تنبیہ نمبر 367

طواف میں کئے جانے والے ظلم کا بدلہ

سوال
محترم مفتی صاحب!
ہمارے ہر دلعزیز سابق وزیراعظم نے 13 اگست کو اپنی تقریر میں ایک انکشاف کیا تھا کہ ایک شہزادہ طواف کر رہا تھا تو ایک بدو کا پیر اس کے لباس پر پڑ گیا۔ شہزادہ نے طیش میں اس کو تھپڑ مار دیا۔ بدو نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی تو آپ نے حکم فرمایا کہ یا تو اس سے معافی مانگو ورنہ یہ بدو بھی تمہیں تھپڑ مارےگا
      کیا یہ واقعہ ثابت ہے؟
(سائل: محمد انیس، کراچی)

الجواب باسمه تعالی


غسان کے بادشاہ کا اسلام اور دورانِ طواف تھپڑ مارنے کا واقعہ یقینا پیش آیا ہے، لیکن یہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا زمانہ نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور تھا، اور یہ واقعہ تاریخ کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے، جیسے کتاب “سیدنا عمر کی شخصیت اور کارنامے” کے صفحہ نمبر 180 پر موجود ہے.

غسانی حکمران جبلہ بن ایہم نے اسلام قبول کر لیا، نیز اس کے ساتھ اس کے دوسرے ساتھی بھی اسلام لے آئے، پھر اس نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مدینہ آنے کی اجازت مانگی، عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے قبول اسلام اور مدینہ آنے کی خبر سن کر بہت خوشی ہوئی، چنانچہ وہ مدینہ آیا، اور لمبی مدت تک وہاں قیام کیا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس کی دیکھ بھال کرتے رہے اور اسے مبارک باد دیتے رہے۔ ایک مرتبہ وہ (غسانی) حج کے لئے گیا، اتفاق سے طوافِ کعبہ کے دوران بنو فزارہ کے ایک آدمی کے پاؤں سے اس کا ازار دب گیا اور پھر کھل کر نیچے گر گیا۔ غسانی حکمران اس پر غصے ہو گیا …(چونکہ وہ ابھی نو مسلم تھا)… اور فزاری کو زور دار تھپڑ مارا، جس سے اس کی ناک ٹوٹ گئی۔ فزاری بھاگتے ہوئے اپنی مصیبت کی شکایت لے کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آپ نے جبلہ کو بلوایا اور اس سے پوچھا۔ اس نے جو کچھ ہوا تھا اس کا اقرار کیا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے جبلہ! تم نے اپنے اس بھائی پر کیوں ظلم کیا اور اس کی ناک کیوں توڑی؟ غسانی نے جواب دیا کہ میں نے تو اس گنوار کے ساتھ بڑی نرمی کی ہے، اگر خانہ کعبہ کی حرمت وتقدس کا لحاظ نہ ہوتا تو میں اس کی آنکھیں نکال دیتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: تم نے اقرار کر لیا ہے، اب یا تو تم اس آدمی کو راضی کر لو ورنہ میں اس کو تم سے بدلہ دلواؤں گا۔ جبلہ بن ایہم یہ سب دیکھ کر مزید دہشت میں پڑ گیا اور کہنے لگا: یہ کیسے ہوسکتا ہے، وہ ایک عام آدمی اور میں ایک بادشاہ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسلام نے تم دونوں کو برابر کر دیا ہے۔ غسانی نے کہا: میں نے سوچا تھا کہ جاہلیت کے مقابلہ میں اسلام میں زیادہ معزز ہو کر رہوں گا۔ آپ نے فرمایا: یہ سب چھوڑو، اگر تم اس آدمی کو راضی نہیں کر لیتے تو اس کو تم سے بدلہ دلواؤں گا۔ جبلہ نے کہا: تب تو میں نصرانی ہی ہو جاتا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم نصرانی ہو جاتے ہو تو میں تم کو قتل کروں گا، کیونکہ تم اسلام لا چکے ہو، لہٰذا اگر مرتد ہوئے تو تمہیں قتل ہی کروں گا۔ اب جبلہ کو یقین ہو چکا تھا کہ جھگڑنے سے کوئی فائدہ نہیں اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ حیلہ بہانہ کرنا کچھ بھی سود مند نہیں ہے، اس لئے اس نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مہلت مانگی تاکہ اس معاملہ میں کچھ غور کرلے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے جانے اور سوچنے کا موقع دے دیا۔ جبلہ نے غور وفکر کے بعد ایک ایسا فیصلہ کیا جس میں وہ غلطی ہی پر تھا۔ فیصلہ اس نے یہ کیا کہ رات کی تاریکی میں اپنی قوم کے ساتھ مکہ چھوڑ کر قسطنطنیہ بھاگ گیا، اور وہاں مرتد ہوگیا.

  ومنهم ملك غسان جبلة بن الأيهم، روى ابن الكلبي وغيره: أن عمر لما بلغه إسلام جبلة فرح بإسلامه، ثم بعث يستَدْعيه ليراه بالمدينة، وقيل: بل استأذنه جبلة في القُدُوم عليه، فأذن له، فركب في خلْق كثير من قومه، قيل: مائة وخمسين راكبًا، فلما سلَّم على عمر رحب به عمر وأدنى مجلسه، وشهد الحج مع عمر في هذه السنة، فبينما هو يطوف بالكعبة، إذ وطئَ إزارَه رجلٌ من بني فزارة فانحل، فرفع جبلة يده فهشم أنف ذلك الرجل.
ومن الناس مَن يقول: إنه قلع عينه، فاستعدى عليه الفزاري إلى عمر، ومعه خلْق كثيرٌ من بني فزارة، فاستحضره عمر فاعترف جبلة، فقال له عمر: أقدته منك؟ فقال: كيف، وأنا ملك وهو سوقة؟ فقال: إن الإسلام جمعك وإياه، فلست تفضله إلا بالتقوى، فقال جبلة: قد كنتُ أظُن أن أكونَ في الإسلام أعز مني في الجاهلية، فقال عمر: دع ذا عنك، فإنك إن لم ترضِ الرجل أقدته منك، فقال: إذًا أتنَصَّر، فقال: إن تنَصَّرتَ ضرَبتُ عنقك، فلما رأى الحدَّ قال: سأنظر في أمري هذه الليلة، فانصرف من عند عمر، فلما ادلَهَمَّ الليلُ ركب في قومه ومن أطاعه، فسار إلى الشام، ثم دخل بلاد الروم. (البدایة والنهاية، ج:8)
١. مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۲۳۵.
٢. الخلافۃ الراشدۃ والدولۃ الأمویۃ، یحیٰی الیحیٰی، ص: ۳۴۵.
٣. فن الحکم فی الإسلام، د/مصطفٰی أبوزید، ص: ۴۷۵، ۴۷۶
خلاصہ کلام

ہر مسلمان کے ذمے یہ لازم ہے کہ جب وہ دین اسلام کی کوئی بات کرے تو پہلے اس کی مکمل تحقیق کرلے، خصوصاً جب آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کسی بات کی نسبت کی جائے تو اس میں ذرا سی غلطی کی بھی گنجائش نہیں، لہذا احتیاط عوام کے بھی ذمے ہے، اور ایسی شخصیات جن کو لوگ سنتے ہیں ان کو خصوصاً بہت احتیاط کرنی چاہیئے

لہذا اس واقعے کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا بلکل درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

١٧ اگست ٢٠٢٢ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں