میت کو نہلانے اور کفنانے کا أجر
سوال
میت کی تجہیز و تکفین کے متعلق ایک روایت کی تحقیق مطلوب ہے کہ جس نے میت کو غسل دیا، کفن پہنایا، خوشبو لگائی، کاندھا دیا، اس کی نماز جنازہ پڑھی، اور اس کا راز ظاہر نہ کیا، تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جائےگا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے دن تھا
کیا یہ روایت درست ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب میں موجود ہے.
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مردے کو غسل دیا، اسے کفن پہنایا، اسے خوشبو لگائی، اور اسے کندھا دے کر قبرستان لے گیا، اس کی نماز جنازہ پڑھی، اور اگر کوئی عیب دیکھا تو اسے پھیلایا نہیں، تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو گیا جیسے وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا“۔
□ حدثنا علي بن محمد، حدثنا عبدالرحمن المحاربي، حدثنا عباد بن كثير، عن عمرو بن خالد، عن حبيب بن ابي ثابت، عن عاصم بن ضمرة، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “من غسل ميتا وكفنه وحنطه وحمله وصلى عليه، ولم يفش عليه ما رأى، خرج من خطيئته مثل يوم ولدته امه”. (ابن ماجہ:1462، تحفة الأشراف: 10134، ومصباح الزجاجة: 518)
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو صحاح میں سے صرف ابن ماجہ نے نقل کیا ہے، اس کی سند میں دو راویوں پر کلام ہے:
١. عباد بن کثیر.
٢. عمرو بن خالد.
○ ١. عباد بن کثیر متروک راوی ہیں.
(عباد بن کثیر کے متعلق تفصیلی بات تنبیہات میں موجود ہے)
○ ٢. عمرو بن خالد الواسطی:
اس راوی کے متعلق ائمہ محدثین کے اقوال کافی سخت ہیں
١. ابونعیم اصبہانی کہتے ہیں کہ یہ بےحیثیت راوی ہے.
◇ قال أبو نعيم الأصبهاني فی “الضعفاء”: عَمْرو بن خَالِد الوَاسِطِيّ (روى عَن زيد بن عَليّ وحبِيب بن أبي ثَابت): لَا شَيْء.
٢. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت روایات جان بوجھ کر نقل کرتا ہے.
◇ قال ابن حبان فی “المجروحون”: عَمْرو بن خَالِد الوَاسِطِيّ مولى بني هَاشم من أهل الْكُوفَة انْتقل إِلَى وَاسِط، كنيته أَبُو خَالِد، يروي عَن زيد بن عَليّ عَن آبَائِهِ روى عَنهُ إِسْرَائِيل وَأَبُو حَفْص الْأَبَّار كَانَ مِمَّن يَرْوِي الموضوعات عَن الْأَثْبَات حَتَّى يسْبق إِلَى الْقلب أَنَّهُ كَانَ الْمُتَعَمد لَهَا من غير أَن يُدَلس.
٣. امام احمد اور ابن معین کہتے ہیں یہ جھوٹا راوی ہے.
معجم الجرح والتعديل لرجال السنن الكبرى.
◇ عمرو بن خالد الواسطي، أبومخلد، معروف بوضع الحديث، كذبه أحمد بن حنبل ويحيى بن معين وغيرهما من أئمّة الحديث، ونسبه وكيع إلى وضع الحديث، قال: وكان في جوارنا فلمّا فطِنَ له تحوّل إلى واسط (السنن الكبرى: 1/228).
◇ متروك، رماه الحفّاظ بالكذب (السنن الكبرى: 2/401).
٤. دارقطنی نے بھی اس كو متروک قرار دیا ہے.
قال الدارقطني: متروك الحديث.
■ اس مضمون کی صحیح روایات:
١. جس نے میت کو غسل دیا اور اس کے عیوب کو چھپایا، اللہ تعالیٰ اس کے چالیس کبیرہ گناہوں کی مغفرت فرمائینگے، اور جو کسی میت کو کفن پہنائے اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے لباس میں سے پہنائینگے، اور جس نے میت کیلئے قبر کھودی اور پھر اس کو اس میں دفن کیا، تو اس کو روز قیامت تک کسی کو گھر میں ٹھہرانے کا اجر ملےگا
من غسل ميتا فكتم عليه غفر الله له أربعين مرة، ومن كفن ميتا كساه الله من سندس واستبرق في الجنة، ومن حفر لميت قبرا فأجنه فيه أجرى الله له من الأجر كأجر مسكن أسكنه إلى يوم القيامة.
– الراوي: أبو رافع مولى رسول الله.
– خلاصة الدرجة: صحيح.
– المحدث: الألباني.
– المصدر: صحيح الترغيب.
– الصفحة أو الرقم: 3492.
٢. جس نے میت کو غسل دیا اور اس کے عیوب کو چھپایا، اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو چھپا لینگے، اور جس نے کفن پہنایا اللہ تعالیٰ اس کو سندس پہنائینگے.
من غسل ميتا فستره، ستره الله من الذنوب، ومن كفنه كساه الله من السندس.
– الراوي: أبو أمامة الباهلي.
– خلاصة الدرجة: حسن.
– المحدث: الألباني.
– المصدر: صحيح الجامع.
– الصفحة أو الرقم: 6403
خلاصہ کلام
میت کو غسل دینا، کفن پہنانا اور دفن کرنا بہت بڑے اجر کا عمل ہے، لیکن سوال میں مذکور روایت جس میں چھ کاموں کا ذکر ہے یہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف نہ کی جائے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣٠ستمبر ٢٠٢٠ کراچی