی کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ اس سے الموت الکثیر السریع مراد ہے، کوئی متعینہ بیماری کا نام نہیں ہے.
امام دانی نے موتان، موت الفجاءہ، طاعون، فالج، اور مختلف اوجاع کے وقوع کی روایات پیش کی ہیں، مگر “کوھان” ندارد ۔
واللہ اعلم
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظه اللہ.
تفصیلی مضمون نیٹ پر موجود ہے.
● روایات سے موجودہ حالات کی قریب ترین تشریح:
اگر موجودہ وائرس (کرونا) کو دیکھا جائے تو احادیث صحیحہ میں جو قیامت کی علامات کا تذکرہ ہے ان میں سے ایک علامت دخان اور اس کے نتیجے میں جو کیفیت طاری ہوگی وہ اس موجودہ صورتحال کے قدرے قریب ضرور ہے لیکن یہ بعینہ وہی علامت ہے ایسا کہنا درست نہ ہوگا
جب آسمان پر دھواں ظاہر ہوگا.
{فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ}
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ، فَقَالَ: “مَا تَذَاكَرُونَ؟” قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ، قَالَ: “إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ: (فَذَكَرَ) الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّةَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ؑ، وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ، تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ”. (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب في الآیات التي تکون قبل الساعة، رقم الحدیث: ۲۹۰۱).
صحابہ رضی اللہ عنہم قیامت کی نشانیوں کا تذکرہ کررہے تھے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت سے قبل دس نشانیوں کا پایا جانا ضروری ہے:
١. دھواں.
٢. دجال.
٣. دابة الارض.
٤. سورج کا مغرب سے نکلنا.
٥. عیسی علیہ السلام کا آنا.
٦. یاجوج ماجوج.
٧، ٨، ٩. تین زلزلے.
١٠. آگ کا نکلنا.
دھویں کا ظاہر ہونا:
چنانچہ سب سے پہلی علامت نبیؐ علیہ السلام نے ایک دھواں قرار دی ہے، محدثین نے اس کی وضاحت میں تحریر فرمایا ہے کہ قیامت کے قریب ایک دن کہیں سے دھواں نکلےگا، وہ دھواں بڑھتے بڑھتے مشرق سے لیکر مغرب تک اور شمال سے لیکر جنوب تک پھیل جائےگا، اور مسلسل چالیس دن تک برقرار رہےگا،
اور مسلمان اس دھوئیں کی وجہ سے صرف نزلہ اور زکام کا شکار ہوں گے، جبکہ منافقین اور کفار اس کی وجہ سے بیہوش ہو جائیں گے اور کئی کئی دن تک بیہوش رہیں گے، بالآخر چالیس دن کے بعد یہ دھواں خود بخود غائب ہو جائےگا.
○ ایک اور توجیه:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد قبیلۂ قحطان میں سے ایک شخص جہجاہ نامی یمن کے رہنے والے آپ کے خلیفہ ہوں گے، ان کے بعد چند بادشاہ اور ہوں گے جن کے عہد میں رسوم کفر و جہل شائع ہوں گی۔ اسی اثناء میں ایک مکان مغرب میں اور ایک مشرق میں جہاں منکرین تقدیر رہتے ہوں گے زمین میں دھنس جائےگا، اس کے بعد آسمان سے دھواں نمودار ہوگا جس سے آسمان سے زمین تک اندھیرا ہو جائےگا اور چالیس روز تک رہےگا، اس سے مسلمان زکام میں مبتلا ہو جائیں گے، کافروں اور منافقوں پر بیہوشی طاری ہو جائےگی، بعضے ایک دن بعضے دو دن اور بعضے تین دن کے بعد ہوش میں آئیں گے، پھر مغرب سے آفتاب طلوع ہوگا۔
اس صورت میں دھواں اول علامت شمار نہیں کیا گیا ہے.
خلاصہ کلام
کسی بھی حدیث میں کوئی بھی خاص بیماری کا نام لے کر بیان نہیں کیا گیا، البتہ کچھ علامات بتائی گئی ہیں، ان علامات میں سے دھویں کی وجہ سے مسلمانوں کا نزلہ زکام ہونا بتایا گیا ہے لیکن وہ نشانی بھی مکمل اسلئے نہیں کہ اگرچہ نزلہ زکام ہورہا ہے لیکن یہ صرف مسلمانوں کی تخصیص نہیں اور نہ ہی آسمان پر ایسا دھواں نمودار ہوا ہے جو مشرق اور مغرب کو ڈھانپ لے، لہذا یہ علامت بھی ابھی ظاہر نہیں ہوئی.
ان حالات میں اللہ تبارک و تعالی کی طرف متوجہ ہوا جائے اور خوب توبہ استغفار کیا جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٨ مارچ ٢٠٢٠ کراچی