روحوں کا اپنے گھر آنا
سوال
ایک پوسٹ بہت زیادہ وائرل ہو رہی ہے کہ روحیں پانچ راتوں میں اپنے گھر آتی ہیں اور اپنے گھر والوں سے ایصالِ ثواب کا مطالبہ کرتی ہیں…
کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ کسی بھی صحیح یا ضعیف روایت میں روحوں کا اپنے گھر آنے کا تذکرہ موجود نہیں.
بعض روایات اگرچہ بعض کتابوں میں ضرور منقول ہیں لیکن ان روایات کی اسنادی حیثیت بہت کمزور ہے.
١. پہلی روایت:
خزانة الروایات مستند صاحب مائۃ مسائل میں ہے:
حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ جب عید یا جمعہ یا عاشورہ کا دن یا شب برات ہوتی ہے تو اموات کی روحیں آکر اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑی ہو کر کہتی ہیں: ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے، ہے کوئی کہ ہم پر ترس کھائے، ہے کوئی جو ہماری تنہائی کو یاد کرے. (خزانة الروایات)
عن ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنهما: اذا کان یوم عید أو یوم جمعة أو یوم عاشوراء أو لیلة النصف من الشعبان تأتی أرواح الأموات ویقومون علی أبواب بیوتهم فیقولون: ھل من أحد یذکرنا، ھل من أحد یترحم علینا، ھل من أحد یذکر غربتنا…..
اس کی کوئی سند نہیں.
٢. دوسری روایت:
ابن عباس رضي الله عنهما: إذا كان يوم العيد ويوم عاشوراء ويوم الجمعة الأولى من رجب وليلة النصف من شعبان وليلة القدر وليلة الجمعة تخرج أرواح الأموات من قبورهم ويقفون على أبواب بيوتهم ويقولون: ارحموا علينا في هذه الليلة المباركة، هل من أحد يترحم علينا، هل من أحد يذكر غربتنا، يا مَن سكن دارنا ويا مَن نكح نساءنا ويا مَن أقام في واسع قصورنا ونحن الآن في ضيق قبور، ويا من قسم أموالنا ويا من استدل أيتامنا! هل منكم أحد يذكر غربتنا وصحفنا مطوية وكتابكم منشور، وليس للميت في اللحد ثواب فلا تنسونا بكسرة من خيركم ودعائكم فإنا محتاجون إليكم أبدا، فإذا وجد الميت من الصدقة والدعاء منهم رجع فرحا مسرورا، وإن لم يجد رجع محزونا ومحروما وأيسا منهم…إلخ (حاشية البجيرمي على الخطيب، ج: ٢، ص: ٣٠١)
حاشیة البجیرمی علی الخطیب میں روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عید کا دن ہوتا ہے، اور عاشوراء کا دن، اور رجب کا پہلا جمعہ اور پندرہ شعبان کی رات اور لیلة القدر اور شب جمعہ، تو روحیں اپنی قبروں سے نکلتی ہیں اور گھروں کے دروازے پر کھڑی ہوتی ہیں، اور کہتی ہیں کہ ہم پر اس مبارک رات میں رحم کرو، ہے کوئی جو ہم پر رحم کرے، ہے کوئی جو ہماری تنہائی کو یاد کرے، اے وہ لوگوں جو ہمارے گھروں میں رہنے لگے ہو، جنہوں نے ہماری بیویوں سے نکاح کر لیا، ہم قبر کی تنگیوں میں ہیں….الی آخرہ
اس کی کوئی سند نہیں.
٣. تیسری روایت:
اس روایت میں بھی اس بات کا تذکرہ ہے کہ روحیں ہر جمعہ کو پہلے آسمان پر آتی ہیں اور اپنے گھر والوں کو پکارتی ہیں اور ان سے رحم کی بھیک مانگتی ہیں…. الی آخرہ
أخبرنا أبو عبدالرحمن محمد بن الحسين بن موسى السلمي كتابةً قال: ثنا أبو القاسم عبدالله بن محمد النيسابوري عن علي بن موسى البصري، عن ابن جريج، عن موسى بن وردان، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “اهدوا لموتاكم”، قلنا: وما نهدي يا رسول الله الموتى؟ قال: “الصدقة والدعاء” ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إن أرواح المؤمنين يأتون كل جمعة إلى سماء الدنيا فيقفون بحذاء دُوَرِهم وبيوتهم فينادي كل واحد منهم بصوت حزين: يا أهلي وولدي وأهل بيتي وقراباتي! اعطفوا علينا بشيء، رحمكم الله، واذكرونا ولا تنسونا، وارحموا غربتنا، وقلة حيلتنا، وما نحن فيه، فإنا قد بقينا في سحيق وثيق، وغم طويل، ووهن شديد، فارحمونا رحمكم الله، ولا تبخلوا علينا بدعاء أو صدقة أو تسبيح، لعل الله يرحمنا قبل أن تكونوا أمثالنا، فيا حسرتاه وانداماه يا عباد الله! اسمعوا كلامنا، ولا تنسونا، فأنتم تعلمون أن هذه الفضول التي في أيديكم كانت في أيدينا، وكنا لم ننفق في طاعة الله، ومنعناها عن الحق فصار وبالاً علينا ومنفعته لغيرنا، والحساب والعقاب علينا”، قال: “فينادي كل واحد منهم ألف مرةٍ من الرجال والنساء، اعطفوا علينا بدرهم أو رغيف أو كسرة” قال: فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم وبكينا معه، فلم نستطع أن نتكلم ثم قال: “أولئك إخوانكم كانوا في نعيم الدنيا، فصاروا رميماً بعد النعيم والسرور”، قال: ثم يبكون وينادون بالويل والثبور والنفير على أنفسهم يقولون: يا ويلتنا لو أنفقنا ما كان في أيدينا ما احتجنا، فيرجعون بحسرة وندامة، فينادون: ما أسرع ما تبكون أنتم على أنفسكم ثم لم ينفعكم فبادروا قبل أن تلحقوا بنا، فتكونوا أمثالنا، وقد نصحنا لكم، مهلاً مهلاً ثم ينادون بأجمعهم: إن كنا أيسنا من أهالينا فإن الرحمن يذكرنا، هو يرحمنا…. (کتاب هدية الأحياء للأموات وما يصل إليهم من النفع والثواب علی ممر الأوقات)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف منسوب کئی کتابوں میں بلاسند منقول ہے، البتہ مذکورہ بالا کتاب میں یہ باقاعدہ سند سے نقل کی گئی ہے.
اس کتاب کے مصنف علي بن أحمد بن يوسف الهكاري أبي الحسن ہیں.
ان کے متعلق محدثین کی رائے:
١. ابن النجار نے ذیل تاریخ بغداد میں لکھا ہے کہ ان کی روایات میں غالب منکر اور عجیب وغریب روایات تھیں، ان کی روایات اہلِ علم کی روایات کی طرح نہیں تھیں، ان کی روایات میں من گھڑت متون کو صحیح اسناد کے ساتھ جوڑا جاتا تھا.
وكان الغالب على حديثه الغرائب والمنكرات، ولم يكن حديثه يشبه حديث أهل الصدق، وفي حديثه متون موضوعة مركبة عَلَى أسانيد صحيحة. (ابن النجار)
٢. امام ذہبی لکھتے ہیں کہ میں نے بعض اہل اصبہان کا قول پڑھا کہ یہ اصبہان میں روایات گھڑتا تھا.
وقد رأيت بخط بعض أصحاب الحديث بأصبهان أنه كان يضع الأحاديث [بأصبهان] قدم بَغْدَاد وَحدث بها.
٣. ابن عساکر کہتے ہیں کہ یہ روایات میں مضبوط شخص نہ تھا.
وقال ابن عساكر: لم يكن موثقا في روايته. (سير أعلام النبلاء: لسان الميزان، ابن حجر، ج: ٤، الصفحة: ١٩٥)
٤. چوتھی روایت:
ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا فوت ہونے کے بعد والدین کی روحیں گھر لوٹتی ہیں؟ حضرت علی نے جواب دیا: اے سلمان! جب والدین فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی روحیں اپنی اولاد کے پاس گھروں کو لوٹتی ہیں اور ان سے فریاد کرتی ہیں، آہ و بکا کرتی ہیں اور یہ سوال کرتی ہیں کہ صدقات اور نیک اعمال کے ذریعے سے ان پر مہربانی کرو، وہ اولاد سے اپنے لئے دعاؤں کا سوال کرتی ہیں۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: روحیں کب کب اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں؟ فرمایا: یہ شب جمعہ کو اپنے اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں اور اپنوں کو پکارتی ہیں جس کو لوگ نہیں سن سکتے، پھر یہ روحیں مایوس ہو کر لوٹ جاتی ہیں، سوائے ان کے جن کی اولاد نیکوکار اور والدین کے لئے صدقات اور ایصال و ثواب کرتی رہتی ہیں. پھر فرمایا: اے سلمان! یاد رکھنا اپنے مرحوم والدین کے لئے دعا کرتے رہنا، جب کوئی اپنے مرحوم والدین کے لئے دعا کرتا ہے تو یہ روحیں اللہ تعالی سے فریاد کرتی ہیں: یا اللہ! جس طرح ہماری اولاد نے ہمارے اوپر احسان کیا ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھا تو بھی ان پر رحم فرما اور دنیاوی پریشانیوں تکلیفوں اور بیماریوں کو ان سے دور فرما.
یہ روایت بھی کسی مستند کتاب میں نہیں مل سکی.
خلاصہ کلام
البتہ مؤمنین کی ارواح کا آپس میں ملنا اور مل کر خوش ہونا روایات سے ضرور ثابت ہے.
سوال میں ذکر کردہ پوسٹ درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١١ فرورى ٢٠٢٣ کراچی