موسی علیہ السلام اور چرواہا
سوال
مندرجہ ذیل واقعے کی تحقیق مطلوب ہے:
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی مقام سے گذر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک چرواہے پر پڑی جو اپنے خدا کے ساتھ محوِ گفتگو تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ یا اللہ! اگر تو میرے پاس ہو تو میں تیرے بالوں میں کنگھی کروں، تیری جوئیں نکالوں، تیری خدمت کروں، تجھے کھانے پینے کے لئے کچھ پیش کروں، اگر تو بیمار ہو تو تیری تیمارداری کروں، اگر مجھے تیری رہائش کا علم ہو تو میں صبح شام تمہارے لئے کھانے پینے کا سامان لاؤں، میں اپنی تمام بکریاں تیری ذات پہ قربان کروں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس چرواہے سے دریافت کیا کہ تم کس سے باتیں کر رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں اپنے اللہ سے مخاطب ہوں جس نے ہمیں پیدا کیا اور زمین اور آسمان تخلیق فرمائے.. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم شرک بک رہے ہو، اپنا منہ بند رکھو، تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ شنہشاہوں کا شنہشاہ ہے، وہ ایسی خدمت سے بےنیاز ہے، چرواہا یہ سن کر ازحد نادم ہوا، اس نے اپنے کپڑے پھاڑے اور جنگل کی جانب بھاگ نکلا، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی اور شکوہ کیا کہ تم نے ہمارے بندے کو ہم سے جدا کر دیا ہے، تجھے دنیا میں اس لئے بھیجا گیا تھا کہ تم ہمارے بندوں کو ہمارے ساتھ ملاؤ، لیکن تم نے ہمارے بندوں کو ہم سے جدا کرنے کا وطیرہ اپنا لیا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی محسوس کی تو وہ اس چراوہے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور بالآخر اسے تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس چرواہے سے کہا کہ تمہیں اجازت ہے تم جس طرح چاہو اللہ سے مخاطب ہو اور جس طرح چاہو اس طرح اسے یاد کرو…
کیا یہ واقعہ درست ہے؟
(سائل: جواد، کراچی)
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ مولانا جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ میں نقل کی ہے. (اس حکایت کا عربی ترجمہ ہمارے علم کے مطابق کیا گیا ہے، قواعد العشق الاربعون کے نام سے)
في أحد الأيام كان موسى يسير في الجبال وحيدًا عندما رأى من بعيد راعيًا، كان جاثيًا على ركبتيه، ويداه ممدودتان نحو السماء يصلي، فغمرت موسى السعادة، لكنه عندما اقترب دهش وهو يسمع الراعي يصلي: يا إلهي الحبيب! إني أحبك أكثر مما تعرف، سأفعل أي شيء من أجلك، فقط قل لي: ماذا تريد؟ حتى لو طلبت مني أن أذبح لأجلك خروفًا سمينًا في قطيعي، فلن أتردد في ذلك، أشويه وأضع دهن إليته في الرز ليصبح طعمه لذيذًا، ثم سأغسل قدميك، وأنظف أذنيك، وأفليك من القمل، هذا هو مقدار محبتي لك، صاح موسى: توقف أيها الرجل الجاهل، ماذا تظن نفسك فاعلًا؟ هل تظن أن الله يأكل الرز؟ هل تظن أن له قدمين تغسلهما؟ هذه ليست صلاة، هذا كفر محض، اعتذر الراعي ووعد أن يصلي كما الأتقياء، فعلمه موسى الصلاة، ومضى راضيًا عن نفسه كل الرضا، وفي تلك الليلة سمع موسى صوتًا، كان صوت الله: ماذا فعلت يا موسى؟ لقد أنبت الراعي المسكين، ولم تدرك معزتي له، لعله لم يكن يصلي بالطريقة الصحيحة، لكنه مخلص في قوله، إن قلبه صافٍ، ونيته طيبة، إنني راض عنه، قد تكون كلماته لأذنيك بمثابة كفر، لكنها كانت بالنسبة لي كفرًا حلوًا، فهم موسى خطأه، وفي الصباح الباكر عاد للجبال ليجد الراعي يصلي، لكن بالطريقة التي علمه إياها موسى، ولكي يؤدي الصلاة بالشكل الصحيح كان يتلعثم مفتقدًا للعاطفة، والحماسة كما كان يفعل سابقًا، ربت موسى على ظهره: يا صديقي! لقد أخطأت، أرجو أن تغفر لي، أرجو أن تصلي كما كنت تصلي من قبل، فقد كانت صلاتك نفيسة، وثمينة عند الله.
اس واقعے کی اسنادی حیثیت:
یہ واقعہ باوجود تلاش بسیار کے کسی بھی مستند کتاب میں نہیں مل سکا، بلکہ اس کی عربی عبارت كا بھی رومی صاحب کی فارسی کتاب سے عربی میں ترجمہ کیا گیا ہے.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ اسرائیلیات میں بھی ہمیں نہ مل سکا، احادیث کی تحقیق کرنے والے مختلف اداروں نے بھی اس کو من گھڑت ہی قرار دیا ہے، اس کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٤ فرورى ٢٠٢١ کراچی