12 مئی اور ثریا ستارہ
سوال
آج کل یہ بات بہت گردش کررہی ہے کہ 12مئی کو ثریا ستارہ طلوع ہوگا اور سب وبا (کرونا) ختم ہو جائےگا…
اس کے متعلق آپکی تحقیق اور رہنمائی مطلوب ہے…
(سائل: سعید انور، سابق ٹیسٹ کرکٹر)
الجواب باسمه تعالی
اس کے متعلق ہمیں دو روایات ملتی ہیں:
١. پہلی روایت:
مسند احمد کی روایت ہے کہ راوی نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پھلوں کی فروخت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ علیہ السلام نے وبا کے (ختم ہو) جانے تک پھلوں کی فروخت سے منع فرمایا، راوی نے پوچھا کہ وبا کب تک ختم ہوگی؟ تو ابن عمر نے فرمایا کہ جب ثریا ستارہ طلوع ہوگا. یں پو
□ روى أحمد في مسنده (٥١٠٥) بسند صحيح على شرط البخاري عن عثمان بن عبدالله بن سراقة قال: سألت ابن عمر عن بيع الثمار فقال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى تذهب العاهة. قلت: ومتى ذاك؟ قال: حتى تطلع الثريا. \
¤ یہ روایت سند کے لحاظ سے درست ہے.
٢. دوسری روایت:
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب بھی ثریا ستارہ صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ وبا کو اٹھا لیتے ہیں یا اس میں تخفیف آجاتی ہے.
□ وروى أحمد في مسنده (٢٢٨٦) عن أبي هريرة، عن النّبي صلّى الله عليه وسلّم قال: “ما طلع النّجم صباحًا قطّ وبقوم عاهةٌ إلّا رفعت عنهم أو خفّت”.
وهو حديث حسن بمجموع طرقه وشواهده.
¤ یہ روایت بھی سند کے لحاظ سے قابل قبول ہے.
□ ان روایات کا بنیادی مقصد:
طلوع ثریا سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت محدثین نے پھلوں کی خرید وفروخت کے ممنوع اور جائز اوقات کے ابواب میں نقل کی ہے.
١. موطا امام مالک کا عنوان ہے: پھلوں کے فائدہ مند ہونے سے قبل انکے فروخت کی ممانعت.
□ موطأ مالك تحت عنوان (النَّهْيُ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ، حَتَّى يَبْدُوَ صَلاَحُهَا)، وقال مالك عقب روايته للحديث: (وَبَيْعُ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا، مِنْ بَيْعِ الْغَرَرِ).
٢. مصنف عبدالرزاق میں عنوان ہے: پھلوں کی فروخت فائدہ مند ہونے تک.
□ فهو في مصنف عبدالرزاق الصنعاني في (بَاب: بَيْعُ الثَّمَرَةِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا).
٣. مصنف ابن ابی شیبہ میں یہی عنوان: پھلوں کی فروخت
□ وفي مصنف ابن أبي شيبة، في باب (فِي بَيْعِ الثَّمَرَةِ مَتَى تُبَاعُ؟)
٤. صحیح مسلم میں یہی عنوان: پھلوں کی فروخت
□ وفي صحيح مسلم، في (باب النهي عن بيع الثمار قبل بدو صلاحها بغير شرط القطع).
٥. سنن ترمذی میں یہی عنوان: پھلوں کی فروخت
□ وفي سنن الترمذي، في (بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلاَحُهَا)، وقال الترمذي بعد روايته الحديث: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَغَيْرِهِمْ: كَرِهُوا بَيْعَ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
امام طحاوی نے اس روایت کو نقل کیا اور فرمایا کہ ہم اس سے پھلوں کی وبا مراد لیتے ہیں. s
□ وقد تكلم الطحاوي في كتابه (شرح مشكل الآثار: 6/53) عن الحديث، وذلك بعد أن ساق رواياته، فقال: “وعقلنا به أيضا أن المقصود برفع العاهة عنه هو ثمار النخل”.
● مسند احمد میں پھلوں سے متعلق:
فمثلًا حديث عائشة (وهو مروي في مسند أحمد) فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: “لا تبيعوا ثماركم حتى يبدو صلاحها، وتنجو من العاهة”. –
● طبرانی میں پھلوں سے متعلق:
وحديث زيد بن ثابت (ورواه الطبراني في المعجم الكبير) بلفظ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَنْجُوَ مِنَ الْعَاهَةِ.
