کوہِ قاف کا قیدی فرشتہ
سوال
محترم مفتی صاحب!
ایک پوسٹ پڑھی جس میں جبریل علیہ السلام کسی فرشتے کو کوہ قاف پر قید کرنے کا بتاتے ہیں، اور اس کی وجہ اس فرشتے کا درود شریف نہ پڑھنا ہوتا ہے، کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں جس واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ روایت کسی بھی مستند کتاب میں موجود نہیں، البتہ بعض صوفیاء کی طرف منسوب کتابوں میں بغیر سند کے یہ روایت نقل کی گئی ہے.
روایت اور اس کا متن:
ایک مرتبہ فرشتوں کے سردار حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلام معراج کے دُولہا، اِمام الانبیاء صَلّی اللہُ عَلَیْہ وسَلَّم کی خِدمتِ بابرکت میں حاضِر ہوئے اور عرض کیا: یارسولَ اللہ صَلّی اللہُ عَلَیْہ وسَلَّم! آج مجھے کوہ قاف میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں میں نے رونے چِلَّانے کی آوازیں سُنیں، جس طرف سے آوازیں آرہی تھیں میں اس طرف کو گیا تو دیکھا کہ ایک فرشتہ جو آسمانوں پر اِعزاز واِکْرام کے ساتھ نورانی تخت پر بیٹھتا تھا، 70 ہزار فرشتے اس کے گرد صَف بنا کر کھڑے رہتے تھے، وہ جب سانس لیتا تو اللہ پاک اس سانس کے بدلے ایک فرشتہ پیدا کر دیتا تھا مگر آج وہی فرشتہ کوہِ قاف کی وادی میں پریشان حال، آہ وزاری کر رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا: کیا حال ہے؟ تیرے ساتھ کیا مُعَاملہ ہوا؟ فرشتہ بولا: مِعْراج کی رات جب اللہ پاک کے حبیب، دلوں کے طبیب صَلّی اللہُ عَلَیْہ وسَلَّم میرے قریب سے گذرے تو میں نے آپ صَلّی اللہُ عَلَیْہ وسَلَّم کی تعظیم وتکریم کی پرواہ نہ کی، اللہ پاک کو میری یہ بات پسند نہ آئی، چنانچہ مجھے اس کی سزا دی گئی اور اُس بلندی سے یہاں اُتار دیا گیا۔ پھر اس نے مجھ سے درخواست کی: اے جبریل! اللہ پاک کی بارگاہ میں میری سِفَارش کر دیجئے کہ اللہ پاک میری خطا معاف فرما دے۔
یارسولَ اللہ صَلّی اللہُ عَلَیْہ وسَلَّم! میں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں نہایت عاجزی کے ساتھ اُس کی مُعَافِی کی درخواست کی تو اِرْشاد ہوا: اے جبریل! اس فرشتے کو بتا دو کہ اگر یہ مُعَافِی چاہتا ہے تو میرے پیارے حبیب صَلّی اللہُ عَلَیْہ وسَلَّم پر دُرود پڑھے۔
یارسولَ اللہ صَلّی اللہُ عَلَیْہ وسَلَّم! میں نے جیسے ہی اس فرشتے کو بتایا تو وہ فوراً آپ صَلّی اللہُ عَلَیْہ وسَلَّم کی ذاتِ عالی پر درود پڑھنے میں مشغول ہو گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے بال اور پَر نکلنا شروع ہوئے اور وہ اُڑ کر آسمان کی بلندیوں میں جا پہنچا. (جامع صَغِیر، صفحہ: 557، حدیث: 9326)
جاء في الخبر: أن جبريل عليه السلام جاء يوماً إلي النبي صلى الله عليه وسلم وقال: يارسول الله! كنت رأيت ملكاً في السماء على سرير وحوله سبعون ألف ملك صفوفاً يخدمونه، وكل نفس يتنفس ذلك الملك يخلق الله من نفسه ملكاً والآن رأيت ذلك الملك علي جبل قافٍ منكسر الجناح وهو يبكي، فلما رآني قال: أشفع لي؟ قلت: ما جرمك؟ قال: كنت على السرير ليلة المعراج فمر بي محمد صلي الله عليه وسلم، فما قمت له فعاقبني الله بهذه العقوبة وجعلني في هذا المكان كما تري، قال: فتضرعت إلی الله فشفعت له، فقال الله تعالى: ياجبريل! قل له حتى يصلي على محمد، فصلى ذلك الملك عليك فعفا الله عنه وأنبت جناحيه. (الباب التاسع عشر في بيان خشوع في الصلاة: 67، مكاشفة القلوب المقرب إلى حضرة علام الغيوب في علم التصوف)
(نورالانوار وكنز الأبرار في ذكر الصلاة على النبي المختار: 82)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت سند اور متن کے لحاظ سے درست معلوم نہیں ہوتی، جہاں بھی یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے وہاں بغیر سند کے منقول ہے، جو کہ اس کے بےسند ہونے کی دلیل ہے، اور اس کا متن بھی انتہائی کمزور اور منکر ہے.
فرشتے اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہیں جن میں نافرمانی کا مادہ اور جذبہ رکھا ہی نہیں گیا. {لا یعصون اللہ ما أمرهم ویفعلون ما يُؤْمَرون} لہذا اس طرح کے کسی واقعے کا پیش آنا محال ہے.
خلاصہ کلام
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات پر درود بھیجنا افضل ترین عبادات میں سے ہے، اس کے فضائل میں بےشمار صحیح روایات موجود ہیں، لہذا اس طرح کے کمزور اور من گھڑت واقعات بیان کرنے اور پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٢ اگست ٢٠٢٢ کراچی