جواب الجواب
جمعے کے دن عصر کے بعد درودشریف پڑھنے کا حکم
گذشتہ دنوں بندہ نے جمعے کے دن عصر کے بعد 80 بار درود شریف پڑھنے کے متعلق ایک مضمون لکھا
کچھ دن بعد بندہ کے پاس جواد آفتاب صاحب کا مضمون آیا کہ یہ آپ کے مضمون کا جواب ہے…
)ملاحظات مختصرۃ علی التنبیهات المحقّقة من المتخصص فی علوم الحدیث، جامعة العلوم الاسلامیة بنوری ٹاؤن، کراچی(
جواد آفتاب صاحب کا مضمون پڑھنے کے بعد کچھ نتائج اخذ کئے ہیں:
١. پہلا نتیجہ:
تمام تر بحث جمعے کے دن عصر کی نماز کے بعد ٨٠ مرتبہ درود شریف پڑھنے پر ہے، اور اس کی فضیلت ٨٠ سال کے گناہوں کی مغفرت، اور ٨٠ سال کی عبادت کا اجر ملنا بیان کیا جاتا ہے.
ہمارا موقف یہ ہے کہ اس دورد شریف کا اس وقت پڑھنا اور اس فضیلت کے بیان کے ساتھ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف منسوب کرنا کسی بھی سند سے ثابت نہیں، لہذا یہ نسبت الی رسول اللہ درست نہیں.
جواد آفتاب صاحب نے اس بات پر ہماری تائید کی ہے، لکھتے ہیں:
القربة الی رب العالمین للبشکوال کی روایت (جس میں عصر کے وقت کا تعین ہے) کی سند ہمیں معلوم نہیں، اس لئے اس پر صحت یا ضعف کا حکم لگانا موقوف ہے.
گویا جو اصل مدعی ہے وہ اپنی جگہ برقرار ہے، لہذا جواد آفتاب صاحب کا مضمون کسی طرح بھی اصل مضمون کا جواب نہیں.
٢. دوسرا نتیجہ:
جواد آفتاب صاحب نے یہ مضمون یا تو انتہائی عجلت میں لکھا کہ اس قدر واضح غلطیاں کر بیٹھے، یا ان کو علمِ اصولِ حدیث کا اس قدر رسوخ نہیں کہ وہ روایات کے اسناد، اور جرح و تعدیل کی باریکیوں کو سمجھ کر ان پر سیر حاصل کلام کرسکیں، بلکہ ایک سرسری مطالعہ کر کے انہوں نے جواب کے نام پر ایک مضمون لکھ دیا.
جواد آفتاب صاحب کی جرح کو ملاحظہ اور جواب ملاحظہ کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے:
جواد آفتاب صاحب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی بھی حدیث پر کلام سے قبل محدثین کے کلام کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، جبکہ جواد آفتاب صاحب خود یہی غلطی کر بیٹھے کہ ایک “لیس بثقة” پڑھ کر پوری روایت کو ضعیف اور امام ذہبی پر انفراد اور تعصب تک کا الزام لگادیا.
جواد آفتاب صاحب لکھتے ہیں:
ملاحظہ نمبر: ١
حدیثِ انس رضی اللہ عنہ کو “موضوع” قرار دینا درست نہیں، یہ حدیث فقط “ضعیف” ہے۔
(الف) پہلی وجہ یہ نقل کی گئی ہے کہ خطیب بغدادیؒ نے راوی “وھب بن داؤد” پر جرح کی ہے. اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث انس رضی اللہ عنہ كو خطیب بغدادی نے تاریخِ بغداد میں نقل کرنے کے بعد راوی “وھب بن داؤد” کی جرح میں جو الفاظ نقل کئے ہیں یعنی “لم یکن بثقة” یہ جرح مبہم ہے، اور الفاظِ جرح بھی اس مرتبہ پر نہیں جس بناء پر حدیث انس رضی اللہ عنہ کو موضوع قرار دیا جاسکے.
جواب ملاحظہ: ١
کاش جواد آفتاب صاحب اگر محدثین اور خطیب بغدادی کی اصطلاحات اور ان کے الفاظِ جرح و تعدیل کو اچھی طرح سے پڑھ لیتے تو امام ذہبی کی شخصیت پر اتنا بڑا الزام ہرگز نہ لگاتے.
