روافض کی موت پر خوشی
سوال
مندرجہ ذیل روایات کی تحقیق مطلوب ہے:
نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا کہ مردے دو طرح کے ہوتے ہیں: خود راحت پانے والے اور دوسروں کی راحت کا سامان بننے والے۔ مؤمن شخص موت کے ساتھ دنیاوی تھکاوٹوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے، جبکہ فاجر شخص کی موت لوگوں، علاقوں، حتی کہ جانوروں اور درختوں کیلئے راحت کا باعث ہوتی ہے۔ (صحيح البخاري:6147، صحيح مسلم: 950)
٢. جب رافضیوں کے شیخ ابن المعلم کی موت واقع ہوئی تو ابن النقیب رحمه الله نے مبارکباد کی مجلس منعقد کی اور فرمایا: ابن المعلم کی موت دیکھ لینے کے بعد اب مجھے کوئی پرواه نہیں کہ میری موت کب آتی ہے. (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 382/10)
٣. بغداد کے امراء میں سے ایک حسن بن صافی الترکی متعصب رافضی تھا۔ جب اس کی موت واقع ہوئی تو اہلِ سنت نے خوشی کے شادیانے بجائے اور خوب شکر ادا کیا، کوئی بندہ ایسا نہ تھا جو اللہ کی حمد و ثناء بیان نہ کرتا ہو۔ (البداية والنهاية لابن كثير: 338/12)
(سائل: شاہ جی کراچی)
الجواب باسمه تعالی
سوال میں موجود روایت اور حوالہ جات کی تحقیق سے قبل کچھ اصولی باتوں کا جاننا ضروری ہے.
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی امت کو مُردوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا، کیونکہ وہ مردے اپنے کئے ہوئے اعمال کے پاس پہنچ گئے. (اگر نیک ہونگے تو جنت، اور اگر برے ہونگے تو جہنم)
وقد صحَّ في الباب عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ الله عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا”. (رواه البخاري:1329).
اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی تباہی کو نعمت سمجھنا اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا، اس کی دعوت خود قرآن کریم میں موجود ہے:
١. قوله تعالى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيراً}. [الأحزاب: 9]
اس آیت میں دشمنوں کی بربادی کو نعمت قرار دیا گیا، اور مسلمانوں کو ذکر اور شکر کا حکم دیا گیا.
○ اہل ایمان کی گواہی جنت اور جہنم دلاتی ہے:
ایک جنازہ پر گذر ہوا تو صحابہ نے کہا کہ اچھا آدمی تھا، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ واجب ہوگئی، ایک اور جنازے پر گذر ہوا تو صحابہ کرام نے کہا کہ برا آدمی تھا، تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: واجب ہوگئی، حضرت عمر نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! کیا واجب ہوگئی؟ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جس کے بارے میں تم نے اچھائی کی گواہی دی اس کیلئے جنت واجب ہوگئی، اور جس کیلئے تم نے برے ہونے کی گواہی دی اس کیلئے جہنم واجب ہوگئی
عن أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قال: مَرُّوا بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “وَجَبَتْ” ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا فَقَالَ: “وَجَبَتْ” فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ الله عَنْهُ: مَا وَجَبَتْ؟ قَالَ: “هَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا فَوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ وَهَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَهُ النَّارُ أَنْتُمْ شُهَدَاءُ الله فِي الْأَرْضِ”. [رواه البخاري (1301) ومسلم (949)].
علامہ عینی فرماتے ہیں کہ جب واضح حدیث میں مُردوں کے بارے میں تبصرہ کرنے سے منع کیا گیا ہے، تو پھر یہاں صحابہ نے کیسے اس جنازے کے بارے میں تبصرہ کیا؟ تو جواب یہ دیا ہے کہ کسی گناہگار مسلمان کے بارے میں یہ ممانعت ہے کہ اس کا برا تذکرہ کیا جائے، البتہ کافر، منافق، کھلم کھلا فاسق اور بدعتی کی برائی کا تذکرہ منع نہیں ہے، کیونکہ جب ان کی برائی کا تذکرہ ہوگا تو لوگوں کو ان کی اقتداء اور انکے راستے پر چلنے سے روکا جائےگا
قال بدر الدين العيني رحمه الله: فإن قيل: كيف يجوز ذكر شر الموتى مع ورود الحديث الصحيح عن زيد بن أرقم في النهي عن سبّ الموتى وذكرهم إلا بخير؟ وأجيب: بأن النهي عن سب الأموات غير المنافق والكافر والمجاهر بالفسق أو بالبدعة، فإن هؤلاء لا يحرُم ذكرُهم بالشر للحذر من طريقهم ومن الاقتداء بهم. (عمدة القاري، شرح صحيح البخاري:8/195).