● حضرت ابوھریرہ والی روایت:
ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ ثریا ستارے کے طلوع سے جن وباؤں کے خاتمے کی بات کی گئی ہے یہ غالب اوقات سے متعلق ہے، یہ ستارہ بارہ کو طلوع ہوتا ہے اور یہ ممانعت پھلوں میں دھوکے سے بچنے کیلئے ہے.
□ التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، (2/191، 193) فقد ذكر في أثناء ذلك حديث أبي هريرة عن النبي صلی اللہ علیه وسلم أنه قال: “ما طلع النجم صباحا قط وبقوم عاهة إلا رفعت عنهم أو خفت”، ثم علق ابن عبد البر فقال: هذا كله على الأغلب، وما وقع نادرا فليس بأصل يبنى عليه في شيء، والنجم هو الثريا لا خلاف ها هنا في ذلك، وطلوعها صباحا لا ثنتي عشرة ليلة تمضي من شهر أيار، فنهيُ رسول الله عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها معناه عندهم لأنه من بيوع الغرر لا غير، فإذا بدا صلاحها ارتفع الغرر في الأغلب عنها كسائر البيوع….
امام قرطبی جب تفسیر بیان کرتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ وقت ہے جب کھجور تیار ہوجائے اور وباؤں سے محفوظ ہو جائے.
□ كما نقل عن القرطبي أنه قال في تفسيره (تفسير القرطبي، 7/51): وذلك أثناء تفسيره لقوله تعالى: {انظروا إلى ثمره إذا أثمر وينعه}: وهذا الينع الذي يقف عليه جواز بيع التمر وبه يطيب أكلها ويأمن من العاهة، هو عند طلوع الثريا بما أجرى الله سبحانه من العادة وأحكمه من العلم والقدرة… والثريا النجم، لا خلاف في ذلك. وطلوعها صباحا لاثنتي عشرة ليلة تمضي من شهر أيار، وهو شهر مايو.
امام قرطبی نے اسی روایت کو نقل کرکے وباؤں سے مراد پھلوں کی وبا لیا ہے.
□ وكلام القرطبي جاء في أثنائه (مكان النقط أعلاه) قوله: ذكر المعلى ابن أسد عن وهيب عن عسل بن سفيان عن عطاء عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إذا طلعت الثريا صباحا رفعت العاهة عن أهل البلد”.
ثم قال بعدها: وقد استدل من أسقط الجوائح في الثمار بهذه الآثار، وما كان مثلها من نهيه عليه السلام عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها، وعن بيع الثمار حتى تذهب العاهة.
سمعانی نے تفسیر میں نقل کیا ہے کہ جب ثریا ستارہ طلوع ہوتا ہے تو تمام وبائیں، طاعون، بیماریاں اور اس قسم کی چیزیں ختم ہوجاتی ہیں.
□ ونقل عن السمعاني في تفسيره (تفسير السمعاني:6/306) أنه قال: “وَقد ورد عَن النَّبِي أَنه قَالَ: إِذا طلع النَّجْم رفعت العاهة عَن كل بلد. وَذَلِكَ مثل الوباء والطواعين والأسقام وَمَا يشبهها”.
علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں اس روایت کو عموماً ذکر کرتے ہیں لیکن فیض القدیر میں اسی روایت کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ روایت حجاز کی سرزمین کے ساتھ خاص ہے کیونکہ اس زمانے میں فصلیں پکتی ہیں اور وباؤں سے محفوظ ہوتی ہیں.
□ قال المناوي فی فیض القدیر: إذ يقول فيه في شرح نفس الحديث، بعد نحو الكلام السابق: “قيل: أراد بهذا الخبر أرض الحجاز لأن الحصاد يقع بها في أيار وتدرك الثمار وتأمن من العاهة فالمراد عاهة الثمار خاصة”. (فيض القدير:5/454)
● ثریا کا طلوع اور اس کا آفات سے تعلق:
علامہ ابن القیم لکھتے ہیں کہ ثریا ستارے کا طلوع بہار کے موسم میں ہوتا ہے اور یہ وہی موسم ہے جب وبائیں ختم ہوتی ہیں، البتہ ثریا کے طلوع اور سقوط دونوں اوقات میں امراض کی کثرت ہوتی ہے.
