تنبیہ نمبر 353

واقعۂ معراج سے متعلق علمی غلطی

سوال
محترم مفتی صاحب!
آپ سے اس بات کی تحقیق مطلوب ہے کہ قاری حنیف ڈار صاحب نے واقعۂ معراج کے متعلق یہ اشکال کیا ہے کہ آپ علیہ السلام کے سفرِ معراج کا آغاز أم ہانی کے گھر سے نہیں ہوا، کیونکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام اس رات کو مسجد حرام میں تھے، قرآن مجید سے بھی یہ بات ثابت ہے، اور أم ہانی کا گھر اس لئے بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ علیہ السلام نے ایک بار ان کا رشتہ طلب فرمایا تو ابوطالب نے بعض وجوہات کی بناء پر اس رشتے سے انکار کردیا.
اس کے بعد قاری صاحب أم ہانی کے پاس دوبارہ رشتہ بھیجے جانے والی روایات کے منکر ہیں کیونکہ (بقول ان کے) یہ صریح قرآن کے خلاف ہے…
 برائے مہربانی مذکورہ بالا تمام باتوں کی تحقیق فرما دیجئے…

الجواب باسمه تعالی

معراج آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگی میں پیش آنے والا بہت ہی اہم واقعہ ہے، اور اس کے متعلق جہاں بےشمار صحیح روایات موجود ہیں، وہیں من گھڑت روایات اور جھوٹے راویوں کی کارستانی بھی بہت زیادہ ہے، لہذا افراط اور تفریط سے بچتے ہوئے ایسی تحقیق پیش کرنا بہت ضروری ہے کہ جس میں صراط مستقیم پر چلا گیا ہو کیونکہ اس موقعے پر قدم بہک بھی جاتے ہیں جیسے کہ قاری حنیف ڈار نے اپنی اس تحقیق میں حق بیان کرتے کرتے بہت سارے حق کا انکار بھی کر دیا ہے.

اب قاری صاحب کے مضمون پر ایک تجزیہ پیش کرتے ہیں

   قاری حنیف ڈار صاحب کے دعووں کا ایک تجزیہ  

   ١. پہلا دعوی  

معراج مسجد حرام سے ہوئی ہے، ام ہانی کے گھر سے نہیں.

 تجزیہ  

اس دعوے سے مکمل اتفاق ہے، کیونکہ جن روایات میں ام ہانی کے گھر سے معراج منقول ہے وہ تمام روایات سند کے لحاظ سے درست نہیں.

 ١- پہلی روایت  

آپ علیہ الصلاة والسلام أم ہانی کے گھر میں موجود تھے.

  أخرجها ابن أبي عاصم في “الآحاد والمثاني” (39)، والطبراني في “المعجم الكبير” (24/432)، من طريق عَبْدِالْأَعْلَى بْنِ أَبِي الْمُسَاوِرِ، قَالَ  سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ  أَخْبَرَتْنِي أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہ عَنْهَا قَالَتْ  بَاتَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدِي لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، فَذَكَرَ أَمْرَهُ وَكَيْفَ أُسْرِيَ بِهِ قَالَ  وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى قُرَيْشٍ فَأُخْبِرَهُمْ، فَأَخْبَرَهُمْ فَكَذَّبُوهُ، وَصَدَّقَهُ أَبُوبَكْرٍ رَضِيَ اللہ عَنْهُ، فَسُمِّيَ مِنْ يَوْمَئِذٍ الصِّدِّيقَ.

   اس روایت کی اسنادی حیثیت  

اس روایت کے راوی پر جھوٹے ہونے کا الزام ہے.

  وإسناده تالف، فيه عبدالأعلى بن أبي المساور.
  قال الذهبي في “تاريخ الإسلام” (4/428)  ضَعَّفَهُ الْكُلُّ.
  قَالَ ابْنُ مَعِينٍ  لَيْسَ بِشَيْءٍ.
  وَقَالَ الْبُخَارِيُّ  مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
  وَقَالَ النَّسَائِيُّ وَغَيْرُهُ  مَتْرُوكٌ.
ولذا ضعف الهيثمي هذه الرواية في “مجمع الزوائد” (1/450)، فقال  رواه الطبراني في الكبير، وفيه عبدالأعلى بن أبي المساور، متروك كذاب.

 ٢- دوسری روایت  

اس روایت میں بھی ام ہانی کے گھر سے معراج کا تذکرہ ہے.

  أخرجها الطبري في “تفسيره” (14/414)، من طريق محمد بن إسحاق، قَالَ  حدثني مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ بَاذَامَ، عَنْ أُمِّ هَانِئِ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، فِي مَسْرَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ  “مَا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا وَهُوَ فِي بَيْتِي نَائِمٌ عِنْدِي تِلْكَ اللَّيْلَةَ، فَصَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، ثُمَّ نَامَ وَنِمْنَا، فَلَمَّا كَانَ قُبَيْلَ الْفَجْرِ أَهَبَّنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى الصُّبْحَ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ قَالَ  يَا أُمَّ هَانِئٍ! لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَكُمُ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ كَمَا رَأَيْتِ بِهَذَا الْوَادِي، ثُمَّ جِئْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَصَلَّيْتُ فِيهِ، ثُمَّ صَلَّيْتُ صَلَاةَ الْغَدَاةِ مَعَكُمُ الْآنَ كَمَا تَرَيْنَ”.

   اس روایت کی اسنادی حیثیت  

اس میں ابن سائب الکلبی کذاب جھوٹا راوی ہے.

  وإسناده تالف أيضا، فيه محمد بن السائب الكلبي وھو كذاب.
  قال ابن أبي حاتم في “الجرح والتعديل” (7/271)  سألت أبى عن محمد بن السائب الكلبى فقال  الناس مجتمعون على ترك حديثه، لا يشتغل به، هو ذاهب الحديث۔

 معراج کی رات آپ علیہ السلام اپنے گھر میں ہی موجود تھے. (یہ بخاری اور مسلم کی متفق روایت ہے)

  أخرجه البخاري في “صحيحه” (349)، ومسلم في “صحيحه” (163)، من حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ  كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ  فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَلام، فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَأَفْرَغَهُ فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي، فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا…. ثم ساق الحديث.

   ٢. دوسرا دعوی  

آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے أم ہانی کیلئے زمانہ جاہلیت میں رشتہ بھیجا تھا جو ابوطالب نے قبول نہیں کیا.

 تجزیہ  

یہ دعوی بلکل باطل ہے، اور اس کے متعلق تمام روایات درست نہیں.

 ١- پہلی روایت  

اس میں آپ علیہ السلام کے دو دفعہ رشتہ بھیجنے کا ذکر ہے، ایک مرتبہ جاہلیت میں اور ایک مرتبہ اسلام میں.

 الاسناد الأول   في طبقات ابن سعد في ترجمة أم هانئ رضي الله عنها.
  أخبرنا هشام بن محمد بن السائب الكلبي عن أبيه عن أبي صالح عن بن عباس قال  خطب النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي طالب ابنته أم هانئ في الجاهلية وخطبها هبيرة بن أبي وهب بن عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم فتزوجها هبيرة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم  يا عم! زوجت هبيرة وتركتني. فقال  يا بن أخي! إنا قد صاهرنا إليهم والكريم يكافيء الكريم ثم أسلمت ففرق الإسلام بينها وبين هبيرة، فخطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى نفسها، فقالت  والله إن كنت لأحبك في الجاهلية فكيف في الإسلام، ولكني امرأة مصبية وأكره أن يؤذوك، فقال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم  “خير نساء ركبن المطايا نساء قريش، أحناه على ولد في صغره، وأرعاه على زوج في ذات يده”.

   اس روایت کی اسنادی حیثیت  

اس سند میں ابن کلبی کذاب موجود ہے، لہذا یہ روایت کسی قابل نہیں.

  فيه ابن الكلبي وهو متروك، كذاب كأبيه الكلبي.
  قال الذهبي رحمه الله في سير أعلام النبلاء (الجزء العاشر)  قال أحمد بن حنبل  إنما كان صاحب سمر ونسب، ما ظننت أن أحدا يحدث عنه.
  وقال الدارقطني وغيره  متروك الحديث.
  وقال ابن عساكر  رافضي ليس بثقة.

 ٢- دوسری روایت  

یہ مستدرک حاکم کی روایت ہے اور اس میں بھی زمانۂ جاہلیت میں رشتہ بھیجنے کا تذکرہ ہے.

الإسناد الثاني  المستدرك على الصحيحين، كتاب معرفة الصحابة.
  حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِالله الأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَهْمِ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَرَجِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ  وَفِيمَا ذُكِرَ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ إِلَى عَمِّهِ أَبِي طَالِبٍ أُمَّ هَانِئٍ…

   اس روایت کی اسنادی حیثیت  

اس روایت کی سند میں ایک راوی حسین بن الفرج موجود ہے جس کو ابن معین نے جھوٹا اور روایات کا چوری کرنے والا قرار دیا ہے.

أولا  الحسين بن الفرج بن الخياط ضعيف اجمعوا على ترك حديثه.
نقرا في لسان الميزان  الحسين بن الفرج الخياط [أَبُو علي وأَبُو صالح ويعرف بابن الخياط].
عن وكيع.
  قال ابن مَعِين  كذاب يسرق الحديث.
ومشاه غيره.
  وقال أبو زرعة  ذهب حديثه.

   ٣. تیسرا دعوی  

آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے أم ہانی کو رشتہ اسلام قبول کرنے کے بعد نہیں بھیجا، اور یہ اسلئے کہ قرآن کے رو سے أم ہانی ان کیلئے حلال ہی نہیں تھیں، اور اگر کسی روایت میں رشتہ بھیجنے کا ذکر ہے بھی تو وہ روایت قرآن مجید کی مخالفت کی وجہ سے من گھڑت قرار دی جائےگی چاہے وہ صحیح مسلم کی روایت ہی کیوں نہ ہو.

 تجزیہ  

قاری حنیف ڈار صاحب اس جگہ بہت بڑی غلطی کر گئے.

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے ام ہانی کو رشتہ بھیجا تھا.

  والحديث أخرجه مسلم في “صحيحه” (201)، من حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَتْ  يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي قَدْ كَبِرْتُ، وَلِي عِيَالٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نِسَاءُ قُرَيْشٍ خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ، أَحْنَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ، وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ.

اب قرآن مجید میں جو ممانعت آئی ہے کہ آپ صرف مہاجرات کو ہی رشتہ بھیج سکتے ہیں، اس حکم کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی، تو اس کا جواب ام ہانی نے خود دیا ہے.

ترمذی شریف کی روایت حسن درجے کی ہے جس میں ام ہانی کہتی ہیں کہ پہلے رشتہ بھیجا گیا، جب میں نے انکار کیا تو پھر یہ ممانعت والی آیات نازل ہوئی.

  وقال الترمذي  حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، حدثنا إسرائيل، عن السدي، عن أبي صالح، عن أم هانئ بنت أبي طالب، قالت  خطبني رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعتذرت إليه فعذرني. ثم أنزل الله  {إنا أحللنا لك أزواجك اللاتي آتيت أجورهن وما ملكت يمينك مما أفاء الله عليك وبنات عمك وبنات عماتك وبنات خالك وبنات خالاتك اللاتي هاجرن معك} [الأحزاب  50] الآية. (ص  223) قالت  فلم أكن أحل له؛ لأني لم أهاجر، كنت من الطلقاء. ثم قال  هذا حديث حسن.
خلاصہ کلام

آپ علیہ السلام نے معراج اپنے گھر سے ہی کیا، آپ معراج کی رات مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں ہی موجود تھے، أم ہانی کے گھر سے معراج والی بات درست نہیں.

اسلام سے قبل أم ہانی کو رشتہ بھیجنے والی بات بھی درست نہیں، البتہ اسلام قبول کرنے کے بعد بطورِ دلاسہ اور تسلی کے آپ علیہ السلام نے أم ہانی کو رشتہ بھیجا جو انہوں نے بڑی عمر اور اولاد کی وجہ سے منع کردیا.

باقی کچھ لوگوں نے قرآن و حدیث کو اپنی عقل کے پیمانے پر پرکھنے کا معیار بنالیا ہے، جو کہ انتہائی غلط طریقہ کار ہے اور قاری حنیف ڈار بھی اسی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں، 

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

١٧ جنورى ٢٠٢٢ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں