(صحابہ کو گالی دینا (حصہ دوم)
سوال
آج کل مندرجہ ذیل دو روایات کا بہت چرچا ہے:
١. جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا بھلا کہتے ہوں تو کہو: اللہ کی لعنت تمہارے شر پر
٢. میرے صحابہ کو گالی مت دو، کیونکہ آخری زمانے میں ایک قوم آئےگی، جو میرے صحابہ کو گالیاں دےگی، تم ان کی عیادت مت کرنا، ان کی نماز جنازہ میں شرکت مت کرنا، ان سے نکاح مت کرنا، ان کو وراثت میں حصہ مت دینا، انہیں سلام مت کرنا اور نہ ہی ان کیلئے رحمت کی دعا کرنا
آپ سے ان دونوں روایات کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے دین کی خاطر قربانی اور نصرت کیلئے اللہ رب العزت نے جس جماعت کو منتخب فرمایا، یہ جماعت اس امت کے افضل ترین لوگ ہیں، جن کی رضا کا اعلان قرآن کریم واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے، ان کی تنقیص اور تکلیف کو اللہ اور اس کے رسول کی تکلیف قرار دیا گیا ہے
١. قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار سے اللہ تعالیٰ راضی ہوچکے، اور جو ان کی اتباع کرےگا اللہ تعالیٰ اس سے بھی راضی ہونگے
١- قوله تعالى: {والسابقون الأولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم ورضوا عنه}
٢. جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا (تکلیف) دیتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوگی
٢- قوله تعالى: {إن الذين يؤذون الله ورسوله لعنهم الله في الدنيا والآخرة وأعد لهم عذاباً مهيناً} [الأحزاب:57]
١. حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس آیت میں ایذا کی تمام شکلیں شامل ہیں (چاہے قولی ہوں یا فعلی،) جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تم کو میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ کا واسطہ، ان کو میرے بعد نشانہ مت بنانا، جو ان سے محبت کرےگا تو گویا اس نے میری محبت کی بنیاد پر ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے نفرت کی تو گویا اس نے میری نفرت کی بنیاد پر ان سے نفرت کی، جس نے ان کو تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی، اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اللہ تعالیٰ اس کی گرفت فرمائینگے
□ قال ابن كثير في تفسيره لهذه الآية: الظاهر أن الآيةَ عامَّةٌ في كلِّ من آذاه بشيء، ومن آذاه فقد آذى الله، ومن أطاعه فقد أطاع الله.
١. كما قال الإمام أحمد (بسنده) عن عبدالله بن المغفل المزني قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «اللهَ اللهَ في أصحابي! لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضاً بَعْدِى، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فببغضي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذاني، وَمَنْ آذاني فَقَدْ آذَى الله، وَمَنْ آذَى الله يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ
٢. امام بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے صحابہ کو گالی مت دو، اگر تم میں سے کوئی احد (مدینہ کے بڑے پہاڑ) کے برابر سونا صدقہ کردے تب بھی وہ میرے صحابہ کے ایک مُد یا نصف مُد صدقے کے برابر نہیں ہوسکتا
رواه الامام البخاري ومسلم في صحيحيهما (بخ:3673) (م:2540) عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: “لا تسبوا أصحابي، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه”. (متفق على صحته)
٣. حضرت عمر نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ کے نبی نے ایسا ہی خطبہ دے کر فرمایا تھا کہ میرے صحابہ کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرو، پھر ان کے بعد کے لوگوں کے ساتھ، پھر ان کے بعد کے لوگوں کے ساتھ
فقد روى الإمام أحمد بإسناده إلى جابر بن سمرة، قال: خطب عمر الناس بالجابية، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام في مثل مقامي هذا فقال: “أحسنوا إلى أصحابي ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم
٤. حضرت عمر فرماتے ہیں کہ آپ علیہ نے فرمایا کہ میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئینگے
□ وأخرج الإمام أحمد والنسائي والحاكم عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “أكرموا أصحابي؛ فإنهم خياركم ثم الذین یلونهم
٥. ایک اور روایت میں ہے کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے بارے میں خیر کی وصیت کرتا ہوں
□ أوصيكُم بأصحابي، عمر بن الخطاب. (صحيح الترمذي، الصفحة أو الرقم: 2165)
٦. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد میرے صحابہ کی اقتداء کرو، ابوبکر عمر کی اقتداء کرو، عمار کا طریقہ اپناؤ، ابن مسعود کے طریقے کو لازم پکڑو.
وقال صلى الله عليه وسلم: “اقتدوا باللَّذين من بعدي من أصحابي؛ أبي بكر وعمر، واهتدوا بهدي عمار، وتمسكوا بعهد ابن مسعود”. (الصحيحة: 1233
٧. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب میرے صحابہ کا تذکرہ آئے تو اپنی زبانوں کو روک لو
□ فقد روى الحافظ الطبراني من حديث عبدالله بن مسعود رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “إذا ذكر أصحابي فأمسكوا”.
٨. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی میرے صحابہ کی کوئی بات(خامی وغیرہ) مجھ تک نہ پہنچائے، میں چاہتا ہوں کہ جب بھی میں تمہارے پاس آؤں تو میرا دل سب کی طرف سے صاف ہو
□ أخرج البيهقي عن ابن مسعود قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: “لا يبلغني أحد منكم عن أحد من أصحابي شيئاً فإني أحب أن أخرج إليكم وأنا سليم الصدر”.
٩. ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول اللہ کو گالی مت دو، کیونکہ ان میں سے کسی کی ایک گھڑی کا عمل تمہاری پوری عمر کے عمل سے بہتر ہے
وما رواه الامام أحمد في الفضائل (57/1) وابن ماجه (162) عن ابن عمر رضي الله عنه (موقوفا) قال: لا تسبوا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فلمقام أحدهم ساعة خير من عمل أحدكم عمره. (إسناده صحيح).
١٠. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اصحابِ رسول کو برا بھلا مت کہو، ان کی ایک گھڑی کا عمل تمہارے چالیس سال کے اعمال سے بہتر ہے
روى ابن بطة في شرح الإبانة (ص:119) بإسناد صحيح إلى ابن عباس رضي الله عنه قال: لا تسبوا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، فلمقام أحدهم ساعة يعني مع النبي صلى الله عليه وسلم خير من عمل أحدكم أربعين سنة
خلاصہ کلام
آپ علیہ السلام نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی آپس میں ایسی زبان یا الفاظ کے استعمال سے سختی سے منع فرمایا کہ جس میں کسی بھی صحابی کی تنقیص یا عیب جوئی ہو، لہذا بعد کے لوگوں کو تو کسی بھی صورت اس کی اجازت نہیں کہ وہ اصحاب رسول کے بارے میں کسی گستاخانہ بات کرنا تو درکنار بلکہ سوچنے کو بھی منع کیا گیا، کہ جب میرے اصحاب کا تذکرہ آئے تو زبانیں روک لینا، اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کی تنقیص کرنا گناہِ کبیرہ ہے، اور ایسا شخص فاسق اور زندیق ہے.
(تفصیل تیسری قسط میں)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٦ستمبر ٢٠٢٠ کراچی