جواد آفتاب صاحب لکھتے ہیں:
(ب) دوسری دلیل یہ دی گئی کہ حافظ ذہبی ؒ نے “المغنی” میں اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ “وھب بن داؤد بن سلیمان” کی وضع کردہ ہے، اولا یہ کہ کسی حدیث کو موضوع گرداننے کے لئے منفرد امام کا راوی کی طرف وضع کی نسبت کردینا کافی نہیں، اس کے لئے سند ومتن سے متعلق ائمہ و محدثین کی جملہ تصریحات کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے.
جواب نکتہ:
یہی تو افسوس ہے کہ امام ذہبی کو آپ منفرد، متعصب اور محدثین کی اصطلاحات سے نابلد قرار دے رہے ہیں، جبکہ آپ نے خود اس سہولت کے دور میں یہ زحمت نہیں کی، اگر آپ خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد کا سرسری مطالعہ بھی کرلیتے تو معلوم ہوجاتا کہ خطیب بغدادی کا “لیس بثقة” کہنے کا کیا درجہ ہے.. ملاحظہ ہو:
ایک راوی ہے: حسین بن داؤد ابوعلی البلخی
برهان الدين الحلبي اپنی کتاب “الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث” میں اس کے ترجمے میں لکھتے ہیں:
خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں، اس کی روایت موضوع ہے.
الْحُسَيْن بن دَاوُد أَبُو عَليّ الْبَلْخِي عَن الفضيل بن عِيَاض وَعبدالرَّزَّاق قَالَ: الْخَطِيب لَيْسَ بِثِقَة، حَدِيثه مَوْضُوع.
امام ذہبی نے اس کی دو منکر روایات نقل کی ہیں.
وَقد ذكر لَهُ الذَّهَبِيّ فِي مِيزَانه حديثين منكرين.
ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ تینوں راوی روایات گھڑتے تھے.
وَقد قَالَ ابن الْجَوْزِيّ فِي مَوْضُوعَاته بعد الدُّعَاء بِحِفْظ الْقُرْآن دُعَاء مَنْقُول فِي الطَّرِيق الثَّالِث الْحُسَيْن بن دَاوُد يَعْنِي الْبَلْخِي هَذَا ثَلَاثَتهمْ يَعْنِي الجويباري الَّذِي تقدم وَسليمَان بن عِيسَى يَعْنِي الَّاتِي وَالْحُسَيْن بن دَاوُد يَعْنِي هَذَا كَانُوا يضعون الحَدِيث…وَالله أعلم
گویا محدثین کے نزدیک یہ بات معروف ہے کہ خطیب بغدادی موضوع روایات نقل کرنے والے راوی کو بھی “لیس بثقة” کہتے ہیں.
خطیب بغدادی خود اپنی کتاب “تاریخ بغداد” میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ حسین بن داؤد ثقہ نہیں، اور اس نے ایک نسخہ حضرت انس کی سند سے من گھڑت نقل کیا.
ولم يكن الْحُسَيْن بن داود ثقة، فإنه روى نسخة عَنْ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أكثرها موضوع.
آگے لکھتے ھیں کہ ادب اور زہد میں حسین بن داؤد کے مقام سے انکار نہیں، لیکن روایات میں اکثر مناکیر نقل کرتے ہیں.
عَنْ مُحَمَّد بْن عَبْدِالله بْنِ مُحَمَّد النَّيْسَابُورِيّ الْحَافِظ قَالَ: حسين بن داود بن معاذ البلخي لم ينكر تقدمه فِي الأدب والزهد، وأكثر من المناكير فِي رواياته.
ابن جوزی نے بھی اسی طرح خطیب بغدادی کے حوالے سے نقل کیا.
قال ابن الجوزي فى “الضعفاء والمتروكون: الْحُسَيْن بن دَاوُد أَبُو عَليّ الْبَلْخِي يروي عَن الفضيل بن عِيَاض.
قَالَ أَبُوبكر الْخَطِيب: لَيْسَ بِثِقَة، حَدِيثه مَوْضُوع.
ایک اور راوی ابو عبدالرحمن السلمی کے متعلق خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں، یہ صوفیوں کیلئے من گھڑت روایات بناتا تھا.
قال الخطيب البغدادي: أبو عبدالرحمن السلمي غير ثقة، وكان يضع الحديث الصوفية. [تاريخ بغداد (248/2)، لسان الميزان (140/5)]
یہ فقط مشت نمونہ خروار ہے کہ محدثین کے ہاں ایک دوسرے کی اصطلاح سے واقفیت بھی تھی، اور اسی کی بنیاد پر حکم لگاتے تھے.
ملاحظہ نمبر: ٢
اس تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث اولیائےکرام اور صوفیائے عظام کے وظائف و ترغیبات میں معروف ہے، اور اولیائےکرام کی بابت حافظ ذہبی کا تعصب مشہور و معروف ہے کہ حافظ صاحب صوفیاء کو “صوفی جاہل”، “مغالطۃ زندقہ”، “مبتدع” وغیرہ القابات سے موسوم کرتے ہیں. (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: سیر اعلام النبلاء: 3/85۔14/259۔13/183۔17/578)
جواب ملاحظہ: ٢
انا للہ وانا الیه راجعون پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا، امام ذہبی پر اولیائےکرام کے خلاف تعصب کا الزام، اور دلیل کے طور پر ایک بھی نام پیش نہ کرسکے،
جواد آفتاب صاحب نے الفاظ تو نقل کردیئے، لیکن یہ الفاظ کن کے بارے میں ہیں وہ بھی نقل کردیتے، ورنہ تو امام ذہبی کی کتابوں میں کذاب، دجال، اکذب الناس جیسے الفاظ بھی ملتے ہیں، تو کیا وہ بھی اولیائے کرام کے بارے میں ہیں.. اپنی کم علمی کو چھپانے کیلئے امت کے سرمایہ، امام الجرح والتعدیل کو متعصب اور اولیاء اللہ کا دشمن بنادیا.
ابن حجر کا قول ملاحظہ کیجئے:
میں نے کئی بار زمزم پیا اس نیت سے کہ مجھے اللہ تعالیٰ امام ذہبی جیسا علم نصیب فرمائے.
قال السيوطي: حكي عن شيخ الإسلام أبي الفضل ابن حجر أنه قال: شربت ماء زمزم لِأَصِلَ إلى مرتبة الذهبي في الحفظ.
علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ تمام محدثین علوم حدیث میں جن چار افراد کے محتاج ہیں، ان میں سے ایک ذہبی ہیں.
وقال السيوطي في مدح الذهبي: «إن المحدثين الآن عيال في الرجال وغيرها من فنون الحديث على أربعة: المزي، والذهبي، والعراقي، وابن حجر».
اور جب امام سبکی نے امام ذہبی پر سخت تنقید کی تو امام سخاوی نے اپنی کتاب میں ان پر رد کیا.
رد عليه السخاوي (ت 902ھ) حيث اتهم السبكي بالتعصب الزائد للاشاعرة، ونقل قول عز الدين الكناني (ت 819ھ) في السبكي: هو رجل قليل الادب، عديم الانصاف، جاهل بأهل السنة ورتبهم.
وقال يوسف بن عبدالهادي (ت 909ھ) في معجم الشافعية: وكلامه هذا في حق الذهبي غير مقبول، فإن الذهبي كان أجل من أن يقول ما لا حقيقة له.. والانكار عليه أشد من الانكار على الذهبي لاسيما وهو شيخه وأستاذه فما كان ينبغي له أن يفرط فيه هذا الافراط.
ملاحظہ نمبر: ٣
جواد آفتاب صاحب لکھتے ہیں کہ اس لئے حافظ ذہبی نے اسے وضع شدہ قرار دیا ہے اس حکم میں آپؒ منفرد ہیں.
جواب ملاحظہ نمبر: ٣
خطیب بغدادی کا “لیس بثقة” کہنا، امام ذہبی کا “موضوع” کہنا، امام ابن حجر کا لسان المیزان (230/6) میں ذہبی کی موافقت کرنا، علامہ ابن جوزی کا “العلل المتناہیة” میں “لا یصح” کہنا، علامہ سخاوی کا “القول البدیع” (صفحہ:194) پر یہ لکھنا کہ “أخرجه الخطیب وذکرہ ابن الجوزی فی الاحادیث الواہیة”.
کیا اب بھی امام ذہبی منفرد ہیں، یا صاحبِ مضمون کی پہنچ یہاں تک نہیں ہوسکی.
)وہب بن داؤد کیلئے آپ الضعفاء الکبیر، میزان الضعفاء، تنزیه الشریعة، ضعفاء لابن الجوزی بھی دیکھ سکتے ہیں(
ملاحظہ نمبر: ٤
حدیثِ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کو “شدید الضعف” کہنا محلِ نظر ہے. یہ حدیث صرف ضعیف ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ مولانا طلحہ منیار صاحب کے استاد شیخ عوامہ رحمه الله کے بیان کردہ درجات میں سے “ضعف متوسط” پر مشتمل ہے.
جواب ملاحظہ نمبر: ٤
جواد آفتاب صاحب یہاں بھی اصول حدیث کے قواعد کا استعمال اپنی مرضی سے کرتے ہیں، خود ہی روایت پر منکر کے حکم کا اقرار کرتے ہیں، اور خود ہی اس کو حسن لغیرہ قرار دیتے ہیں،
لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہوتا ہےکہ حدیثِ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ شدید ضعف کے تین درجات (موضوع، متروک اور منکر) میں سے تیسرے درجہ (منکر) پر ہے.. یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجرؒ نے حدیثِ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کو “لسان المیزان” (1/277) میں “حدیث منکر” کہا ہے، یہ “حدیث منکر” اپنے متابع اور شاہد (حدیثِ انس) کی وجہ سے “شدید ضعف” کے دائرہ سے نکل جاتی ہے.
جواد صاحب دراصل حدیث انس موضوع روایت کو شاہد بنانے پر تلے ہوئے ہیں، جبکہ دونوں روایات انتہائی کمزور ہیں، جو ایک دوسرے کی قوت میں بلکل اضافہ نہیں کرسکتے.
کیونکہ منکر کی تعریف میں محدثین نے لکھا ہے کہ جب کسی کمزور راوی کی مخالفات بڑھ جائیں، تو وہ روایت متروک ہوجاتی ہے، اور اکثر اسی روایت کو منکر کہتے ہیں.
مخالفة المستور، أو الموصوف بسوء الحفظ، أو المضعف، وإذا كثرت مخالفة الراوى أصبح متروكا، وعليه أكثر ما يطلق الوصف بالنكارة.
)اور ماقبل میں گذرچکا کہ بعض اوقات موضوع روایت کو بھی منکر کہا جاتا ہے(
ملاحظہ نمبر: ٥
جواد صاحب لکھتے ہیں:
• جمعہ کے دن اَسّی(٨٠) مرتبہ درود پڑھنے کی فضیلت حدیث (حسن/ضعیف) سے ثابت ہے، اس پر عمل کیا جاسکتا ہے اور اس کی ترغیب بھی دی جاسکتی ہے.
جواب ملاحظہ نمبر: ٥
ہماری نظر سے تو ایسی کوئی روایت نہیں گذری جو حسن درجے کی ہو.
٣. تیسرا نتیجہ:
جمعے کے دن کثرت سے درودشریف پڑھنے کی ترغیب وارد ہے، جمعے کے دن عصر کے بعد کا وقت انتہائی مبارک اور فضیلت والا وقت ہے، لہذا ہر عمل کی کثرت مفید اور مطلوب ہے، لیکن کسی خاص عدد کا کسی خاص فضیلت کے ساتھ ثبوت کسی مضبوط سند سے منقول نہیں، لہذا آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف اسکو منسوب کرنا درست نہیں.
خلاصہ کلام
علمی مناقشات ہی اصلا علم کا حسن ہے، جہاں مہذبانہ انداز میں ایک دوسرے کو ان کی علمی غلطیوں کی طرف متوجہ کیا جائے.
بہت سارے احباب نے جواب کے عنوان سے جس مضمون کو بھیجا تھا، درحقیقت وہ جواب سے زیادہ خود ایک قابل تحقیق تحریر تھی، لہذا یہی کوشش کی گئی ہے کہ جواد صاحب کی تحریر کو ہی موضوع بنایا گیا، نہ کہ اپنی کسی سابقہ بات سے رجوع کی ضرورت محسوس کی گئی..
اللہ تعالیٰ حق کہنے، سننے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے…..آمین
《واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٢ جنورى ٢٠٢١ کراچی