حفاظت والی دعا کی تحقیق
سوال
ایک ویڈیو کلپ میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو والدین اپنی اولاد پر جب بھی نظر پڑے تو اس دعا کو پڑھ لیا کریں، اس سے اولاد کبھی بیمار نہیں ہوگی…
وہ دعا یہ ہے:
مَاشَاءَالله لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله، أَشْهَدُ أَنَّ الله عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور فضیلت کہ والدین اس دعا کو پڑھیں، ایسی کوئی روایت نظر سے نہیں گذری، البتہ اس دعا کی دوسری فضیلت مختلف کتب میں منقول ہے:
آپ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جو شخص صبح كو یہ دعا پڑھے اس کو اس دن کی بھلائیاں حاصل ہونگی اور برائیوں سے اس کی حفاظت ہوگی، اور جو رات کو پڑھےگا اس کو اس رات کی ساری خیریں حاصل ہونگی اور شرور سے حفاظت ہوگی.
□ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: “مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ: مَاشَاءَالله لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله، أَشْهَدُ أَنَّ الله عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ؛ رُزِقَ خَيْرَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَصُرِفَ عَنْهُ شَرُّهُ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ رُزِقَ خَيْرَ تِلْكَ اللَّيْلَةِ، وَصُرِفَ عَنْهُ شَرُّهَا”.
¤ أخرجه ابن السني في “عمل اليوم والليلة” (54)، والديلمي في “الفردوس” (5538) من طريق سليمان بن الربيع النهدي.
قال: حدثنا كادح بن رحمة عن أبي سعيد العبدي (زوج أم سعيد) عن الحسن عن أبي هريرة به مرفوعاً.
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں تین راویوں پر کلام ہے:
١. سلیمان بن الربیع النهدی.
٢. کادح بن رحمة.
٣. أبوسعید العبدی.
○ پہلا راوی: سلیمان بن الربیع النهدی:
عام محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، البتہ علامہ ذہبی نے لسان المیزان (ج:6) میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ متروکین میں سے ہے۔
◇ سلیمان بن الربیع أحد المتروکین.
○ دوسرا راوی: کادح بن رحمة:
علامہ ابن جوزی “الضعفاء والمتروكون” میں لکھتے ہیں:
□ قال ابن الجوزي فی الضعفاء والمتروكون:
١. أبوالفتح الازدی کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا راوی ہے.
◇ وَقَالَ أَبُوالْفَتْح الْأَزْدِيّ: هُوَ كَذَّاب.
٢. امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات نقل کرتا تھا.
◇ أبو عبدالله الحاكم النيسابوري: روى عن مسعر، والثوري أحاديث موضوعة.
٣. دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں.
◇ قال الدارقطني: لا شيء.
٤. اس کے مشہور شاگرد سلیمان بن الربیع النہدی کہتے ہیں کہ اس نے ہمیں جس نسخے سے پڑھایا اس میں اکثر روایات من گھڑت اور مقلوب تھیں.
◇ سليمان بن الربيع النهدي: حدثنا في نسخة كتبناها عنه أكثرها موضوعة ومقلوبة.
٥. أبونعیم الاصبہانی کتاب الضعفاء میں لکھتے ہیں کہ یہ ثوری اور مسعر سے من گھڑت روایات نقل کرتا تھا.
◇ قال أبونعيم الأصبهاني فی الضعفاء: كَادِح بن رَحْمَة الزَّاهِد: روى عَن الثَّوْريّ ومسعر أَحَادِيث مَوْضُوعَة، روى عَنهُ أَبُو الرّبيع الزهْرَانِي.
٦. ابن حبان کتاب المجروحین میں لکھتے ہیں:
کادح بن رحمة: یہ اہل کوفہ میں سے ہے، یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت چیزیں نقل کرتا ہے، اور میرے دل میں یہ بات آئی کہ یا تو یہ شخص جان بوجھ کر احادیث میں جھوٹ بولتا ہے، یا اس شخص کو علم حدیث میں اس قدر مہارت نہ تھی جس کی وجہ سے اس کی روایات میں مناکیر کی کثرت ہوگئی.
◇ كَادِح بن رَحْمَة الزَّاهِد من أهل الْكُوفَة يروي عَن الثَّوْريّ ومسعر. روى عَنهُ سُلَيْمَان بن الرّبيع النَّهْدِيّ كَانَ مِمَّن يروي عَن الثِّقَات الْأَشْيَاء المقلوبات حَتَّى يسْبق إِلَى الْقلب أَنه كَانَ الْمُتَعَمد لَهَا أَو غفل عَن الإتقان حَتَّى غلب عَلَيْهِ الأوهام الْكَثِيرَة فَكثر الْمَنَاكِير فِي رِوَايَته فَاسْتحقَّ بهَا التّرْك.
○ تیسرا راوی: أبوسعید العبدی:
◇ یہ راوی مجہول ہے.باوجود تلاش بسیار کے اس کے حالات معلوم نہ ہوسکے
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور دعا سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا بھی درست نہیں، نیز والدین کا اپنی اولاد پر دم کرنے والی بات بھی اس روایت پر اضافہ ہی شمار کیا جائےگا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٥ جولائی ٢٠٢٠ کراچی