رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور گلاب کا پھول
سوال
محترم مفتی صاحب!
گذشتہ روز سلمان گیلانی صاحب کا ایک مضمون پڑھا جس میں انہوں نے گلاب کے پھول کے بارے میں کسی روایت کا تذکرہ کیا ہے…
مضمون کا وہ حصہ درج ذیل ہے:
ایک شام میں مولانا (فضل الرحمن صاحب قائد جمعیت) کے پاس تھا کہ میں نے دیکھا جامعہ اشرفیہ کے علماء کا وفد مولانا عبدالرحمن اشرفی رحمه اللہ کی معیت میں کمرے میں داخل ہوا ان کے ساتھ کچھ پیرانہ سال شیوخ الحدیث بھی تھے جو اکوڑہ خٹک اور پشاور سے خاص طور پر مولانا کی مزاج پُرسی کے لئے تشریف لائے تھے.
مولانا عبدالرحمن اشرفی رحمه اللہ کے ہاتھ میں گلاب کا بڑا خوبصورت سا پھول تھا جو انہوں نے آتے ہی مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں پیش کیا، میرے دل میں آیا کہ مولوی حضرات بھی اہلِ مغرب کے تتبُّع میں اب تحفے میں گلاب دینے لگے، کوئی اور ہدیہ لے آتے جس کا کوئی تادیر فائدہ اٹھا سکتے، پھول تو صبح تک مرجھا جائےگا اور باہر پھینک دیا جائےگا. ابھی یہ خیال آیا ہی تھا کہ اشرفی صاحب نے مولانا سے کہا: حضرت! آپ کو معلوم ہے کہ میں یہ گلاب کا پھول کیوں لایا ہوں؟ وہ اس لئے کہ آج ہی میں نے دورہءِ حدیث کے طلباء کو بخاری شریف پر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کی تقریر پر درس دیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک جب بدنِ اطہر سے زمین پر ٹپکا تو اُس قطعہءِ ارض پر اللہ تعالی نے گلاب کا پھول اُگا دیا. سو اِس پھول میں سے جو خوشبو آ رہی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کی ہے. یہ سُنتے ہی میں نے مولانا اشرفی سے بدگمانی کی معافی مانگی اور اپنے خیال سے رجوع کیا.
حضرت حافظ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی رحمه اللہ کے صاحبزادے مولانا خلیل الرحمن درخواستی فرماتے ہیں: اس ملاقات کے موقعے پر میں بھی حضرت مولانا صاحب کی عیادت کے لئے موجود تھا. اسکے علاوہ مولانا اشرفی صاحب نے قائد محترم کو زینت العلماء کا خطاب دیا تھا.
مولانا محمد امجد خان بھی ہمارے ساتھ تھے. (ان کا کمینٹ نیچے درج ہے:)
اللہ اکبر حدیث مبارکہ سن کر گلاب کا پھول اتنا اچھا لگنے لگا کہ اب جب کہیں سے گُلاب ملتا ہے تو ثواب سمجھ کر اسے دیکھتا ہوں اور سونگھتا ہوں، (اور بھی ایک بات بتا دوں اگر فقیہ بےذوق مجھ پر بدعت کا فتوی نہ لگا دے ڈرتے ڈرتے عرض کرنے لگا ہوں کہ) میں ایک دو گلاب کی پتیاں مُنہ میں لے کر چُوستا بھی رہتا ہوں.
آپ سے تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
گلاب کا پھول، نرگس کا پھول یا کسی اور پھول کی پیدائش اور فضیلت سے متعلق روایات عموماً شیعہ کتب میں ملتی ہیں، اور ان ہی کے ہاں ان فضائل کا بیان اور تذکرہ ہوتا ہے، جبکہ تمام اہلسنت محدثین نے ان روایات کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے.
□ شیعہ کتب میں پھولوں کے فضائل:
علامہ مجلسی بحار الانوار میں ایک روایت کے ذریعے گلاب کے پھول کو آپ علیہ السلام کے پسینے سے پیدا شدہ قرار دینے کی روایت نقل کرتے ہیں. (بحار الأنوار، للعلامة المجلسي، ج:٧٣، الصفحة:١٤٧)
□ رجع إلى الأرض فرحت وأنبتت الورد، فمن أراد أن يشم رائحة النبي صلى الله عليه وآله فليشم الورد.
في حديث آخر: لما عرج بالنبي صلى الله عليه وآله عرق فتقطر عرقه إلى الأرض فأنبتت من العرق الورد الأحمر، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من أراد أن يشم رائحتي فليشم الورد الأحمر.
○ نرگس کے پھول کی فضیلت:
علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں کہ نرگس کا پھول ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی ہوجانے کے بعد اس آگ میں منجانب اللہ اگایا گیا تھا.
□ روى الحسن بن المنذر رفعه قال: ولما أضرمت النار لإبراهيم صلوات الله عليه فجعلها الله عزوجل بردا وسلاما أنبت الله تبارك وتعالى في تلك النار النرجس، فأصل النرجس مما أنتبه الله تعالى في ذلك الزمان. (باب النرجس والمرزنجش، مكارم الأخلاق)
○ ریحان کے پھول (تلسی کا پھول) کی فضیلت:
علامہ مجلسی روایت نقل کرتے ہیں کہ ریحان کا پھول عرش کے پائے کے پاس اگتا ہے اور اس کا پانی آنکھ کیلئے مفید ہے.
□ عن الكاظم عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: نعم الريحان المرزنجوش ينبت تحت ساقي العرش وماؤه شفاء العين.
■ ان روایات کی اسنادی حیثیت:
گلاب کے پھول کے بارے میں کچھ روایات اہلِ سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہیں، لیکن محدثین نے ان کی اسناد کا تعاقب کیا ہے اور ان تمام روایات کو من گھڑت قرار دیا ہے.
١. سرخ گلاب جبریل کے پسینے سے پیدا ہوا، سفید گلاب میرے پسینے سے اور پیلا گلاب براق کے پسینے سے پیدا ہوا.
□ خلق الورد الأحمر من عرق جبريل ليلة المعراج، وخلق الورد الأبيض من عرقي، وخلق الورد الأصفر من عرق البراق.
رواه ابن عساكر (4/236/1) عن الحسن بن عبدالواحد القزويني: أخبرنا هشام بن عمار: أخبرنا مالك عن الزهري عن أنس مرفوعا.
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
١. یہ روایت من گھڑت ہے، امام ذہبی کہتے ہیں کہ قزوینی نے سرخ گلاب کے متعلق من گھڑت روایت نقل کی.
¤ وهذا حديث موضوع آفته القزويني هذا. قال الذهبي: روى في خلق الورد الأحمر خبرا كذبا، وهو غيرمعروف.
٢. ابن عساکر نے بھی تائید کی.
¤ وقال ابن عساكر عقب الحديث: قرأت بخط عبدالعزيز الكتاني: قال لي أبو النجيب الأرموي: هذا حديث موضوع، وضعه من لا علم له، وركبه على هذا الإسناد الصحيح.
٣. ابن حجر نے بھی تائید کی.
¤ وأقره الحافظ ابن حجر في “لسان الميزان”. (سلسلة الأحاديث الضعيفة: 2/187).
٢. معراج کی رات میرا پسینہ گرا تو اس سے گلاب پیدا ہوا.
□ ليلة أسريَ بي إلى السماءِ سقط إلى الأرضِ من عرقي فنبت منه الوردُ، فمن أحب أن يشم رائحتي فليشم الوردَ. (علي بن أبي طالب).
ابن عدی نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے.
¤ قال ابن عدي فى الكامل في الضعفاء:(3/202): موضوع.
خلاصہ کلام
گلاب کے پھول کی تخلیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے سے ہوئی ہے، یہ تمام روایات من گھڑت ہیں، بلکل بھی درست نہیں، لہذا ان کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا یا اس بات کو بطورِ حدیث بیان کرنا ہرگز درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٧ اگست ٢٠٢٠ کراچی