تنبیہ نمبر 311

سورہ یس کی فضیلت

سوال
شیخ حنیف لوہاروی صاحب کے بیان کا ایک کلپ ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ میت خود یا اس کے پاس کوئی بھی شخص سورت یاسین پڑھ رہا ہو تو ملک الموت اللہ تعالی کے پاس واپس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یا اللہ! سورۃ یاسین کے تمام فرشتے اس شخص کی حفاظت کر رہے ہیں، میں اس کی روح کیسے قبض کروں؟ اللہ تعالی رضوان (جنت کے داروغہ) کو بھیجتے ہیں جو یہ کہتا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے منتظر ہیں…

الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور (شیخ کی بیان کردہ) روایت باوجود تلاش کے ہمیں نہ مل سکی، البتہ اس کے قریب قریب کی روایت مختلف تفاسیر اور کتب میں منقول ہے.

تفسیر ثعلبی میں جو روایت سند کے ساتھ منقول ہے: جو شخص اللہ کی رضا کیلئے سورہ یس پڑھےگا اس کے سارے گناہ معاف ہونگے، اور اس کو بارہ قرآن پڑھنے کا اجر ملےگا، جس مریض کے پاس سورہ یس پڑھا جائےگا، ہر حرف کے بدلے دس فرشتے اترينگے جو اس کے سامنے صف کی شکل میں کھڑے ہونگے، اس کیلئے استغفار اور رحمت کی دعا کرینگے، اور اس کی روح کے قبض کرنے کے وقت، اور غسل کے وقت موجود رہتے ہیں، اور اس کے جنازے کے پیچھے چلتے ہیں، اس کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں، اور اس کے دفن میں شریک ہوتے ہیں، اور جو مریض خود سورہ یس پڑھتا ہے تو ملک الموت اس کی روح قبض نہیں کرتا، یہانتک کہ رضوان (جنت کا خازن) جنت سے جنتی شراب لاتا ہے، اور یہ مرنے والا اس کو اپنے بستر پر پیتا ہے، اور پھر سیرابی کی حالت میں اس کی موت آتی ہے، اور اس کو پھر کسی اور پانی کی ضرورت نہیں ہوتی.

– رواه الثعلبي (3/161/1) عن إسماعيل بن إبراهيم: حدثنا يوسف بن عطية عن هارون بن كثير عن زيد بن أسلم عن أبيه عن أبي أمامة عن أبي بن كعب مرفوعا.
  مَن قرأَ يس يريدُ بها اللهَ غفرَ اللهُ لهُ، وأُعطِيَ من الأجرِ كأنَّما قرأَ القرآنَ اثنتَي عَشرَةَ مرَّةٍ. وأيُّما مَريضٍ قُرِئَ عندَه سورةُ يس نزلَ علَيهِ بعَدَدِ كلِّ حرفٍ عَشرةُ أملاكٍ، يقومونَ بينَ يديهِ صُفوفًا؛ فَيصَلُّونَ ويستَغفِرونَ لهُ، ويشهَدونَ قَبضهُ وغَسلَهُ، ويتَّبعونَ جنازَتَهُ ويُصلُّونَ علَيهِ، ويَشهَدونَ دَفنَهُ. وأيُّما مَريضٍ قرأ سورةَ يس وهُو في سكَراتِ الموتِ؛ لم يَقبِضْ مَلكُ الموتِ روحَهُ حتَّى يَجيئَهُ رِضوانُ خازنُ الجنانِ بشَربَةٍ منَ الجنَّةِ؛ فيشربُها وهوَ علَى فراشِهِ، فيموتُ وهو ريَّانُ، ولا يحتاجُ إلى حوضٍ مِن حياضِ الأنبياءِ؛ حتَّى يدخُلَ الجنَّةَ وهوَ ريَّانُ.
– ورواه أيضاً ابن عدي (7/2588)، فاختصر لفظه، وابن مردويه في «تفسيره» كما في «اللآلئ المصنوعة» (1/227) و«الكافي الشاف» (ص140)، والشجري (1/98: 103( 
   اس روایت کی اسنادی حیثیت:

یہ روایت کئی اسناد سے منقول ہے، لیکن کوئی بھی سند قابل اعتبار نہیں، بلکہ سب میں یا تو کذاب یا متہم بالکذب راوی موجود ہیں.

 ١. پہلی سند:

شیخ البانی نے اس کو موضوع قرار دیا ہے، کیونکہ اس کی سند میں  یوسف بن عطیہ  پر وضع کی تہمت ہے.

  قلت: وهذا موضوع؛ لوائح الوضع والصنع عليه ظاهرة؛ وآفته يوسف بن عطية (وهو الباهلي الكوفي)؛ فإنه متهم.
 عمرو بن الفلاس کہتے ہیں کہ یہ کوفی عطیہ تو بصری عطیہ سے بھی بڑا جھوٹا ہے.
  قال عمرو بن علي الفلاس: هو أكذب من يوسف بن عطية البصري.

 ٢. دوسری سند:

مسند الشهاب للقضاعي (1036): أَخْبَرَنا أَبُومُحَمَّدٍ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الأُدْفُوِيُّ، ثنا أَبُو الطَّيِّبِ، أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْجُرَيْرِيُّ إِجَازَةً، أنبا أَبُوجَعْفَرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ، حَدَّثَنِي زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، ثنا شَبَابَةُ، ثنا مَخْلَدُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، وَعَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ قَلْبًا، وَإِنَّ قَلْبَ الْقُرْآنِ يس، وَمَنْ قَرَأَ يس وَهُوَ يُرِيدُ بِهَا الله عَزَّوَجَلَّ غَفَرَ الله لَهُ”.

   اس سند کی اسنادی حیثیت:

یہ سند بھی منکر ہے، اس میں راوی  مخلد بن عبدالواحد  پر امام ذہبی نے وضع کا الزام لگایا، ابن حبان نے اس کی روایات کو منکر قرار دیا ہے.

  وهذا اسناد منكر فيه مخلد بن عبدالواحد البصري، ضعفه أبوحاتم الرازي، وانكر أحاديثه ابن حبان، واتهمه الذهبي بالوضع.

 امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ روایت باطل ہے، اب پتہ نہیں مخلد کے علاوہ کسی اور نے اس کو گھڑا ہے یا مخلد نے خود وضع کیا ہے.

  وقال الذهبي في ترجمته من «الميزان» (4/83): وروى عنه شبابة بن سوار، عن ابن جدعان. وعن عطاء بن أبي ميمونة عن زر بن حبيش، عن أبي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم بذاك الخبر الطويل الباطل في فضل السور، فما أدري من وضعه إن لم يكن مخلد افتراه.

 دیلمی کے حوالے سے دو روایات اس مضمون سے متعلق منقول ہیں

 1  جب کسی میت کے پاس سورہ یس پڑھی جائے گی،تو وہ سیراب ہوکر مرے گا، قبر میں بھی سیراب ہوگا، اور حشر کے دن سیراب اٹھایا جائے گا

حدثنا الفضل بن الحسن ابو الفضل الأهوازي قال حدثني عبدالله بن الحسين المصيصي
مامن ميت يقرأ عنده سورة يس الا مات ريانا وادخل قبره ريانا وحشر يوم القيامة ريانا
 اس روایت کی اسنادی حیثیت

اس کی سند میں  عبداللہ بن الحسین المصیصی  راوی انتہائی کمزور ہے

 امام حاکم نے اس کی توثیق کی ہے لیکن علامہ ذہبی نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے، ان کے متعلق امام ابن حبان کے قول کو ترجیح دی کہ یہ راوی روایات چوری کرتا ہے، اور روایات کو الٹتا پلٹتا ہے، یہ اگر روایت میں منفرد ہو ،تو قابل احتجاج نہیں

.قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: كَانَ يَقْلِبُ الأَخْبَارَ وَيَسْرِقُهَا، لاَ يَجُوْزُ الاحْتِجَاجُ بِهِ إِذَا انْفَرَدَ.
 سير اعلام النبلاء

 2  جب کسی میت پر یس پڑھی جائے گی، تو اس پر موت کے حالات آسان کئے جائینگے

مامن ميت تقرأ عنده يس الا هون الله عليه

 اس روایت کا راوی مسعدہ بن الیسع بن قیس الباہلی بصری ہے

 ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ثقہ راویوں ایسی چیزیں نقل کرتا ہے کہ مبتدی طالب علم بھی سمجھ جاتا ہے کہ یہ بے اصل ہیں

كَانَ مِمَّن يروي عَن الثِّقَات الْأَشْيَاء المقلوبات حَتَّى إِذا سَمعهَا المبتدىء فِي الصِّنَاعَة علم أَنه لَا أصُول لَهَا 

 امام بخاری نے امام احمد کا قول نقل کیا ہے کہ ہم نے اس کی کتابیں جلادی یا چھوڑ دی

سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ مسعدة بْن اليسع بْن قيس الباهلي بصري قَالَ أَحْمَد ليس بشَيْءٍ حرقنا كتبه أو تركنا حديثه.

 شیعوں کی کتب میں ان روایات کو بہت اہمیت دی گئی ہے.

شیعوں کی فضائل کی تمام کتب میں ان روایات کو بہت اہمیت کے ساتھ اور بہت سارے مزید فضائل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، جن کی سند یقینا ناقابل اعتبار ہیں، درج ذیل کتب کو ملاحظہ کیجئے:

 ١.  تفسير البرهان، (ج:4، ص:2)
 ٢.  الشيخ إبراهيم الكفعمي في مصباحه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: أيما مريض قرئت عنده يس نزل عليه بعدد كل حرف منها عشرة املاك…الخ.
 ٣.  دعوات الراوندي، (ص:99)
 ٤.  عنه في البحار، (ج:81، ص:239، ح:26).
خلاصہ کلام

سوال میں مذکور روایت کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی صحیح یا ضعیف سند کے ساتھ منقول نہیں، بلکہ تمام روایات یا من گھڑت اور یا انتہائی کمزور سند سے منقول ہیں،

 لہذا اس روایت کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا یا اسکو پھیلانا ہرگز درست نہیں.

    《واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٧ جنوری ٢٠٢١ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں