حضرت علی اور اونٹوں کی تقسیم
سوال
ایک ویڈیو موصول ہوئی ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم العدد کے متعلق بتایا گیا ہے، اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے:
حدیثِ صحیح میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ کو بلایا اور کہا کہ ہمارے باپ نے ہمارے لئے سترہ اونٹ چھوڑے اور ہم تین بھائیوں میں اسکو تقسیم کیا ہے، پہلے بھائی کو کہا ہے کہ اسے اسکا آدھا (1/2) حصہ ملےگا، دوسرے کو ایک تہائی(1/3) حصہ ملےگا اور تیسرے کو نواں(1/9) حصہ ملےگا، اونٹ زندہ ہیں اور انہیں ذبح کئے بغیر مذکورہ حصوں کے مطابق تقسیم ناممکن تھی، حضرت علی نے بیت المال سے ایک اونٹ منگوا کر کل اٹھارہ اونٹوں میں سے ہر ایک کو اسکے حصے کے بقدر تقسیم کردیا اور آخر میں ایک اونٹ بچ گیا اسے بیت المال میں واپس بھی کردیا، اس طرح کرنے سے اونٹوں کو ذبح کئے بغیر بہت ہی خوش اسلوبی سے تقسیم بھی ہوگئی اور ہر ایک کو اسکے حصے کے بقدر بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی ملا اور بیت المال کا اونٹ بھی واپس کردیا گیا….
کیا یہ قصہ درست اور روایات سے ثابت ہے؟
(سائل: پروفیسر ضیاء الرحمن صاحب، گلشن اقبال کراچی)
الجواب باسمه تعالی
ویڈیو میں بیان کردہ واقعہ مختلف کتب میں مختلف عنوانات سے بغیر کسی سند کے منقول ہے.
١. واقعے کا ایک رخ:
تین آدمیوں نے اونٹوں کا کاروبار شروع کیا، ایک وقت آیا کہ ان میں اختلافات پیدا ہو گئے، انہوں نے اپنے اپنے حصے کے اونٹ تقسیم کرنے چاہے مگر مسئلہ پیچیدہ سے پچیدہ ہوتا گیا، کیونکہ تینوں آدمی کے پاس کل اونٹ 17 تھے، جبکہ پہلے آدمی کا آدھا حصہ تھا، دوسرے آدمی کا تیسرا حصہ، اور تیسرے آدمی کا نواں حصہ تھا، جھگڑا شدت اختیار کرتا گیا کیونکہ تینوں آدمی اپنا اپنا حصہ تو الگ الگ کرنا چاہتے تھے مگر اونٹ کو ذبح کر کے حصے نہیں کرنا چاہتے تھے، جب ہر طرف سے ناکامی ہوئی تو معاملہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ ہم اپنا اپنا حصہ الگ کرنا چاہتے ہیں مگر کسی اونٹ کے حصے نہیں کرنا چاہتے.
جناب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اونٹ اپنی طرف سے جمع کیا، اس طرح 17 اونٹوں کی جگہ 18 اونٹ ہو گئے، آپ نے پہلے آدمی جس کا آدھا حصہ تھا اس کو 9 اونٹ دے دیئے، پھر دوسرے آدمی کو جس کا تیسرا حصہ تھا اس کو 18 اونٹوں میں سے 6 اونٹ مل گئے جبکہ تیسرے آدمی جس کا نواں حصہ تھا اسکو 18 اونٹوں میں سے نواں حصہ یعنی 2 اونٹ دے دیئے گئے، اس طرح (9+6+2 =17) اونٹ تینوں آدمیوں میں انکے حصوں کے مطابق برابر تقسیم بھی ہو گئے اور جو اونٹ اپنی طرف سے شامل کیا تھا وہ بھی واپس کر لیا.
نتیجہ:
اس واقعے میں تین شرکاء کا اختلاف ہوا.
٢. واقعے کا دوسرا رخ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مکے میں تین بھائیوں کا سترہ اونٹوں کے متعلق اختلاف ہوا۔
ذكاء علي بن ابي طالب:
هذه قصة من دهاء علي بن ابي طالب كرم الله وجهه وهي عن اعداد حسابيه لا يقدر على فعلها الا هو….
