کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا
سوال
محترم مفتی صاحب!
مولانا یونس پالنپوری صاحب کی ویڈیو آئی ہے جس میں انہوں کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے متعلق فرمایا کہ پورا ہاتھ اوپر سے دھونا چاہیئے، یہی سنت ہے، اور اس سے برکت ہوتی ہے، اور صرف انگلیاں دھونا سنت کے خلاف ہے، اس سے بےبرکتی ہوتی ہے…
آپ سے اسکی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے متعلق روایات منقول ہیں، لہذا علماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ ہاتھوں کا دھونا سنت غیرمؤکدہ (مستحب) ہے، لیکن اگر کوئی شخص ہاتھ نہیں دھوتا یا صرف انگلیاں دھوتا ہے، تو کیا یہ سنت کے خلاف اور بےبرکتی کا باعث ہے؟
سب سے پہلے ان تمام روایات پر نظر ڈالتے ہیں جن میں کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے کا ذکر ہے.
١. پہلی روایت:
گھر کی خیر وبرکت کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کا دھونا:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا کہ کھانے میں برکت کھانے سے پہلے وضو کرنے میں ہے، میں نے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے تذکرہ کیا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ کھانے کی برکت کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرنا ہے.
حديث سلمان الفارسي رضي الله عنه قال: قرأت في التوراة أن بركة الطعام الوضوء قبله، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: “بركة الطعام الوضوء قبله والوضوء بعده”. (ضعیف)
٢. دوسری روایت:
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: جو یہ چاہتا ہے کہ اس کے گھر میں خیر وبرکت زیادہ ہو، تو وہ کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرے.
حديث أنس بن مالك رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: “من أحب أن يكثر الله خير بيته فليتوضأ إذا حضر غداؤه وإذا رفع”. (ضعيف)
ان روایات میں وضو سے مراد ہاتھ کا دھونا ہے.
ملا علی قاری رحمه الله لکھتے ہیں کہ وضو سے مراد ان روایات میں ہاتھوں اور منہ (چکناہٹ سے) دھونا ہے.
اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ کھانے کے بعد ہاتھ دھونا اس وقت مستحب ہے جب کھانے میں چکناہٹ ہو، اور ہاتھوں میں چکناہٹ لگ جائے.
وقال القاري في “مرقاة المفاتيح” (7/2713): الْوُضُوءُ: أَيْ غَسْلُ الْيَدَيْنِ وَالْفَمِ مِنَ الزُّهُومَةِ، إِطْلَاقًا لِلْكُلِّ عَلَى الْجُزْءِ، مَجَازًا، أَوْ بِنَاءً عَلَى الْمَعْنَى اللُّغَوِيِّ وَالْعُرْفِيِّ….
وَقَالَ بَعْضُ عُلَمَائِنَا مِنَ الشُّرَّاحِ: الْإِتْيَانُ بِالْوُضُوءِ عِنْدَ التَّنَاوُلِ وَالْفَرَاغِ إِنَّمَا يُسْتَحَبُّ فِي طَعَامٍ تَتَلَوَّثُ عَنْهُ الْيَدُ، وَيَتَوَلَّدُ مِنْهُ الْوَضَرُ.
٣. تیسری روایت:
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی صرف ہاتھ دھوئے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام جب حالت جنابت میں سونا چاہتے تو وضو کر لیتے تھے، اور اگر حالت جنابت میں کچھ کھانا پینا چاہتے تو ہاتھوں کو دھو لیتے تھے.
وفي للنسائي (257): أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: “كَانَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ وَهُوَ جُنُبٌ تَوَضَّأَ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ أَوْ يَشْرَبَ قَالَتْ: غَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ يَأْكُلُ أَوْ يَشْرَبُ”.
٤. چوتھی روایت:
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کھانے سے پہلے بلکل ہاتھ نہیں دھوئے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام بیت الخلاء سے باہر تشریف لائے، آپ کے سامنے کھانا لایا گیا، آپ نے کھانا کھایا اور پانی کو چھوا تک نہیں.
أنه سمع ابن عباس رضی اللہ عنهما يقول: إن النبي صلى الله عليه وسلم قضى حاجته من الخلاء فقرب إليه طعام فأكل ولم يمس ماء.
٥. پانچویں روایت:
امام نسائی نے باقاعدہ کھانے سے قبل ہاتھ نہ دھونے پر باب قائم کیا:
النسائي في كتابه الكبير: باب ترك غسل اليدين قبل الطعام.
عن ابن جريج عن سعيد بن الحويرث عن ابن عباس رضی اللہ عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم تبرز ثم خرج، فطعم ولم يمس ماء. (إسناده صحيح)
٦. چھٹی روایت:
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کھانے کے بعد صرف انگلیاں دھوئیں.
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک ہنڈیا میں گوشت پکایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے اس کی دستی نکال کر دو”، چنانچہ میں نے نکال دی، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری دستی طلب فرمائی، میں نے وہ بھی دے دی، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دستی طلب فرمائی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ایک بکری کی دو ہی دستیاں ہوتی ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اگر تم خاموش رہتے تو اس ہنڈیا سے اس وقت تک دستیاں نکلتی رہتیں جب تک میں تم سے مانگتا رہتا”، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر کلی کی، انگلیوں کے پورے دھوئے اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، پھر دوبارہ ان کے پاس تشریف لائے تو کچھ ٹھنڈا گوشت پڑا ہوا پایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی تناول فرمایا اور مسجد میں داخل ہو کر پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز پڑھ لی.
عن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اهديت له شاة، فجعلها في القدر، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: “ما هذا يا ابا رافع؟” فقال: شاة اهديت لنا يا رسول الله، فطبختها في القدر، فقال: “ناولني الذراع يا ابا رافع”، فناولته الذراع، ثم قال: “ناولني الذراع الآخر”، فناولته الذراع الآخر، ثم قال: “ناولني الذراع الآخر”، فقال: يارسول الله! إنما للشاة ذراعان، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: “اما إنك لو سكت، لناولتني ذراعا فذراعا ما سكت”، ثم دعا بماء فمضمض فاه، وغسل اطراف اصابعه، ثم قام فصلى، ثم عاد إليهم، فوجد عندهم لحما باردا، فاكل، ثم دخل المسجد، فصلى، ولم يمس ماء.
٧. ساتویں روایت:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کھانے کے بعد ہاتھ نہیں دھوئے:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گوشت کھایا اور بغیر ہاتھ دھوئے نماز پڑھائی، ایک روایت میں ہے کہ ہاتھ کو کسی کپڑے سے پونچھا.
عبدالرزاق عن ابن جريج قال: أخبرني عطاء أنه سمع جابر بن عبدالله يقول: أكل أبوبكر الصديق رضي الله عنه كتف لحم أو ذراع ثم قام فصلى لنا ولم يتوضأ، قال عطاء: وحسبت أن جابرا قال: ولم يمضمض ولم يغسل يده قال: حسبت أنه قال: مسح يده.
٨. آٹھویں روایت:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کھانے کے بعد انگلیاں دھوئیں:
ہم ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، ان کے گھر سے کھانا آیا، ہم راستے میں ہی کھانے لگ گئے، کھانے کے بعد انہوں نے انگلیوں کے سرے دھوئے اور کلی کی.
عبدالرزاق عن معمر عن حماد عن إبراهيم عن علقمة قال: أتينا بجفنة ونحن مع ابن مسعود فأمر بها فوضعت في الطريق، فأكل منها وأكلنا معه، وجعل يدعو من مر به، ثم مضينا إلى الصلاة فما زاد على أن غسل أطراف أصابعه، ومضمض فاه، ثم صلى.
٩. نویں روایت:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھانے کے بعد ہاتھ نہیں دھوئے:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بڑے پیالے میں کھانا کھایا اور پھر ہاتھ نہیں دھوئے.
عبدالرزاق عن معمر عن ابن المنكدر قال: سمعته يحدث عن جابر أنه كان أكل عمر من جفنة ثم قام فصلى ولم يتوضأ.
١٠- دسویں روایت:
ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی کھانے کے بعد صرف ہاتھ دھوتے اور کلی کرتے.
ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آتے، مغرب کے وقت کھانا لایا جاتا، ہم کھانا کھاتے، اور وہ فقط اپنی ہتھیلی دھوتے اور کلی کرتے.
عبدالرزاق عن ابن جريج قال: أخبرني عبدالله أبي يزيد أنه قال: كنا نأتي ابن عباس أحيانا فقرب عشاءه عند غروب الشمس، فيتعشى ونتعشى، ولا يزيد على أن يغسل كفيه، ويمضمض، ولا يتوضأ ثم يصلي.
کیا صرف ایک ہاتھ یا صرف انگلیاں دھونا منع ہے؟
فتاوی عالمگیریہ میں بعض فقہاء کا قول منقول ہے کہ کھانے سے پہلے ایک ہاتھ یا انگلیوں کو دھونا خلافِ سنت ہے، کیونکہ دونوں ہاتھوں کے دھونے کا حکم ہے اور ہاتھ کلائی تک ہوتا ہے.
وفی الھندیة:
قال نجم الائمة البخاری وغیرہ: غسل الید الواحدة او اصابع الیدین لا یکفی لسنة غسل الیدین قبل الطعام لأن المذکور غسل الیدین وذلك الی الرسغ. کذا فی القنیة. (ج: ٣ص: ٣٣٧، الباب الحادی عشر فی الکراھیة فی الأکل وما یتصل به)
خلاصہ کلام
روایات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھویا بھی جا سکتا ہے، ہاتھوں کو بلکل نہ دھونا بھی درست ہے، اور جس قدر ہاتھ اور انگلیوں پر چکناہٹ لگ گئی ہے اسی قدر ہاتھ اور انگلیاں دھو کر کلی بھی کی جا سکتی ہے.
مولانا یونس پالنپوری صاحب کا کلائی سے نیچے ہاتھ یا انگلیوں کے دھونے کو خلاف سنت اور بےبرکتی کا سبب قرار دینا بلا دلیل ہے، ایسا کہنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٠ فرورى ٢٠٢٣ کراچی