اعمال کا ثواب مُردوں کو پہنچتا ہے
سوال
علامہ عینی نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں یہ ہے کہ اعمال کا ثواب ہدیے کے طور پر مُردوں کو پہنچتا ہے…
کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ اعمال کی مختلف اقسام مثلا: دعا، صدقہ، حج و عمرہ کے ثواب کا مُردوں کو پہنچنے کے متعلق صحیح روایات منقول ہیں، البتہ بدنی عبادات مثلا: تلاوت، ذکر، نماز وغیرہ کا ثواب پہنچنے کے متعلق کچھ مختلف اقوال موجود ہیں، لیکن ہمارے نزدیک راجح قول یہی ہے کہ امید کی جاتی ہے کہ اس كا ثواب بھی اموات کو پہنچےگا.
سوال میں مذکور روایت عمدۃ القاری میں علامہ عینی نے بغیر سند کے نقل کی ہے.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ہم اپنے فوت ہونے والوں کے لئے صدقہ کریں، حج کریں اور ان کے لئے دعا کریں تو کیا ان سب چیزوں کا ثواب ان کو پہنچےگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور وہ اِس سے اِس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی کسی کو طشتری تحفے میں دے تو وہ خوش ہوتا ہے.
وفي كتاب القاضي ابي الحسين بن الْفراء عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّهُ سَأَلَ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ! إِذَا نَتَصَدَّقُ عَنْ مَوْتَانَا وَنَحُجُّ عَنْهُمْ وَنَدْعُوْ لَهُمْ فَهَلْ يَصِلُ ذَلِك إِلَيْهِمْ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَيَفْرَحُوْنَ بِهِ کَمَا يَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالطَّبَقِ إِذَا أُهْدِيَ إِلَيْهِ. (رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ)
(أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3/119).
والحَدِيثُ في حَاشِيَةِ ابْنِ عَابِدِينَ، وَفي حَاشِيَةِ الطَّحْطَاوِيِّ عَلَى مَرَاقِي الفَلَاحِ، وَفي كِتَابِ تَبْيِينِ الحَقَائِقِ شَرْحِ كَنْزِ الدَّقَائِقِ، وَفي كِتَابِ اللُّبَابِ.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت مکمل سند کے ساتھ ابن ماکولا نے اپنی کتاب الاکمال میں نقل کی ہے. (اس کے علاوہ کہیں بھی سند کے ساتھ ہمیں نہ مل سکی)
ابن ماكولا رحمه الله (المتوفى:475)
اخبرنا الحسن بن ابي بكر وعثمان بن محمد بن يوسف قالا: انا ابوبكر الشافعي ثنا الحسن بن سعيد الموصلي ثنا ابراهيم بن حبان ابن النجار ثنا حبان يعني أباه عن ابيه النجار عن جده أنس بن مالك قال: سألت رسول الله صلی اللہ علیه وسلم فقلت: بأبي وأمي يا رسول الله! انا لندعو لموتانا ونصدق ونحج عنهم فهل يصل ذلك إليهم؟ فقال: إنه ليصل اليهم ويفرحون به كما يفرح احدكم يصل بالطبق اذا اهدي اليه. [الإكمال لابن ماكولا: 2/313]
اس سند میں ایک راوی ابراهيم بن حبان بن النجار انتہائی کمزور راوی ہے، ائمہ محدثین کے اقوال اس کے بارے میں انتہائی سخت ہیں.
لسان المیزان میں اس کے متعلق ائمہ حدیث کے اقوال:
إبراهيم بن البراء بن النضر بن أنس بن مالک.
١. ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ باطل روایات نقل کرتا ہے، انتہائی کمزور راوی ہے، اس کی روایات سب منکر ہیں، من گھڑت ہیں.
قال ابن عَدِيٍ: حدث بالبواطيل، وهو ضعيف جدا وأحاديثه كلها مناكير موضوعة، ومن اعتبر حديثه علم أنه ضعيف جدا متروك الحديث.
٢. عقیلی نے اس کی سند سے ایک منکر روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ثقہ راویوں سے باطل روایات نقل کرتا ہے.
وقال العقيلي: حَدَّثَنا بكر بن سهل، حَدَّثَنا إبراهيم بن البراء بن النضر، حَدَّثَنا شعبة، عن الحكم فذكر حديثا منكرا ثم قال العقيلي: يحدث عن الثقات بالبواطيل.
وممن روى عنه: سلم بن عبدالصمد وروى له ابن عَدِي ثلاثة أحاديث باطلة.
٣. ابن حبان کہتے ہیں کہ ابراہیم حضرت انس کے پڑپوتے تھے، اور یہ شام میں گھومتا پھرتا تھا، اور ثقہ راویوں سے من گھڑت روایات نقل کرتا تھا.
وقال ابن حبان: إبراهيم بن البراء من ولد النضر بن أنس، شيخ كان يدور بالشام ويحدث عن الثقات بالموضوعات، لا يجوز ذكره إلا على سبيل القدح فيه. (لسان المیزان)
خلاصہ کلام
ایسی تمام روایات جن میں زندوں کے اعمال کا بطور کھانے یا طبق یا تحفے کے مردوں کے سامنے پیش ہونے کا تذکرہ موجود ہے، وہ تمام روایات سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس طرح کے فضائل کو بیان کرنے اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف منسوب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٤ مارچ ٢٠٢٣ کراچی