□ قال ابنُ القيِّمِ رحمه الله تعالى: وفُسِّر بطلوعِ الثُّرَيَّا، وفُسِّرَ بطلوعِ النَّباتِ زمنَ الرَّبيعِ، ومنه: {والنَّجمُ والشَّجرُ يَسجُدانِ} [الرَّحمن: 6]، فإنَّ كمالَ طلوعِه وتمامَه يكونُ في فصلِ الرَّبيعِ؛ وهو الفصلُ الَّذي ترتفعُ فالآفاتُ. وأمَّا الثُّرَيَّا فالأمراضُ تَكثُرُ وقتَ طلوعِها معَ الفجرِ وسقوطِها. [زاد المعاد (4/54) ط: المجمع]. ِ الن
امام طحاوی لکھتے ہیں کہ ہم نے ثریا کے طلوع کے وقت کی جستجو کی تو 19 تاریخ ملی اور سریانی مہینوں میں وہ 12 تاریخ ہوتی ہے جس وقت کھجور کا موسم ہوتا ہے اور وبا سے محفوظ ہونے کا وقت ہو جاتا ہے.
□ قال الإمامُ الطَّحاويُّ رحمه الله: وطلَبْنا اليومَ الَّذي يكونُ فيه ذلك في طلوعِ فجرِه من أيَّامِه، فوجَدْناه اليومَ التَّاسعَ عشرَ من أيَّامِه، وطلَبْنا ما يُقابِلُ ذلك من الشُّهورِ السُّرْيانيَّةِ الَّتي يَعتبِرُ أهلُ العراقِ بها ذلك فوجَدْناه “أيار”، وطلَبْنا اليومَ الَّذي يكونُ ذلك في فجرِه، فإذا هو اليومُ الثَّاني عشرَ من أيَّامِه، وهذانِ الشَّهرانِ اللَّذانِ يكونُ فيهما حملُ النَّخلِ (أعني بحملِها إيَّاه: ظهورَه فيها لا غيرَ ذلك)، وتُؤْمَنُ بالوقتِ الَّذي ذكَرْناه منهما عليها العاهةُ الـمَخُوفةُ عليها كانت قبلَ ذلك. [شرح مُشْكِلِ الآثارِ (6/57)].
■ شیخ طلحہ منیار صاحب کے مضمون سے چند اقتباسات:
● ١. پہلی بات: مضامین وجوابات لکھنے والے اس سلسلہ میں وارد سب سے مفصل اور مطلب کو واضح کرنے والی روایت، جو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بخاری شریف، کتاب البیوع (2193) اور ابوداود، کتاب البیوع (3372) میں ہے، ذکر نہیں کرتے، وہ یہ ہے: مطل
□ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ الله عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ، فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ قَالَ الْمُبْتَاعُ: إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ، أَصَابَهُ قُشَامٌ. عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ: “فَإِمَّا لَا فَلَا تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرِ”.. كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ.
وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا ، فَيَتَبَيَّنَ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِ.
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ پھلوں کی خرید و فروخت (درختوں پر پکنے سے پہلے) کرتے تھے۔ پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا، اور مالک (قیمت کا) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی اس کا گابھا خراب اور کالا ہو گیا، اس کو بیماری ہو گئی، یہ تو ٹھٹھر گیا پھل بہت ہی کم آئے۔ اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کر کے مالکوں سے جھگڑتے (تاکہ قیمت میں کمی کروا لیں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے مقدمات بکثرت آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہو سکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچا کرو۔ گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور مشورہ فرمایا تھا۔ خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے باغ کے پھل اس وقت تک نہیں بیچتے جب تک ثریا نہ طلوع ہو جاتا اور زردی اور سرخی ظاہر نہ ہو جاتی. (اسلام: 360)
● ٢. دوسری بات: جو حضرات (وباؤں کے اٹھ جانے) کو عمومی طور پر ہر قسم کی وبا پر محمول کرتے ہیں، وہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم کی مندرجہ ذیل روایت سے استدلال کرتے ہیں، جس کو امام طبری نے تفسیر سورۂ فلق میں نقل کیا ہے:
□ حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد، في قوله: ﴿وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ﴾ قال: كانت العرب تقول: الغاسق: سقوط الثريا، وكانت الأسقام والطواعين تكثر عند وقوعها وترتفع عند طلوعها.