وقصتنا اعزائي كانت في مكة في عهد الخليفة عمر بن الخطاب رضي الله عنه، وكان فيه ثلاثة اخوة اختصموا في تقسيم عدد من الابل فكان للاول النصف وللثاني الثلث وللثالث التسع، فكان عدد الابل 17 فكانت من المستحيل ان تتم العده لان النتيجه ستظهر كالتالي:
النصف: 17/9 = 8,5 والثلث: 17/3 = 5.6 والتسع: 17/9 = 1.8
اتموا على ان يذهبوا الى علي بن ابي طالب ليرى في وضعهم وعندما وصلوا علي أخبروه بالقضية فقال لهم: أتأذنون لي بأن اضيف ناقة من أبلي؟ فقالوا: لا بأس، فقد استغربوا مابرد منه. فجمعوا ناقته بنوق الاخوان فطلع الناتج 18 فطلب منهم ان يخبروه بكم يريدون تقسيم الابل فاخبروه بأن للاول النصف فكان التقسيم كالآتي:
للأول النصف: 18/2 = 9 نوق.
وللثاني الثلث: 18/3 = 6 نوق.
وللثالث التُسع: 18/9 = 2 ناقتان.
فاذا امعنتوا قليلا فان ناتج العدد السابق يظهر بـ 17 وبقيت ناقة علي بن ابي طالب.
نتیجہ:
یہ بھی بلا سند صحابہ کرام کے دور کا واقعہ بیان کیا گیا ہے.
٣. واقعے کا تیسرا رخ:
تین لوگوں کو میراث میں سترہ اونٹ ملے اور پھر حضرت علی نے ان کا فیصلہ کیا.
كان هناك ثلاثة رجال يمتلكون سبعة عشر جملًا عن طريق الإرث بنِسبٍ متفاوتة، فكان الأول يملك نصفها، والثاني ثلثها، والثالث تُسعها، وحسب النِّسَب يكون التوزيع كالآتي: الأول يملك النصف، والثاني يملك الثلث، والثالث يملك التُّسع، ولم يجدوا طريقة لتقسيم تلك الجمال فيما بينهم، دون ذبح أيٍّ منها، أو بيع جزء منها قبل القِسمة، فما كان منهم إلا أن ذهبوا للإمام علي رضي الله عنه لمشورته، وحلِّ معضلتهم، قال لهم الإمام علي رضي الله عنه: هل لي بإضافة جمل من جمالي إلى القطيع؟ فوافقوا بعد استغراب شديد، فصار مجموع الجمال ثمانية عشر جملًا، وقام الإمام علي رضي الله عنه بالتوزيع كالتالي: الأول يملك النِّصف فأخذ تِسعة، والثاني يملك الثلث فأخذ ستة، والثالث يملك التُّسع فأخذ اثنين، ولكن الغريب في الموضوع أن المجموع النهائي بعد التقسيم يكون سبعة عشر جملًا، فأخذ كل واحدٍ منهم حقَّه، واسترد الإمام جمله الثامن عشر.
نتیجہ:
چونکہ یہ واقعہ بغیر کسی سند کے منقول ہے اور نسبت بھی دور صحابہ کی طرف ہے، اسلئے
روایات کی تحقیق کرنے والے ادارے “الدرر السنیة” نے اس واقعے کو من گھڑت قرار دیا.
الدرجة: قصة باطلة مركَّبة لا أصل لها.
٤. واقعے کا چوتھا رخ:
شیعوں کی کتابوں میں باقاعدہ کتاب کے حوالے کے ساتھ میراث کے ذکر کے بغیر اس واقعے کو نقل کیا گیا ہے.
》روي عن شـرح «بديعيّـة ابـن المُقْـري» أنّ ثلاثـة جـاءوا إلی أميرالمؤمنين علي علیه السلام، وكانوا قد تنازعوا في سبعة عشر جملاً. قال الاوّل منهم: لي نصفها. وقال الثاني: لي ثلثها. وقال الثالث: لي تسعها. ولمّا أرادوا تقسيمها، رأوا أنّ حصّة كلّ منهم تكون عدداً كسـريّاً لا صحيحاً….الخ
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی معتبر کتاب میں ہمیں نہ مل سکا، بلکہ یہ واقعہ کہیں تو حضرت علی کی طرف منسوب، تو کہیں کسی حکیم کی طرف منسوب، تو کہیں کسی دانا شخص کی طرف منسوب کرکے نقل کیا جاتا ہے، اور شیعوں کی عام عادت کے مطابق ہر اچھی بات کو حضرت علی کی طرف منسوب کرنے کی وجہ سے اس واقعے کو بھی ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جبکہ یہ نسبت درست معلوم نہیں ہوتی.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣ مارچ ٢٠٢١ کراچی