تنبیہ نمبر 319

صلاة لیلة الرغائب

سوال
ایک پوسٹ ہے جس میں رجب کے پہلے جمعے کی ایک نماز کا ذکر ہے، اسکی تحقیق مطلوب ہے…
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمه اللہ نے جامع الاصول کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم نے لیلة الرغائب کا تذکرہ فرمایا، رجب کے پہلے جمعے کی رات میں مغرب کے بعد بارہ نفل چھ سلام سے ادا کی جاتی ہے، ہر رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد سورة القدر تین دفعہ اور سورة الاخلاص بارہ دفعہ ہے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد ستّر (٧٠) بار یہ درودشریف پڑہے:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلَى آلِهِ وَصَحبِهِ وَسَلِّمْ
پھر سجدے میں جا کر ستّر (٧٠) بار یہ پڑھے:
سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ
پھر سجدے سے سر اٹھا کر ستّر (٧٠) بار یہ پڑھے:
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ فَإِنَّكَ أَنْتَ الأَعَزُّ الأَكْرَمُ

پھر دوسرا سجدہ کرے اور اس میں وہی دعا پڑھے، پھر سجدے میں جو دعا مانگےگا وہ ضرور قبول ہوگی. (ما ثبت من السنة، ص:١٨١)

 کیا یہ لیلة الرغائب کی نماز والی روایت درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور روایت مختلف کتابوں میں منقول ہے کہ رجب کے پہلے جمعے کو مغرب کے بعد ایک مخصوص طریقے سے بارہ نفل ادا کئے جائیں….

  الرغائب هي ليلة الجمعة الأولى لشهر رجب من كل سنة، فقد قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: “لَا تَغْفُلُوا عَنْ لَيْلَةِ أَوَّلِ جُمُعَةٍ مِنْهُ (أي من شهر رجب) فَإِنَّهَا لَيْلَةٌ تُسَمِّيهَا الْمَلَائِكَةُ لَيْلَةَ الرَّغَائِبِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: “مَا مِنْ أَحَدٍ يَصُومُ يَوْمَ الْخَمِيسِ أَوَّلَ خَمِيسٍ مِنْ رَجَبٍ ثُمَّ يُصَلِّي مَا بَيْنَ الْعِشَاءِ وَالْعَتَمَةِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ صَلَّى عَلَيَّ سَبْعِينَ مَرَّةً، يَقُولُ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ، ثُمَّ يَسْجُدُ وَيَقُولُ فِي سُجُودِهِ سَبْعِينَ مَرَّةً: سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيُّ الْأَعْظَمُ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَةً وَيَقُولُ فِيهَا مَا قَالَ فِي الْأُولَى، ثُمَّ يَسْأَلُ الله حَاجَتَهُ فِي سُجُودِهِ فَإِنَّهَا تُقْضَى”.
قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُصَلِّي عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ هَذِهِ الصَّلَاةَ إِلَّا غُفِرَ لَهُ جَمِيعُ ذُنُوبِهِ وَلَوْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ، وَيُشَفَّعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي سَبْعِ مِائَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ مِمَّنِ اسْتَوْجَبَ النَّارَ…”.
   اس روایت کی اسنادی حیثیت:

علامہ ابن جوزی نے کتاب الموضوعات میں اس کی سند نقل کی ہے:

  وقال ابن الجوزي: صلاة الرغائب، أنبأنا علي بن عبيد الله بن الزاغوني، أنبأنا أبو زيد عبدالله بن عبدالملك الأصفهاني، أنبأنا أبو القاسم عبدالرحمن بن محمد بن إسحاق بن مندة. وأنبأنا محمد بن ناصر الحافظ، أنبأنا أبو القاسم بن مندة، أنبأنا أبو الحصين علي بن عبدالله بن جهيم الصوفي، حدّثنا علي بن محمد بن سعيد البصري، حدّثنا أبي، حدّثنا خلف بن عبدالله وهو الصغاني، عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (وذكر ليلة الرغائب وأموراً أخرى، ثم قال): ولفظ الحديث لمحمد بن ناصر. 

 اور پھر فرماتے ہیں کہ یہ روایت من گھڑت ہے.

  هذا حديث موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد اتهموا به ابن جهيم ونسبوه إلى الكذب، وسمعت شيخنا عبدالوهاب الحافظ يقول: رجاله مجهولون، وقد فتشت عليهم جميع الكتب فما وجدتهم. (الموضوعات: 2/124، 126).

 اس نماز کی فضیلت کو گھڑنے والا علی بن عبداللہ بن الحسن بن جہضم ہے.

  وأنّهم اتهموا عليّ بن عبدالله بن الحسن بن جهضم بوضع هذه الصلاة، كما ذكر ذلك كثيرون منهم أبو الحسن الهمذاني، صاحب كتاب بهجة الأسرار، والمتوفّى سنة 414ھ. (انظر: ميزان الاعتدال: 3/142، 143؛ ولسان الميزان: 4/328).

 یہ نماز پانچویں صدی میں بنائی گئی.

  جاء في شرح الأزهار (الفقه الزيدي) بعد بيان صلاة الرغائب: قد صرّح النقّاد بأنّ الحديث المرويّ في صلاة الرغائب موضوعٌ، وأنّها حدثت في آخر القرن الخامس في بيت المقدس. (شرح الأزهار: 1/397).

 امام نووی فرماتے ہیں کہ رجب کی نماز اور شب برات والی نماز، دونوں انتہائی بری بدعات میں سے ہیں، اور کچھ کتابوں میں ان نمازوں کے مذکور ہونے سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے کیونکہ اسکے متعلق موجود روایت من گھڑت ہے.

  وقال النووي الذي يعدّ من أشدّ المعارضين لها: الصلاة المعروفة بصلاة الرغائب وهي ثنتي عشرة ركعة تصلى بين المغرب والعشاء ليلة أوّل جمعة في رجب، وصلاة ليلة نصف شعبان مائة ركعة، وهاتان الصلاتان بدعتان ومنكران قبيحتان، ولا يغترّ بذكرهما في كتاب قوت القلوب وإحياء علوم الدين، ولا بالحديث المذكور فيهما، فإنّ كلّ ذلك باطل. (المجموع 4: 56).

 علامہ شامی فرماتے ہیں کہ یہ نماز بدعت ہے.

  وقال ابن عابدين: قال في البحر: ومن هنا يعلم كراهة الاجتماع على صلاة الرغائب التي تفعل في رجب أو في أول جمعة منه وأنها بدعة. (حاشیة ردالمحتار:2/27)
   اس نماز کا کتب شیعہ میں وجود:
الغروب إلى قبيل العشاء تقريبًا.

 ١. کتب شیعہ میں اس نماز کی کافی فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے.

  وسائل الشيعة (تفصيل وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة: 8/98)، للشيخ محمد بن الحسن بن علي، المعروف بالحُر العاملي.

 ٢. شیعہ محققین نے بھی اس نماز کی کوئی شیعی معتبر سند ذکر نہیں کی، بلکہ اس نماز کو من گھڑت ہی قرار دیا ہے.

  ونحن لو لاحظنا سنجد أن علي بن محمد بن سعيد البصري ومن فوقه وصولاً إلى رسول الله هو السند عينه الموجود في كتب أهل السنّة، ممّا يعني أنّ هذا الحديث أخذ على الأرجح من الكتب السنيّة، وليس له طريق شيعي مستقلّ، فقارن ما تقدّم من نصوص أهل السنّة بهذا السند تجد صدق ذلك. ولو تأملنا السند سنجد أنّ الكثير من رواته مجاهيل لا ذكر لهم، ولا توثيقات، بل لا اسم لكثير منهم في كتب الرجال عند الشيعة أيضاً، فضلاً عن السنّة كما تقدّم، فهذه الصلاة غير ثابتة بسند أو بمصدر معتبر، ولم ينقلها العلماء (الشيعة والسنّة) في كتبهم الحديثية المعتمدة.
خلاصہ کلام

صلاة الرغائب کے نام سے رجب میں مشہور نماز کی نہ اہلِ سنت کے نزدیک کوئی حیثیت ہے، اور نہ شیعہ محدثین کے نزدیک، بلکہ سب نے ہی اس کو من گھڑت قرار دیا ہے، لہذا جس طرح اس نماز کو پڑھنا درست نہیں اسی طرح اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا بھی درست نہیں.

    《واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢١ فرورى ٢٠٢١ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں