تنبیہ نمبر 310

دسمبر، بلاؤں کا مہینہ

سوال
ایک روایت سنی ہے کہ سال میں ایک رات آتی ہے جس میں بلائیں نازل ہوتی ہیں، کیا یہ روایت درست ہے؟ نیز یہ رات دسمبر میں آتی ہے، کیا یہ بات بھی درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے برتنوں کے ڈھکنے کا حکم دیا ہے، اور سال میں ایک رات بلاؤں کا نزول ہوتا ہے،

یہ روایت صحیح مسلم میں موجود ہے.

آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ برتنوں کو ڈھک دو، اور مشکیزے کو باندھ لو، کیونکہ سال میں ایک رات آتی ہے جس میں وبا اترتی ہے، جو برتن ڈھکا ہوا نہ ہو، یا جس مشکیزے کا منہ کھلا ہو، اس میں وبا اتر جاتی ہے.

غطوا الإناءَ، وأوكوا السّقاءَ، فإن في السنةِ ليلةٌ ينزلُ فيها وباءٌ، لا يمرّ بإناءٍ ليسَ عليهِ غطاءٌ، أو سقاءٌ ليسَ عليهِ وِكاءٌ إلا نزلَ فيهِ من ذلكَ الوباءِ. [أخرجه مسلم (2014) باختلاف يسير].

کیا اس وبا کا تعلق دسمبر سے ہے؟

اس روایت کے راوی لیث رحمه اللہ نقل کرتے ہیں کہ عجمی لوگ دسمبر میں اس وبا سے بچنے کی کوشش کرتے تھے.

قال الليثُ: والأعاجمِ يتقونَ ذلكَ في كانونَ الأولَ. (البغوي: شرح السنة)
ہر رات برتنوں کو ڈھانکنے کا حکم:

١. حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رات کا شروع حصہ ہوجائے، یا شام ہوجائے تو اپنے بچوں کو روک لو، کیونکہ اس وقت شیطان پھیلتے ہیں، پھر جب رات کی ایک گھڑی گذر جائے تو بچوں کو چھوڑ دو، اور اللہ کا نام لے کر دروازے بند کردو، کیونکہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا، اور اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کو بندھن دے دو، اور اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھک دو، اگرچہ اس پر کوئی چیز کھڑی کردو، اور اپنے چراغ کو بجھا دو. (مسلم، بخاری)

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا كَانَ جِنْحُ اللَّيْلِ أَوْ أَمْسَيْتُمْ فَكُفُّوا صِبْيَانَكُمْ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ فَإِذَا ذَهَبَ سَاعَةً مِنَ اللَّيْلِ فَخَلَّوهُمْ وَأَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا وَأَوْكُوا قِرَبَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہ وَخَمِّرُوا آنِيَتَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہ وَلَوْ أنْ تعرِضوا عَلَيْهِ شَيْئا وأطفئوا مصابيحكم».

٢. آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جب سورج غروب ہوجائے تو اس وقت اپنے بچوں اور جانوروں کو کھلا مت چھوڑو، جب تک کہ رات کا کچھ حصہ گذر نہ جائے، کیونکہ شیاطین سورج غروب ہونے کے وقت پھیلتے ہیں.

عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا ترسلوا فواشيكم وصبيانكم إذا غابت الشمس حتى تذهب فحمة العِشاء، فإن الشياطين تنبعث إذا غابت الشمس حتى تذهب فحمة العِشاء”.
 □ ان روایات میں حکم کا مقصد

علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ ان روایات میں جو حکم ہے اس کا مقصد دنیاوی معاملات میں رہنمائی دینا ہے، اور ایسا کرنا بہتر ہے، (یعنی لازمی نہیں، کہ اس کے خلاف کرنے والے پر تنقید کی جائے)

قال أبو العباس القرطبي رحمه الله في “المفهم شرح صحيح مسلم”: قوله: “غطُّوا الإناء، وأوكُوا السقاء”؛ جميع أوامر هذا الباب من باب الإرشاد إلى المصلحة الدنيوية، وغايته أن يكون من باب الندب.
امام نووی کہتے ہیں کہ ان روایات میں کچھ فوائد کا تذکرہ ہے:

١.  شیطان سے حفاظت.
 ٢.  سال میں ایک رات اترنے والی وبا سے حفاظت.
 ٣.  گندگی سے بچاؤ.
 ٤.  حشرات الارض سے حفاظت.

وقال النووي رحمه الله: وذكر العلماءُ للأمرِ بالتَّغطيةِ فوائد، منها الفائدتان اللتان وردتا في هذه الأحاديث، وهما: صيانته مِن الشَّيطان؛ فإن الشَّيطان لا يكشف غطاءً، ولا يحلُّ سقاء، وصيانتُه من الوباء الذي ينزل في ليلةٍ من السَّنة. والفائدة الثالثة: صيانته من النجاسة والمقذرات. والرابعة: صيانته من الحشرات والهوام، فربما وقع شيءٌ منها فيه، فشربَه وهو غافل، أو في الليل؛ فيتضرر به. والله أعلم. (شرح مسلم: 13/265).
رات بھر کھلی(بغیر ڈھکے ہوئے) رہ جانے والی چیز کے کھانے پینے کا حکم:

علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے بغیر ڈھکے نبیذ کو پی لیا تھا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو چیز ڈھکے بغیر رہ گئی، اس کا کھانا یا پینا نہ تو حرام ہے نہ مکروہ.

وقال القرطبي: وشربه صلى الله عليه وسلم من الإناء الذي لم يُخَمَّر دليل على أن ما بات غير مخمَّر، ولا مُغطَّى أنه لا يحرم شربه، ولا يكره. (المفهم: 5/284).

ابن دقیق العید کی رائے ہے کہ ڈھکنے کا حکم ان برتنوں کے بارے میں ہے جن میں کوئی چیز موجود ہو.

قال ابن دقيق العيد رحمه الله تعالى: “يظهر أن المرادَ من تخمير الإناء: أن فيه شيئاً.
ويشهد له: روايةُ همَّام وعطاء، عن جابر في حديث ذكره: “خمِّروا الطعامَ والشرابَ”، قال همَّام: وأحسَبُه: “ولو بعود”. (أخرجه البخاري)
خلاصہ کلام

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین ہر رات پھیلتے ہیں، لہذا ہر رات کو اپنے بچوں اور برتنوں کا خیال رکھنا چاہیئے.

وبا سال میں کسی ایک رات میں اترتی ہے، لیکن مہینے کا تعین موجود نہیں، نہ ہی وبا دسمبر کے ساتھ خاص ہے.
چونکہ مختلف بیماریوں کا ظہور مختلف مہینوں میں ہوتا ہے، لہذا دسمبر کو وبا کا مہینہ قرار دینا احادیث کی رو سے درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١١ دسمبر ٢٠٢٠ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں