مقدس اوراق اٹھانے کی فضیلت
سوال
ایک پوسٹ موصول ہوئی ہے جس میں مقدس اوراق کے حوالے سے ایک روایت مذکور ہے، اس روایت کی تحقیق درکار ہے:
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو کتاب کسی بھی زمین میں ضائع ہونے والی جگہ میں ڈالی جائے تو اللہ تعالی وہاں اپنے فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو اسکو اپنے بازوؤں سے گھیر لیتے ہیں اور اسکو پاک رکھتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے اولیاء میں سے کسی ولی کو بھیج دیتا ہے تو وہ اسے زمین سے اٹھا لیتا ہے۔ اور جو شخص زمین سے کوئی لکھی ہوئی چیز اٹھا لے جس میں اللہ تعالی کے ناموں میں سے کوئی نام ہو تو اللہ تعالی اس (اٹھانے والے) کا نام علیّين میں بلند فرما دیتا ہے اور اسکے والدین سے عذاب ہلکا کردیتا ہے چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں”۔ (رسالہ حرمت مقدس اوراق، باب فضائل مقدس اوراق.. بحوالہ معجم صغیر للطبرانی، ابوالقاسم سلیمان بن أحمد بن ایوب طبرانی، مترجم عبدالصمد ریالوی، ح: ١٠٩٣، باب شفاعت کا بیان، ص: ٦٣٥، اسلامی اکادمی لاہور)
کیا یہ روایت درست ہے؟
(سائل: شاہ جی، ڈیفینس کراچی)
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتابوں میں منقول ہے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جو کتاب (لکھی ہوئی تحریر) کسی بھی زمین میں ضائع ہونے والی جگہ پر ڈالی جائے، تو اللہ تعالیٰ وہاں اپنے فرشتوں کو بھیج دیتا ہے، جو اس کو بازوؤں سے گھیر لیتے ہیں، اور اس کو پاک رکھتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء میں سے کسی ولی کو بھیج دیتا ہے، تو وہ اسے زمین سے اٹھا لیتا ہے، اور جو شخص زمین سے کوئی لکھی ہوئی چیز اٹھالے، جس پر اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کوئی نام ہو، تو اللہ تعالیٰ اس اٹھانے والے کا نام علیین میں بلند فرمادیتا ہے، اور اس کے والدین سے عذاب ہلکا کردیتا ہے، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں.
عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَا مِنْ كِتَابٍ يَلْقَى بِمَضِيعَةٍ مِنَ الأَرْضِ إِلا بَعَثَ الله عَزَّوَجَلَّ إِلَيْهِ مَلائِكَةً يَحُفُّونَهُ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيُقَدِّسُونَهُ حَتَّى يَبْعَثَ الله إِلَيْهِ وَلِيًّا مِنْ أَوْلِيَائِهِ، فَيَرْفَعَهُ مِنَ الأَرْضِ، وَمَنْ رَفَعَ كِتَابًا مِنَ الأَرْضِ فِيهِ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ الله تَعَالَى رَفَعَ الله اسْمَهُ فِي عِلِّيِّينَ، وَخَفَّفَ عَنْ وَالِدَيْهِ الْعَذَابَ، وَإِنْ كَانَا كَافِرِينَ”. (رواه الطبراني، والهيثمي في “مجمع الزوائد” 4/172)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ہیثمی نے فرمایا:
١. اس کی سند میں حسین بن عبدالغفار ہے جو متروک راوی ہے.
فيه الحسين بن عبدالغفار، وهو متروك.
٢. امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس کے متعلق ابن یونس کا قول نقل کیا ہے کہ یہ جھوٹا ہے، اور روایات گھڑتا تھا.
الحسن بن غفير المصري العطار. عن يوسف بن عدي وغيره.
قال أبو سعيد بن يونس: كذاب يضع الحديث. (ميزان الاعتدال، الذهبي، ج: ١، الصفحة ٥١٧)
٣. حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں بعینه یہی قول نقل کیا ہے.
الحسن بن غُفَير المصري العطار [وقيل اسمه: الحسين بن عبدالغفار بن عَمْرو أبو علي الأزدي].
عن يوسف بن عَدِي، وَغيره.
قال أبو سعيد بن يونس: كذاب يضع الحديث.
٤. دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: ابْنُ غُفَيْرٍ الْمِصْرِيُّ هُوَ الْحَسَنُ بْنُ غُفَيْرٍ، بِالْغَيْنِ الْمُعْجَمَةِ، وَهُوَ مَتْرُوكٌ.
اس کے قریب المعنی روایت:
اسی مفہوم کے قریب ایک اور روایت بھی کتب میں موجود ہے:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص زمین سے ایسی تحریر اٹھائے جس پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھی ہوئی ہو، محض اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں، کہ وہ پیروں میں نہ آجائے، تو اس شخص کا نام صدیقین میں لکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے والدین کے عذاب کو کم کردیا جاتا ہے، اگرچہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو.
عن انس بن مالک قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: مَن رَفع قِرطاسًا مِنَ الأَرضِ فيهِ بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ إجلالًا للهِ أنْ يُداسَ، كُتِبَ مِنَ الصِّدِّيقينَ، وخُفِّف عَن والِديْهِ وإن كانا مُشرِكَينِ، وَمَن كَتب: بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ، وجودُه تَعظيمًا للهِ غُفِرَ لَه.
– المصدر: لسان الميزان.
– الصفحة أو الرقم: 6/89.
(أخرجه ابن عدي في “الكامل في الضعفاء” (5/49)، وابن شاهين في “الترغيب في فضائل الأعمال” (555)، والخطيب في “تاريخ بغداد” (12/241(
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں دو راوی کافی کمزور ہیں:
١. پہلا راوی: العلاء بن مسلمة:
اس کے متعلق محدثین کے اقوال کافی سخت ہیں:
١. ابو الفتح الازدی کہتے ہیں کہ برا آدمی تھا، اسكو اس بات کی پرواہ ہی نہ تھی کہ کیا روایت کررہا ہے، اور کیا بول رہا ہے، اس سے روایت نقل کرنا جائز ہی نہیں.
قال أبو الفتح الأزدي: كان رجل سوء لا يبالي ما روي ولا علي ما أقدم، لا يحل لمن عرفه أن يروي عنه.
٢. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت چیزیں نقل کرتا تھا.
قال أبو حاتم بن حبان البستي: يروي المقلوبات والموضوعات عن الثقات، لا يحل الاحتجاج به، ومرة: رماه بالوضع.
٣. ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
قال ابن حجر العسقلاني: متروك الحديث.
٤. امام ذہبی کہتے ہیں کہ اس پر جھوٹ کی تہمت لگی ہے.
قال الذهبي: اتهم.
٥. ابن طاہر کہتے ہیں کہ یہ روایات گھڑتا تھا.
قال محمد بن طاهر القيسراني: كان يضع الحديث.
٢. دوسرا راوی: ابو حفص العبدی:
١. ابن عدی کہتے ہیں اس کی روایات پر ضعف کا غلبہ ہوتا ہے.
قال أبو أحمد بن عدي الجرجاني: الضعف بين على رواياته.
٢. أبو زرعہ کہتے ہیں کہ یہ واہی الحدیث ہے.
قال أبوزرعة الرازي: واهي الحديث.
٣. أبونعیم الاصبہانی کہتے ہیں کہ ثابت سے منکر روایات نقل کی ہیں.
قال أبو نعيم الأصبهاني: روى عن ثابت المناكير.
٤. امام أحمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ہم نے اس کی روایات کو پھاڑ دیا اور چھوڑ دیا.
قال أحمد بن حنبل: تركنا حديثه وخرقناه.
٥. امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے.
قال أحمد بن شعيب النسائي: ليس بثقة، ومرة: متروك الحديث.
٦. امام ذہبی نے اس کی دو روایات ذکر کیں، اور فرمایا کہ یہ صحیح نہیں ہیں، اور پھر فرمایا کہ اس کی مصیبتوں میں سے ایک روایت نقل کی جو بلاشبہ موضوع روایت ہے.
الذهبي: ذكر له حديثان وقال: هذا غيرصحيح، ثم قال: ومن بلاياه… فذكر حديثا لا شك أنه موضوع.
خلاصہ کلام
مقدس اوراق کی حفاظت اور اس کی خدمت بلاشبہ ایک بہت ہی عظیم الشان کام ہے، اور عنداللہ اس کا بہت بڑا اجر ہے، البتہ سوال میں ذکر کردہ روایت بلکل بھی درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
《واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١١ فرورى ٢٠٢١ کراچی