چالیس سال میں سدھرنا
سوال
ایک روایت کی تحقیق مطلوب ہے جس کا مفہوم ہے کہ جس کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہوجائے اور اس کے باوجود اس کی برائیوں پر اس کی اچھائیاں غالب نہ ہوں تو اسے جہنم کی آگ میں جانے کیلئے تیار رہنا چاہیئے…
کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتابوں میں منقول ہے:
هذا الحديث رواه أَبُو الْفَتْح الْأَزْدِيّ (كما في “اللآلىء المصنوعة” (1/126)، ومن طريقه ابن الجوزي في “الموضوعات” (1/178)، من طريق بارح بْن أَحْمَد حَدَّثَنَا عَبْدالله بْن مَالك الْهَرَويّ، حَدَّثَنَا سُفْيَان عَن جُوَيْبِر عَن الضَّحَّاك عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: مَنْ أَتَى عَلَيْهِ أَرْبَعُونَ سَنَةً فَلَمْ يَغْلِبْ خَيْرُهُ شَرَّهُ فَلْيَتَجَهَّزْ إِلَى النَّار.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں چند راویوں پر محدثین کا کلام کافی سخت ہے:
١. جویبر بن سعید:
١. امام أحمد فرماتے ہیں کہ اس کی روایات میں مشغول نہیں ہونا چاہیئے.
قال السعدي: جويبر بن سعيد، سمعت من حدثني عن ابن حنبل قال: لا تشتغل بحديثه. (الكامل: 2/340).
٢. ابن معین کہتے ہیں کہ جویبر کچھ بھی نہیں.
حَدَّثَنَا ابن أبي بكر، وابن حماد، قالا: حَدَّثَنا عباس، عَن يَحْيى، قَالَ: جويبر لَيْسَ بشَيْءٍ. (الكامل لابن عدي)
٣. نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے.
وقال النسائي: جويبر بْن سَعِيد الخراساني متروك الْحَدِيث.
٤. دارقطنی اور نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
وَقَالَ النَّسَائِيّ وَعلي بن الْجُنَيْد وَالدَّارَقُطْنِيّ: مَتْرُوك.
٥. ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ روایت آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے صحیح سند سے منقول نہیں.
وقال ابن الجوزي: هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ عَنْ رَسُول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
٢. بارح بن أحمد:
١. ازدی کہتے ہیں کہ یہ انتہائی کمزور راوی ہے.
قال الأزدي: وبارح بن أحمد هذا ضعيف جدا.
٢. خطیب کہتے ہیں کہ یہ أصحابِ حدیث میں سے نہیں تھا.
وقال الخطيب: لم يكن من أصحاب الحديث. (لسان الميزان: 2/3).
٣. خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ اس روایت پر وضع کی علامات واضح ہیں.
وقال الخطيب: علامة الوضع لائحة عليه. (كشف الخفاء: 2/259)
اس روایت کو تقویت دینے والی روایت:
بعض لوگوں نے اس روایت کے شاہد کے طور پر ایک اور روایت نقل کی ہے:
جو بڑھاپے سے نہ ڈرے، اور عیوب سے اسے حیا نہ آئے، اور تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے، پس اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں.
“من لم يَرْعَوِ عند الشيب، ويستحيی من العيب، ولم يخشى الله في الغيب، فليس لله فيه حاجة”.
– ذكره الديلمي بلا سند عن جابر بن عبدالله.
– أخرجه ابن جميع في معجم الشيوخ (ص:375)، وعنه الذهبي في “الميزان”: حدثني يوسف بن إسحاق بـ (حلب) قال: حدثنا محمد بن حماد الطهراني: حدثنا عبدالرازق: أنبأنا معمر ابن طاوي عن أبيه عن جابر مرفوعًا به.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
امام ذہبی نے اس روایت کو یوسف بن اسحاق کے ترجمے میں ذکر کر کے فرمایا کہ یہ خبر باطل ہے، اس کی سب بڑی مصیبت یہ یوسف بن اسحاق ہے، علامہ ابن حجر نے بھی ان کی اس بات کی توثیق کی.
أورده الذهبي في ترجمة يوسف هذا، قال: الخبر باطل، والآفة من يوسف؛ فإن الباقين ثقات. وأقره الحافظ في “اللسان”.
– (التخريج: أخرجه الديلمي في “الفردوس” (5946
اس مضمون کے صحیح اقوال:
١. مسروق کہتے ہیں کہ جب تو چالیس سال کا ہوجائے تو اب (گناہوں سے) بچنا شروع کردے.
قال مسروق رحمه الله: إِذَا بَلَغْتَ الْأَرْبَعِينَ، فَخُذْ حِذْرَكَ. (تفسير ابن كثير: 7/281).
٢. قرطبی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص چالیس سال کا ہوجائے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان لینا چاہیئے.
وقال القرطبي رحمه الله: ذَكَرَ عَزَّوَجَلَّ أَنَّ مَنْ بَلَغَ أَرْبَعِينَ فَقَدْ آنَ لَهُ أَنْ يَعْلَمَ مِقْدَارَ نِعَمِ الله عَلَيْهِ وَعَلَى وَالِدَيْهِ، وَيَشْكُرَهَا.
٣. امام مالک کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اہل علم چالیس سال تک لوگوں سے ملتے جلتے رہتے تھے، چالیس کے بعد وہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے تھے.
قَالَ مَالِكٌ: أَدْرَكْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا، وَهُمْ يَطْلُبُونَ الدُّنْيَا وَيُخَالِطُونَ النَّاسَ، حَتَّى يَأْتِيَ لِأَحَدِهِمْ أَرْبَعُونَ سَنَةً، فَإِذَا أَتَتْ عَلَيْهِمُ اعْتَزَلُوا النَّاسَ. (تفسير القرطبي: 7/ 276)
خلاصہ کلام
چالیس سال کے بعد انسان کو اپنی توجہ قبر اور آخرت کی طرف زیادہ کرنی چاہیئے اور جوانی کی غفلتوں اور لاابالی پن سے نکل جانا چاہیئے، لیکن اس کے متعلق سوال میں مذکور روایت درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں ہے.
《واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٥ جنورى ٢٠٢١ کراچی