□ سوال میں مذکور روایات کے حوالے:
١. پہلی روایت کا حوالہ:
یہ روایت بخاری، مسلم میں موجود ہے:
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم مُرَّ عَلَيْهِ بِجَنَازَةٍ فَقَالَ: مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ”، قَالُوا: يَارَسُولَ الله! مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ فَقَالَ: “الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا، وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ، وَالْبِلَادُ، وَالشَّجَر، وَالدَّوَابُّ”. [رواه البخاري (6147)، ومسلم (950)، وبوَّب عليه النسائي في سننهِ (1931): “باب الاستراحةُ من الكفارِ”]
امام نووی رحمه اللہ اس روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کا گناہگار بندے سے راحت پانے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اس کی اذیتوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں، یا تو وہ ظلم کرتا ہے یا پھر ایسے منکرات کا ارتکاب کرتا ہے جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے
قال النووي رحمه الله: معنى الحديث: أن الموتى قسمان: مستريح ومستراح منه، ونصب الدنيا: تعبها، وأما استراحة العباد من الفاجر معناه: اندفاع أذاه عنهم، وأذاه يكون من وجوه، منها: ظلمه لهم، ومنها: ارتكابه للمنكرات فإن أنكروها قاسوا مشقة من ذلك، وربما نالهم ضرره، وإن سكتوا عنه أثموا.. (شرح مسلم:7/20،21)
٢. دوسری روایت کا حوالہ:
وقال الخطيب البغدادي رحمه الله في ترجمة عبيدالله بن عبدالله بن الحسين أبوالقاسم الحفَّاف المعروف بابن النقيب: كتبتُ عنه، وكان سماعه صحيحاً، وكان شديداً في السنَّة، وبلغني أنه جلس للتهنئة لما مات ابن المعلم شيخ الرافضة وقال: ما أبالي أي وقت مت بعد أن شاهدت موت ابن المعلم. (تاريخ بغداد:10/382)
٣. تیسری روایت کا حوالہ:
قال ابن كثير رحمه الله فيمن توفي (سنة 568هـ): الحسن بن صافي بن بزدن التركي، كان من أكابر أمراء بغداد المتحكمين في الدولة، ولكنه كان رافضيّاً خبيثاً متعصباً للروافض، وكانوا في خفارته وجاهه، حتى أراح الله المسلمين منه في هذه السنَة في ذي الحجة منها، ودفن بداره، ثم نقل إلى مقابر قريش، فلله الحمد والمنَّة.
وحين مات فرح أهل السنة بموته فرحاً شديداً، وأظهروا الشكر لله، فلا تجد أحداً منهم إلا يحمد الله. (البداية والنهاية: 12)
● کافر، مبتدع اور ظالم کی موت پر خوشی کے اظہار کے مزید حوالہ جات:
١. آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا كعب بن الأشرف کی موت پر خوش ہونا.
قال الحافظ ابن حجر في فتح الباري(340/7): وَفِي رِوَايَةِ بن سَعْدٍ: فَلَمَّا بَلَغُوا بَقِيعَ الْغَرْقَدِ كَبَّرُوا وَقَدْ قَامَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ يُصَلِّي، فَلَمَّا سَمِعَ تَكْبِيرَهُمْ كَبَّرَ وَعَرَفَ أَنْ قَدْ قَتَلُوهُ، ثُمَّ انْتَهَوْا إِلَيْهِ فَقَالَ: أَفْلَحَتِ الْوُجُوهُ.. فَقَالُوا: وَوَجْهُكَ يَارَسُولَ الله! وَرَمُوا رَأْسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَحَمِدَ الله عَلَى قَتْلِهِ.
٢. أبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مسیلمہ کذاب کے قتل پر سجدہ شکر ادا کرنا.
□ وقد سجد أبوبكر الصِّدِّيق لما جاءه قتلُ مُسَيْلِمة الكذَّاب.
٣. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب المخدج الخارجی کو مرا ہوا دیکھا تو آپ نے سجدہ شکر ادا کیا.
□ وقد سجد علي رضي الله عنه لله شكراً لمقتل “المخدَّج” الخارجي لما رآه في القتلى في محاربته له.
علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ حضرت علی نے خوارج سے جنگ کی، اور ان کے بڑے ذوالثدیہ کی موت پر خوشی کا اظہار کیا، اور سجدہ شکر ادا کیا، جبکہ جنگ جمل اور صفین میں شہید ہونے والوں پر خوشی کے بجائے غم اور افسوس کا اظہار کیا
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله: وقاتل أمير المؤمنين علي بن أبى طالب رضي الله عنه الخوارجَ، وذكر فيهم سنَّة رسول الله المتضمنة لقتالهم، وفرح بقتلهم، وسجد لله شكراً لما رأى أباهم مقتولاً وهو ذو الثُّدَيَّة.
بخلاف ما جرى يوم “الجمل” و “صفين”؛ فإن عليّاً لم يفرح بذلك، بل ظهر منه من التألم والندم ما ظهر. (مجموع الفتاوى: 20/395)
٤. جب ابن أبى داؤد کو آدھے جسم کا فالج لگا تو اہل سنت بہت خوش ہوئے، اور خوشی کے اشعار لکھے.
ولما أُصيب المبتدع الضال “ابن أبي دؤاد” بالفالج (وهو الشلل النصفي) فرح أهل السنَّة بذلك، حتى قال ابن شراعة البصري: أفَلَتْ نُجُومُ سُعودِك ابنَ دُوَادِ… وَبَدتْ نُحُوسُكَ في جميع إيَادِ
فَرِحَتْ بمَصْرَعِكَ البَرِيَّةُ كُلُّها… (تاريخ بغداد، للخطيب البغدادي:4/155).
٥. خلال کہتے ہیں کہ امام أحمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ ابن ابی داؤد کے ساتھیوں پر مصیبت آنے سے لوگ خوش ہوتے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کی تکلیف پر کون خوش نہیں ہوتا؟
قال الخلَّال رحمه الله: قيل لأبي عبدالله (أي: الإمام أحمد بن حنبل): الرجل يفرح بما ينزل بأصحاب ابن أبي دؤاد، عليه في ذلك إثم؟ قال: ومن لا يفرح بهذا؟ (السنَّة:5/121).
(ابن ابی داؤد نے خَلق قرآن کا فتنہ کھڑا کیا تھا)
٦. حجاج بن یوسف کی موت پر امام النخعی سجدے میں گئے اور خوشی سے رونے لگے۔(السیر للذھبی:4/524).
٧. جب مشہور گمراہ المریسی کی موت کی خبر بازار میں بشر بن الحارث کو دی گئی تو کہا کہ یہ شہرت کی جگہ نہ ہوتی تو سجدہ شکر ادا کرتا، اس کی موت پر الحمد للہ. (تاریخ بغداد 7/66)
٨. جب عبدالمجید ابن عبدالعزیز بن داود مرجیہ کی موت کی خبر صنعانی رحمه الله کو ملی تو فرمایا: الحمدللہ! اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس سے راحت دلادی
□ وصح عن عبدالرزاق الصنعاني رحمه الله أنه لما جاءه نعي عبدالمجيد بن عبدالعزيز بن أبي رواد وهو من كبار المرجئة قال: الحمد لله الذي أراح المسلمين منه..
٩. جب وھب بن قریشی گمراہ کی موت کی خبر عبدالرحمن بن مہدی کو معلوم ہوئی تو کہا: اللہ کا شکر ہے مسلمانوں کی جان چھوٹ گئی. (لسان المیزان، لابن حجر: 8/402)
□ وكذلك لما مات وهب بن وهب القرشي الكذاب الدجال قال عبدالرحمن بن مهدي: الحمد لله الذي أراح المسلمين منه.
خلاصہ کلام
کوئی بھی انسان خواہ وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو، اس کی موت پر خوشی منانا ہرگز درست نہیں، البتہ شریر کافر، ظالم، بدترین بدعتی (جو اصول دین کا منحرف ہو)، یا ایسا فاسق جو اپنے فسق کا پرچار کرتا ہو اور اسکی طرف دعوت دیتا ہو، ان کی موت پر خوشی کا اظہار سنت اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے، لیکن خوشی کے اظہار میں غلو کرنا یا حد سے تجاوز کرنا ہرگز درست نہیں
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٦ستمبر ٢٠٢٠ کراچی