ترجمہ: ابن زید فرماتے ہیں کہ {غاسقٍ اذا وَقَب} سے عرب حضرات کے نزدیک ثریا نامی ستارہ کا ڈوبنا مراد ہے، وہ کہتے ہیں کہ بیماریاں اور وبائیں ثریا کے ڈوبنے کے وقت بڑھ جاتی تھیں، اور طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں۔
○ ابن زید کی روایت میں ثریا کے سقوط وطلوع دونوں اوقات کا تذکرہ ہے۔ ماہرین فلکیات کے قول کے مطابق:
ثریا کے سقوط (ڈوبنے) کا وقت: نومبر کا درمیانی عشرہ ہے۔
اور طلوع کا وقت: مئی کا درمیانی عشرہ ہے.
یہاں پر مجھے مضامین اور جوابات لکھنے والوں پر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے روایت کے آخری حصہ کو تو دلیل بنا کر کہا کہ مئی کی بارہ 12 تاریخ کو ثریا نامی ستارہ طلوع ہوگا، اور اس کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس بھی ختم ہوجائےگا.
مگر روایت کا پہلا حصہ کہتا ہے کہ وبا کا ظہور سقوط ثریا (نومبر کے درمیانی عشرہ) میں ہونا چاہیئے، جبکہ سوشل میڈیا کے مطابق کورونا وائرس کا ظہور چائینا میں 12 دسمبر کو ہوا، یعنی سقوط ثریا کی تاریخ سے ایک مہینہ بعد.
☆ اس سے پتہ چلا کہ کورونا وائرس کو ثریا نامی ستارہ کے طلوع وغروب سے مربوط کرنا درست نہیں ہے.
● ٣. تیسری بات: اس سلسلہ میں بعض علماء کا یہ قول بھی منقول ہے کہ ثریا کے سقوط وطلوع دونوں اوقات انسانوں اور مویشیوں کے لئے خطرناک ہیں، اور ان دونوں اوقات میں وبائیں پھیلتی ہیں.
چنانچہ امام ابن القیم نے محمد بن احمد تمیمی اور ابن قتیبہ سے نقل کیا کہ بیماریاں اور آفتیں ثریا کے سقوط وطلوع دونوں اوقات میں ظاہر ہوتی ہیں، مگر طلوع کے وقت بنسبت سقوط کے کم ہوتی ہے.
● ٤. چوتھی بات: ابن القیم نے اس حدیث کی راجح تفسیر جو بیان کی کہ اس کا تعلق پھلوں (اناج) کے پکنے اور آفتوں سے محفوظ ہونے سے ہے، اور جس پر ائمہ حدیث کی کتابوں میں موجودہ تبویبات بھی دلالت کرتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیئے کہ امام ابو الولید باجی “شرح موطا” میں فرماتے ہیں کہ: اس روایت کا اصل مقصود پھلوں کا پکنا ہے، اور ثریا نامی ستارے کے طلوع کو صرف پکنے کی علامت قرار دیا گیا ہے، یعنی طلوع ثریا جواز بیع کی متعینہ تاریخ نہیں ہے کہ اس کے طلوع ہوتے ہی پھلوں کی بیع جائز ہوجائےگی، بلکہ جب تک پھلوں میں پکنے کی صلاحیت ظاہر نہ ہو اس وقت تک بیع جائز نہ ہوگی، یہی امام مالک کا قول ہے۔ “اوجز” میں حافظ ابن حجر اور سخاوی کی طرف بھی یہ تشریح منسوب کی گئی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ پھلوں کا بھی آفات سے محفوظ ہونا طلوع ثریا کے ساتھ مؤکد نہیں ہے، بلکہ وہ تو بطورِ علامت یا غالب حالات کے اعتبار سے ہے.
خلاصہ کلام
جن روایات کو کرونا وائرس کے خاتمے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ان روایات کا بنیادی مقصد پھلوں کی خرید وفروخت میں آنے والے جھگڑے اور اختلاف کو ختم کرنے کیلئے ایک وقت کو بطور علامت بیان کرنا ہے، نہ کہ عمومی وباؤں کے خاتمے کی تاریخ بتانا مقصود ہے. ;
اور اگر بالفرض اس روایت کو عمومی وباؤں سے متعلق مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب ایک اندازہ بتانا ہوتا ہے نہ کہ دعویٰ کرنا جیسا کہ بعض لوگ باقاعدہ دعویٰ کررہے ہیں کہ بارہ مئی کو یہ وبا ختم ہونے والی ہے اور امریکہ نے بھی چودہ مئی کی تاریخ بتادی ہے.
باقی ہم سب کی دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت جلد از جلد اس وبا کو ختم فرما کر پوری انسانیت پر رحم فرمائے… آمین
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٥ اپریل ٢٠٢٠ کراچی