طوفانِ نوح اور بڑھیا
سوال
مندرجہ ذیل واقعے کی تحقیق مطلوب ہے:
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جب حضرت نوح ؑ کشتی بنا رہے تھے تو ایک مؤمنہ بوڑھی عورت روز اللہ کے نبی کے پاس اپنی گٹھڑی لے کر آتی اور کہتی: ”اے اللہ کے نبی! کشتی کب روانہ ہوگی؟“ حضرت نوح ؑ فرماتے: ”ابھی دیر ہے۔“ وہ عورت شام تک بیٹھی رہتی اور پھر اٹھ کر چلی جاتی۔
ایک دن حضرت نوح ؑ نے فرمایا کہ اے عورت! جب جانا ہوا تو تمہیں بتا دیا جائےگا۔ یہ عورت واپس چلی گئی اور انتظار کرنے لگی کہ کب نوح بلائیں گے۔ اس دوران عذاب آگیا اور کشتی روانہ ہو گئی لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے اس عورت کو نہ بلایا (ظاہری طور پر نوح ؑ کو اس کو بلانا بھلا دیا گیا)
جب طوفان تھما تو ایک دن حضرت نوح ؑ کے دل میں محبت اٹھی کہ شہر کو دیکھوں جہاں سے چلا تھا۔ وہاں آئے اور قریب جا کر دیکھا تو ایک جھونپڑی میں دیا جل رہا تھا۔ حضرت نوح یہ دیکھ کر چونک گئے کہ روئے زمین پر کوئی ایسا گھر بھی ہے کہ اتنے عظیم طوفان کے بعد بھی جس میں چراغ جل رہا ہے۔ انہوں نے وہاں تکبیر بلند کی تو وہ عورت سامان لے کر آگئی اور کہنے لگی: ”یا نبی اللہ! کیا کشتی تیار ہے چلیں؟“ حضرت نوح ؑ نے حیرت سے اسکو دیکھا اور کہا: ”رکو بڑھیا، کیا تمہیں کچھ بھی پتہ نہیں چلا“؟ وہ کہنے لگی: ”یا نبی اللہ! کیا نہیں پتہ چلا؟“ کہا: اتنا بڑا سیلاب آیا، بارش آئی، تمہیں کچھ بھی پتہ نہیں چلا؟ بڑھیا کہنے لگی: ”یا نبی اللہ! بس ایک دن بادل گرجے تھے اور کچھ ہلکی سی پھوہار پڑی تھی“۔ حضرت نوح ؑ حیران ہو کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے اور کہا: ”میرے اللہ! یہ کیا ماجرا ہے؟“ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ پر وحی بھیجی کہ اے میرے پیارے نبی! اس عورت کے دل میں چونکہ تمہاری محبت تھی اور تم نے اسے پابند کر دیا تھا اور چونکہ تمہارا اس سے وعدہ بھی تھا کہ نجات کی کشتی میں اسے لے جاؤ گے، تب جبکہ تم نے اپنا وہ وعدہ پورا نہیں کیا، لیکن اے نوح ؑ! میں تو تمہارے وعدے کا ذمہ دار تھا، اس لئے میں نے اس بڑھیا تک عذاب پہنچنے ہی نہیں دیا.
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے پاس بیٹھے اپنے مؤمنین سے فرمایا: او مؤمنو! یہ حدیث قیامت تک کے مؤمنین تک پہنچانا تم پر واجب ہے.. انہیں بتا دو کہ جس نے ہم سے محبت کی، قیامت کا عذاب ضرور آئےگا، لیکن جیسے اس بڑھیا کو پتہ نہیں چلا، ہمارے مؤمنوں کو بھی پتہ نہیں چلےگا کہ کب قیامت آئی اور کب چلی گئی..
(کتاب کا نام: مصباح الهدیٰ، مصنف مهدی طیب، طبع تہران، سال 1379، ایڈیشن اول، جلد: 1، صفحہ: 58)
کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
(سائل: نعمان أعظمی، قطر)
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ تو شیعہ کتب سے منقول ہے، اور ان کے نزدیک سفینہ نوح سے مراد ہی شیعیت ہے، لہذا اس کے بارے میں یہی کہا جائےگا کہ شیعوں کے اضافے کے ساتھ یہ واقعہ ثابت نہیں.
شیعوں کا اس واقعے میں مزید اضافہ:
یہاں ایک بڑھیا آتی ہے، جس کو بتایا جاتا ہے کہ تمہارے گھر کے تنور سے پانی نکلےگا، اور اس کی چھوٹی بیٹی سب کو پانی نکلنے کی خبر دیتی ہے.
جاءت امرأةٌ عَجوزٌ مع ابنتِها الصغيرةِ الى سيدِنا نوحٍ.. سألته عن يومِ الخَلاصِ.. قالَت له: متى يُنقِذُنا اللهُ من شرِّ هؤلاءِ الكفّار؟
سيدُنا نوحٌ لا يَدري متى.. لهذا نَظَر الى السماءِ.. إن الله وحدَهُ هو العالِم..
في هذهِ اللحظةِ هَبَطَ المَلاكُ وأخبَرَ سيدَنا نوحاً قالَ له: عندما يَفُورُ التنّورُ في بيتِ هذه المرأةِ.. فاعلَمْ أن مَوعِدَ الطُّوفان قد دنا..
.. وفارَ التنّور
جاءت الفتاةُ الصغيرةُ الى نوحٍ.. جاءت تَركُضُ، قالت له: لقد فارَ التنّور!
أسرَعَ سيدُنا نوحٌ الى التنّور.. لقد صَدَقَ اللهُ وعدَهُ.. التنّورُ تَحوّلَ الى نافورة. الماءُ يتدفّقُ بقوّة.. والمرأةُ العجوزُ كانت حائرةً لا تدري ماذا تفعل..
یہ تنور اور بڑھیا کا گھر کوفہ میں تھا.
فالنصوص المفسرة تذكر أن ثمة تنورا كان في بيت عجوز مؤمنة بالكوفة.
نوح علیہ السلام نے کوفہ کی مسجد میں کشتی بنائی.
فأوحى الله عزوجل إلى نوح أن اصنع سفينة وأوسعها وعجل عملها فعمل نوح سفينة في مسجد الكوفة بيده فأتى بالخشب من بعد حتى فرغ منها.
اس واقعے کی کوئی اصل:
باوجود تلاش کرنے کے یہ واقعہ تفسیر روح البیان کے علاوہ کہیں نہیں ملا. اس واقعے میں فقط اتنا ہے کہ بڑھیا منتظر تھی اور نوح علیہ السلام ان کو بھول گئے تھے، الی اخرہ،
لیکن یہ واقعہ بغیر کسی سند اور حوالے کے بارہویں صدی کے مفسر حکی مجہول کے صیغے سے نقل کررہے ہیں،
حكي ان عجوزاً مرت على نوح وهو يصنع السفينه وكانت مؤمنه به، فسألته عما يصنعه ، فقالــ:
((إن الله تعالى سيهلك الكفار وبالطوفان وينجي المؤمنين بهذه السفينه فأوصت ان يخبرها نوح إذا جاء وقتها لتركب في السفينه مع المؤمنين، فلما جاء ذلك الوقت اشتغل نوح بحمل الخلق فيها ونسي وصية العجوز وكانت بعيدة منه ثم لما وقع إهلاك الكفار ونجاة المؤمنين وخرجوا من السفينه، جاءت إليه تلك العجوز فقالت : يانوح إنك قلت لي سيقع الطوفان ألم يأن ان يقع ؟قال : قد وقع وكان امر الله مفعولاً، وتعجب من امر العجوز؛ فإن الله تعالى قد انجاها في بيتها من غير ركوب السفينه ولم تر الطوفان قط ))وهكذا حماية الله تعالى لعباده المؤمنين.
المصدر: روح البيان (حقي)
المؤلف: اسماعيل حقي
تفسیر سورہ ہود 160/4
تفسیر روح البیان کا مقام:
اس تفسیر پر تفصیلی کلام اس سے قبل بھی تنبیہات میں کیا جا چکا ہے کہ اس تفسیر میں بےشمار ایسے بےسند اور من گھڑت واقعات منقول ہیں، لہذا کسی بھی واقعے کا صرف اس تفسیر میں موجود ہونا ہی اس واقعے کی کمزوری کی علامت ہے.
نوح علیہ السلام کا قصہ اور اسرائیلیات کا حال:
اس واقعے کو اسرائیلیات ہی شمار کیا جائےگا، لیکن سوال یہ ہے کہ ان اسرائیلیات کو نقل کس نے کیا، اور روح البیان کے مصنف تک یہ بات کس طرح پہنچی.
شيخ عبد الرحمن بن محمد القماش اپنی تفسیر كتاب الحاوي في التفسير میں لکھتے ہیں: ہماری تفسیر کی بہت ساری کتابیں جیسے تفسیر ابن جریر اور درمنثور وغیرہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے متعلق عجیب و غریب باتیں نقل کی گئی ہیں، جیسے لکڑی کونسی تھی، کشتی کتنی لمبی، کتنی چوڑی تھی، وغیرہ وغیرہ، اور اس کے علاوہ بھی خرافات نقل کئے ہیں، بلکہ بعض لوگوں نے تو بعض باتوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی منسوب کیا، اللہ تعالیٰ ان کو برباد کرے.
