سب سے أعلی درود
سوال
ایک بیان میں سنا کہ ایک بار آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی مجلس میں ایک نوجوان آیا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کو اپنے اور ابوبکر صدیق کے درمیان بٹھادیا، پھر ابوبکر صدیق سے فرمایا کہ جانتے ہو میں نے اس کو یہ جگہ کیوں دی؟ ابوبکر صدیق نے عرض کیا کہ یارسول اللہ کیوں دی؟ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ نوجوان ایک ایسا درود پڑھتا ہے جو کوئی بھی نہیں پڑھتا، تو ابوبکر صدیق نے پوچھا: یارسول اللہ! وہ کونسا دورد ہے کہ جس کی وجہ سے اس نوجوان کو یہ مقام ملا؟ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
اللهُمَّ صَلِّ على محمَّدٍ عَدَدَ مَن صلَّى عليه، وصَلِّ على مُحَمَّدٍ عَدَدَ مَن لم يُصَلِّ عليه، وصَلِّ على مُحَمَّدٍ كما أمَرْتَ بالصَّلاةِ عليه، وصَلِّ على مُحَمَّدٍ كما تُحِبُّ أن يُصَلَّى عليه، وصَلِّ على مُحَمَّدٍ كما ينبغي أن يُصَلَّى عليه.
کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور درودشریف کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی صحیح یا ضعیف سند سے ہمیں نہیں مل سکا، البتہ ابن جوزی کی کتاب بستان الواعظين ورياض السامعين (صفحہ 341:)میں بلاسند منقول ہے.
عن مُحمَّدِ بنِ النُّعمانِ رَضِيَ اللهُ عنه أنَّه قال: كنَّا عند النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، فجاءه فتًى من الأنصارِ في حاجةٍ، فوسَّعَ له رسولُ الله بينه وبينَ أبي بكرٍ الصِّديقِ رَضِيَ الله عنه، وقال له رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: يا أبابكرٍ! لعَلَّك يشُقُّ عليك أن أجلَسْتُ هذا الفتى بيني وبينك؟ فقال أبوبكرٍ رَضِيَ الله عنه: إي واللهِ يا رَسولَ اللهِ، إنَّه لَيَشُقُّ عليَّ أن يكونَ بيني وبينك أحَدٌ. فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ وعليه وسلَّم: “يا أبابكرٍ! إنَّ هذا الفتى يُصَلِّي عليَّ صلاةً ما يُصَلِّيها عليَّ أحدٌ مِن أمَّتي”. فقال أبوبكرٍ رَضِيَ الله عنه: كيف يقولُ يارسولَ الله؟ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: “يقولُ: اللهُمَّ صَلِّ على محمَّدٍ عَدَدَ مَن صلَّى عليه، وصَلِّ على مُحَمَّدٍ عَدَدَ مَن لم يُصَلِّ عليه، وصَلِّ على مُحَمَّدٍ كما أمَرْتَ بالصَّلاةِ عليه، وصَلِّ على مُحَمَّدٍ كما تُحِبُّ أن يُصَلَّى عليه، وصَلِّ على مُحَمَّدٍ كما ينبغي أن يُصَلَّى عليه”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اس کی کوئی سند نہیں ملی، لہذا اس کو حدیث قرار دینا درست نہیں.
اس کے قریب قریب کی روایت:
ایک بار آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی مجلس میں ایک شخص آیا اور سلام کیا، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کے سلام کا جواب دیا اور اسکو اپنے برابر بٹھایا، جب وہ شخص چلا گیا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اے ابوبکر! اس شخص کیلئے روزانہ پوری زمین والوں کے برابر اعمال لکھے جاتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ شخص روزانہ یہ درود پڑھتا ہے
: اللهم صل على محمد النبي عدد من صلى عليه من خلقك، وصل على محمد النبي كما ينبغي لنا أن نصلي عليه، وصل على محمد النبي كما أمرتنا أن نصلي عليه.
وذكره المتقي الهندي في كنز العمال: عن أبي بكر قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم فجاءه رجل فسلم فرد عليه النبي صلى الله عليه وسلم، وأطلق وجهه وأجلسه إلى جنبه، فلما قضى الرجل حاجته نهض فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا أبابكر! هذا رجل يرفع له كل يوم كعمل أهل الأرض قلت: ولم ذاك؟ قال: إنه كلما أصبح صلى علي عشر مرات كصلاة الخلق أجمع، قلت: وما ذاك؟ قال: يقول: اللهم صل على محمد النبي عدد من صلى عليه من خلقك، وصل على محمد النبي كما ينبغي لنا أن نصلي عليه، وصل على محمد النبي كما أمرتنا أن نصلي عليه. (الدارقطني في الأفراد، وابن النجار في تاريخه).
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ روایت غریب ہے (یعنی کسی اور سند سے ایسی روایت منقول نہیں) سلیمان بن ربیع نے کادح بن روحہ سے نقل کی ہے.
قال الدارقطني: غريب من حديث أبي بكر، تفرد به سليمان بن الربيع النهدي عن كادح بن روحة.
امام ذہبی کہتے ہیں کہ سلیمان بن ربیع متروک راوی ہے، اور کادح کے بارے میں ازدی کا قول ہے کہ وہ جھوٹا تھا.
قال الذهبي في الميزان: سليمان بن الربيع أحد المتروكين.
وكادح: قال الأزدي وغيره: كذاب.
ابن حجر نے ابن عدی کا قول نقل کیا ہے کہ کادح کی عمومی روایات محفوظ نہیں ہوتیں، اور اس کی روایات کی سند اور متن کا کوئی متابع بھی نہیں ہوتا.
زاد الحافظ ابن حجر في اللسان: وقال ابن عدي: عامة أحاديثه غير محفوظة ولا يتابع في أسانيده ولا في متونه.
حاکم اور ابونعیم کہتے ہیں کہ کادح نے مسعر اور ثوری سے من گھڑت روایات نقل کی ہیں.
وقال الحاكم وأبو نعيم: روى عن مسعر والثوري أحاديث موضوعة.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ درست نہیں، اور نہ ہی دوسرا واقعہ درست ہے، لہذا ان واقعات کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا درست نہیں، البتہ دونوں درود کے الفاظ درست ہیں، لہذا ان درودوں کو پڑھنا درست ہے، لیکن ان فضائل کا بیان کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٣ فرورى ٢٠٢١ کراچی