ابلیس کا پوتا دربار نبی میں
سوال
محترم مفتی صاحب!
ایک ویڈیو ہے جس میں ایک صاحب ابلیس کے پوتے کی آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں حاضری کا واقعہ بیان کر رہے ہیں…
آپ سے اس کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ مختلف کتب میں منقول ہے، پہلے ہم اس روایت کا مکمل ترجمہ پیش کرتے ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے باہر (دور) نکلا. یکایک ایک بوڑھے شخص سے سامنا ہوا جس نے اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا رکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسکی چال ڈھال اور آواز جنوں کی سی ہے۔ اس نے کہا: ہاں! (آپ کا اندازہ صحیح ہے). تو نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تم جنوں کے کس گروہ سے ہو؟ اس نے کہا: میرا نام ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتوں کا فاصلہ دیکھ رہا ہوں. اس نے کہا: ہاں! (آپ کی بات درست ہے). پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میری عمر دنیا کی عمر سے کچھ سال ہی کم ہوگی۔ جس رات قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا ان دنوں میری عمر چند برس کی تھی۔ میں پہاڑوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیا کرتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت برا عمل تھا۔ اس جن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے ملامت نہ فرمائیے کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور انکے ہاتھوں توبہ کرلی تھی۔ اور دعوت (دین) کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد وہ جن خود بھی رویا اور ہمیں بھی رلایا۔ اس جن نے کہا: اللہ کی قسم میں بہت شرمندہ ہوں اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ اور میں نے حضرت ہود علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان پر ایمان لایا۔ اور (اسی طرح) میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے اس کنویں میں پہنچ گیا تھا۔ (اسی طرح) میں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی. اور (اسی طرح) میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی، حضرت عیسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تمہاری ملاقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو ان کو میری طرف سے سلام کہنا۔ چنانچہ میں نے انکا پیغام پہنچا دیا اور میں آپ پر ایمان لایا. پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام پر سلام ہو اور تجھ پر بھی سلام ہو۔ اے ہامہ! تیری کیا حاجت ہے؟ اس جن نے عرض کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے تورات سکھائی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مجھے انجیل سکھائی تھی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قرآن مجید کی تعلیم دی.
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قرآن کی دس سورتیں سکھائی تھیں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ لیکن (اس واقعہ کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہامہ کے بارے میں پھر کچھ نہیں فرمایا۔ ہم سمجھتے ہیں (واللہ اعلم) کہ وہ زندہ ہے.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب الضعفاء الكبير میں ذکر کیا ہے، اور ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اس کی سند ثابت نہیں، جس سے اس کا صحیح ہونا ثابت ہو.
إسناده غير ثابت ولا يرجع منه إلى صحة. (الضعفاء الكبير: 4/96)
امام ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ دو سندوں سے منقول ہے، اور دونوں سند باطل ہیں.
روي بإسنادين كلاهما باطل
(ميزان الاعتدال: 3/599)
مزید لکھتے ہیں:
اس میں سارا قصور اسحاق بن بشر الکاہلی کا ہے.
الحمل فيه على إسحاق بن بشر الكاهلي، لا بارك الله فيه.
(ميزان الاعتدال: 1/186)
مزید امام ذہبی رحمہ اللہ ترتیب الموضوعات میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
ایک راوی ابوسلمہ انصاری ثقہ راوی کی طرف ایسی روایات منسوب کرتے ہیں جو ان کی روایات ہیں ہی نہیں.
[فيه] أبو سلمة الأنصاري. قال ابن حبان: يروي عن الثقات ما ليس من حديثهم. (ترتیب الموضوعات: 51)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لسان المیزان میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ابوسلمہ انصاری انتہائی کمزور راوی ہے، اور اس روایت کی کوئی اصل نہیں.
[فيه] أبو سلمة الأنصاري ضعيف جداً. وقال العقيلي: ليس للحديث أصل. (لسان المیزان: 2/49)
ابن الجوزي رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع کہا ہے. (موضوعات ابن الجوزي: 1/333)
امام شوکانی اس روایت کو موضوع کہتے ہیں. (الفوائد المجموعة: 498)
اس روایت کو امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب الضعفاء الكبير میں ذکر کیا ہے. اور ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
یہ روایت بلاشبہ من گھڑت ہے، اس کی سند (حضرت ابن عمر والی) کا راوی اسحاق بن بشر ہی اصل مجرم ہے، اس کے بارے میں اتفاق ہے کہ یہ جھوٹا تھا.
هَذَا حَدِيث مَوْضُوع لَا يشك فِيهِ. فَأَما طَرِيق ابْن عمر فالحمل فِيهِ عَلَيْهِ إِسْحَاق بن بشر، كَذَلِك قَالَ الْعقيلِيّ، وَقد اتَّفقُوا على أَنه كَانَ كذابا يضع الحَدِيث.
اور حضرت انس والی روایت کی ساری خرابی محمد بن عبداللہ انصاری کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ ثقہ راویوں سے ایسی چیزیں نقل کرتا تھا جو ان کی روایات تھیں ہی نہیں اور اس کو بطور حجت ذکر نہیں کر سکتے.
وَأما طَرِيق أنس فالحمل فِيهِ على مُحَمَّد بن عبدالله الانصاري.
ابْن حبَان: يرْوى عَن الثقات مَا لَيْسَ مِنْ حَدِيثِهِمْ، لَا يجوز الِاحْتِجَاج بِهِ.
اور یہ دونوں سند ثابت نہیں، اور نہ درجہ صحت تک پہنچتی ہیں، اور نہ اس حدیث کی کوئی اصل ہے
قَالَ: وكلا هذين الإسنادين غير ثَابت وَلَا يرجع مِنْهُمَا إِلَى صِحَة وَلَيْسَ للْحَدِيث أصل. (الضعفاء الكبير: 4/96)
الاصابة میں مزید لکھتے ہیں کہ ہامۃ بن ہیم کی خبر کو صحابہ میں ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ خبر ثابت ہی نہیں.
هامة بن الهيم بن لاقيس بن إبليس: ذكره جعفر المستغفريّ في «الصحابة»، وقال: لا يثبت إسناد خبره.
علامہ ابن اثیر رحمه اللہ اسد الغابة میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ھامہ بن ہیم کا تذکرہ کرنے سے بہتر تھا کہ ہم اس کو ذکر نہ کرتے، لیکن چونکہ متقدمین نے ان کو ذکر کیا تھا اسلئے ہم نے بھی اقتداءً ذکر کردیا تاکہ اسکا ترجمہ رہ نہ جائے.
وتركه أولى من إخراجه، وإنما أخرجناه اقتداء بهم، لئلا نترک ترجمة.
علامہ ابن القیم لکھتے ہیں کہ کچھ روایات ایسی ہوتی ہیں کہ تمام شواہد اس کے من گھڑت ہونے کو بیان کرتے ہیں، جیسے ابلیس کے پوتے کی روایت. (ابن قیمؒ فی المنار المنیف)
وَمِنْهَا: أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ مِمَّا تَقُومُ الشَّوَاهِدُ الصَّحِيحَةُ عَلَى بِطْلانِهِ، وَمِنْ هَذَا حَدِيثِ هَامَةَ بْنِ الْهَيْمِ بن لاقيس بْنِ إِبْلِيسَ الْحَدِيثُ الطَّوِيلُ وَنَحْوُهُ.
امام بیہقی کی سند سے منقول روایت کا حکم:
بعض حضرات اس روایت کی باقی سندوں کو موضوع مانتے ہیں، لیکن بیہقی کی سند کو بہتر قابل قبول سمجھتے ہیں، اور اس کی وجہ امام ذہبی کا ایک قول بھی ہے کہ بیہقی کی سند أصلح ہے.
لیکن علامہ ابن کثیر نے اس روایت کو امام بیہقی کی سند سے نقل کیا اور اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ امام بیہقی نے انتہائی غریب بلکہ منکر یا موضوع روایت نقل کی ہے، البتہ چونکہ سند کے لحاظ سے یہ عزیز روایات کے حکم میں ہے(کیونکہ یہ دو صحابہ کی طرف منسوب ہے) لہذا ہم نے اس روایت کو اپنی کتاب میں جگہ دی، اور تعجب امام بیہقی پر ہے کہ انہوں نے اس کو نقل کیا.
وَقَدْ أَوْرَدَ الْحَافِظُ أَبُوبَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ هَاهُنَا حَدِيثًا غَرِيبًا جِدًّا بَلْ مُنْكَرًا أَوْ مَوْضُوعًا، وَلَكِنَّ مَخْرَجَهُ عَزِيزٌ أَحْبَبْنَا أَنْ نُورِدَهُ كَمَا أَوْرَدَهُ، وَالْعَجَبُ مِنْهُ; فَإِنَّهُ قَالَ فِي كِتَابِهِ “دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ”: بَابُ قُدُومِ هَامَةَ بْنِ هَيْمِ بْنِ لَاقِيسَ بْنِ إِبْلِيسَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِسْلَامِهِ. (السيرة النبوية لابن كثير، ج:٤، الصفحة:١٨٥)
خلاصہ کلام
آج کے زمانے کی سب سے بڑی مصیبت ایسے خطیب اور علامہ ہیں، جو تحقیق کے بغیر من گھڑت چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے محبت کا بہترین حق یہ ہے کہ آپ کی ذات اقدس کی طرف ایسی کسی بات کو منسوب نہ کیا جائے جو جھوٹ بنے.
ایسی من گھڑت روایات کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا کسی صورت بھی درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