الإسرائيليات في سفينة نوح:
قال الدكتور محمد أبو شهبة:
ومن الإسرائيليات التي اشتملت عليها بعض كتب التفسير، كتفسير ابن جرير، والدر المنثور وغيرهما: ما روي في سفينة نوح عليه السلام فقد أحاطوها بهالة من العجائب والغرائب، من أي خشب صنعت؟ وما طولها؟ وما عرضها؟ وما ارتفاعها؟ وكيف كانت طبقاتها؟ وذكروا خرافات في خلقة بعض الحيوانات من الأخرى، وقد بلغ ببعض الرواة أنهم نسبوا بعض هذا إلى النبي صلى الله عليه وسلم. قال صاحب الدر: وأخرج أبو الشيخ، وابن مردويه، عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «كانت سفينة نوح عليه السلام لها أجنحة وتحت الأجنحة إيوان»، أقول: قبح الله من نسب مثل هذا إلى النبي صلى الله عليه وسلم.
باقاعدہ سند سے نقل کیا گیا کہ کشتی نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، اور مقام ابراہیم پر دو رکعتیں ادا کیں.
سفينة نوح عليه السلام طافت بالبيت سبعا بل رووا عن عبدالرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن جدّه، عن النبي صلى الله عليه وسلم «إن سفينة نوح طافت بالبيت سبعًا، وصلت عند المقام ركعتين»
یہ سب کے سب عبدالرحمن بن زید بن اسلم کی کارستانی تھی، اور یہ عبدالرحمن اسی طرح کی عقل سے دور باتیں نقل کرتا تھا.
وهذا من تفاهات عبدالرحمن هذا، وقد ثبت عنه من طريق أخرى، نقلها صاحب التهذيب عن الساجي، عن الربيع، عن الشافعي، قال: قيل لعبدالرحمن بن زيد بن أسلم: حدثك أبوك عن جدك: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن سفينة نوح طافت بالبيت، وصلت خلف المقام ركعتين؟» قال: نعم، وقد عرف عبدالرحمن بمثل هذه العجائب المخالفة للعقل وتندر به العلماء.
قال الشافعي فيما نقل في التهذيب أيضا: «ذكر رجل لمالك حديثا منقطعا، فقال: اذهب إلى عبدالرحمن بن زيد يحدثك عن أبيه، عن نوح»
جب کشتی جودی پہاڑ پر پہنچی تو وہ دس محرم کا دن تھا، تو نوح علیہ السلام نے روزہ رکھا، اور تمام انسانوں اور جانوروں کو شکر کا روزہ رکھنے کا حکم دیا.
اب اس قسم کی خرافات اور باطل باتیں عوام اور بوڑھے لوگوں سے سنتے آرہے ہیں، (ان میں سے بعض کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف بھی کی جاتی ہے) دراصل یہ یہود کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں، جو انہوں نے مسلمانوں میں عام کردی ہیں، ابن جریر اور سیوطی کو ان باتوں کو اپنی کتابوں میں نہیں لکھنا چاہیئے تھا، اور مسلمانوں کو بھی ان باتوں کو سن کر پس پشت ڈال دینا چاہیئے.
وأن لما رست السفينة على الجودي وكان يوم عاشوراء صام نوح، وأمر جميع من معه من الوحش والدواب فصاموا شكرا لله، إلى غير ذلك من التخريفات والأباطيل التي لا نزال نسمعها، وأمثالها من العوام والعجائز، وهذا لا يمكن أن يمت إلى الإسلام بصلة، وإنا لننزه المعصوم صلى الله عليه وسلم من أن يصدر عنه ما نسبوه إليه، وإنما هي أحاديث خرافة اختلقها اليهود وأضرابهم على توالي العصور، وكانت شائعة مشهورة في الجاهلية، فلما جاء الإسلام نشرها أهل الكتاب الذين أسلموا بين المسلمين، وهؤلاء رووها بحسن نية، ولم يزيفوها اعتمادا على أنها ظاهرة البطلان، وأوغل زنادقة اليهود وأمثالهم في الكيد للإسلام ونبيه، فزوروا بعضها على النبي صلى الله عليه وسلم وما كنا نحب لابن جرير، ولا للسيوطي، ولا لغيرهما أن يسودوا صحائف كتبهم بهذه الخرافات والأباطيل، فاحذر منها أيها القارئ في أي كتاب من كتب التفسير وجدتها، وألق بها دبر أذنيك، وكن عن الحق منافحًا وللباطل مزيفًا. (مختصرا الحاوی فی التفسیر)
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ نہ تو اس کا اسرائیلیات میں سے ہونا متیقن ہے، نہ ہی کسی مستند حوالہ سے منقول ہے، اور نہ ہی یہ بعد کا کوئی واقعہ ہے کہ جس کے معنی کا درست ہونا ہی اس کیلئے کافی ہو، بلکہ طوفانِ نوح کے متعلق بےشمار من گھڑت واقعات کو دیکھتے ہوئے ایسے واقعات کو بیان کرنے سے بھی احتراز کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٧ مارچ ٢٠٢١ کراچی