تنبیہ نمبر 293

 ٹڈیوں کو ختم کرنے کی دعا

سوال
آج کل سوشل میڈیا پر ایک روایت شیئر کی جارہی ہے جس میں آپ علیہ السلام کے ٹڈی کیلئے بددعا فرمانے کا ذکر ہے…
 کیا یہ روایت درست ہے؟
 (سائل: نعمان، جدہ)

الجواب باسمه تعالی

سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ روایت سنن ابن ماجہ میں منقول ہے۔

حضرت جابر اور انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٹڈیوں کے لئے بددعا کرتے تو فرماتے:

اللَّهُمَّ أَهْلِكْ كِبَارَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاقْتُلْ صِغَارَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَفْسِدْ بَيْضَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاقْطَعْ دَابِرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَخُذْ بِأَفْوَاهِهَا عَنْ مَعَايِشِنَا وَأَرْزَاقِنَا، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ.

 ترجمہ:  اے اللہ! بڑی ٹڈیوں کو ہلاک کر دے، چھوٹی ٹڈیوں کو مار ڈال، ان کے انڈے خراب کر دے، اور ان کی اصل (جڑ) کو کاٹ ڈال اور ان کے منہ کو ہماری روزیوں اور غلوں سے پکڑ لے (انہیں ان تک پہنچنے نہ دے)، بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے۔۔۔ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کیسے اللہ کی ایک فوج کی اصل اور جڑ کاٹنے کے لئے بددعا فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹڈی دریا کی مچھلی کی چھینک ہے۔ ہاشم کہتے ہیں کہ زیاد (راوی حدیث) نے کہا: تو مجھ سے ایسے شخص نے بیان کیا جس نے مچھلی اسے (ٹڈی کو) چھینکتے دیکھا۔ (سنن ابن ماجہ: 3221)

■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:

اس روایت کی سند میں ایک راوی ہے

 موسى بن محمد بن إبراهيم

 ابن جوزی نے اپنی کتاب الضعفاء والمتروکین میں ان کا تعارف کیا ہے اور پھر علماء کے اقوال ذکر کئے ہیں

قال ابن الجوزي فی “الضعفاء والمتروكون”:
مُوسَى بن مُحَمَّد بن إِبْرَاهِيم بن الْحَارِث أَبُو مُحَمَّد التَّيْمِيّ يروي عَن أَبِيه.

١. یحیی بن معین ان کو بےحیثیت راوی قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں.

◇ قَالَ يحيى: لَيْسَ بِشَيْء وَلَا يكْتب حَدِيثه.

٢. امام بخاری کہتے ہیں کہ ان کی روایات میں منکر روایات موجود ہیں.

◇ وَقَالَ البُخَارِيّ: عِنْده مَنَاكِير.

٣. امام نسائی نے بھی منکر الحدیث قرار دیا.

◇ وَقَالَ النَّسَائِيّ: مُنكر الحَدِيث.

٤. دارقطنی نے متروک قرار دیا.

◇ وَقَالَ الدراقطني: مَتْرُوك.

٥. امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.

◇ قال أبو أحمد الحاكم: منكر الحديث.

٦. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ساقط الاحتجاج راوی ہیں.

◇ قال أبوحاتم بن حبان البستي: ساقط الاحتجاج.

٧. امام ابوداؤد سجستانی کہتے ہیں کہ ان کی روایات نہیں لکھی جائیں گی.

◇ قال أبوداؤد السجستاني: لا يكتب حديثه.

٨. ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.

قال ابن حجر العسقلاني: منكر الحديث.

 شیخ البانی سلسلہ الاحادیث الضعیفہ (1/229) میں لکھتے ہیں کہ ذہبی نے اس راوی کی منکر روایات میں اس روایت کو ذکر کیا ہے اور ابن جوزی نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: لا یصح.

¤ قد ساق له الذهبي من مناكيره هذا الحديث، وأورده ابن الجوزي في “الموضوعات” (3/14) من رواية موسى هذا، ثم قال: لا يصح.

● اس روایت کی دوسری سند:

شیخ البانی نے اس روایت کی دوسری سند ذکر کی ہے جس میں یہی روایت ابن عباس سے موقوفا منقول ہے لیکن اس کی سند میں بھی عمرو بن خالد متروک راوی ہے.

□ ثم رأيت ابن قتيبة أخرجه في “غريب الحديث” (3/114) من رواية أبي خالد الواسطي عن رجل عن ابن عباس موقوفا عليه، وهذا مع أنه موقوف وهو به أشبه، فإن سنده واه جدا، لأن أبا خالد هذا وهو عمرو بن خالد متروك، ورماه وكيع بالكذب.

 شیخ البانی کہتے ہیں کہ میری رائے میں یہ روایت اسرائیلیات میں سے ہے.

¤ قلت: ويشبه أن يكون هذا الحديث من الإسرائيليات.
خلاصہ کلام

سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے منکر (ضعیف جدا) درجے کی روایت ہے اور اس درجے کی روایت کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنے میں احتیاط کرنی چاہیئے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
جون٢٠٢٠ کراچی٤

اپنا تبصرہ بھیجیں