درود شریف کا پھل
سوال
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق مطلوب ہے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے جنت میں ایک درخت پیدا فرمایا ہے جس کا پھل سیب سے بڑا، انار سے چھوٹا، مکھن سے نرم، شہد سے بھی میٹھا اور مُشک سے زیادہ خوشبودار ہے، اسکی شاخیں تَر موتیوں کی، تنے سونے کے اور پتے زبرجد کے ہیں، اس درخت کا پھل صرف وہی کھا سکےگا جو سرورِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درودپاک پڑھےگا.
کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
درودشریف کا افضل اور اعلی ذکر ہونے میں ذرہ برابر شبہ نہیں، بلکہ یہ دنیاوی اور اخروی دونوں مشاکل کے حل کا واحد ذریعہ ہے، البتہ ایسے فضائل جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے ثابت نہ ہوں ان کا ذکر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
سوال میں مذکور روایت بغیر سند امام سیوطی نے الحاوی میں، صفوری نے نزهة المجالس میں اور علامہ سخاوی نے القول البدیع میں نقل کی ہے.
ذكر السيوطي رحمه الله في “الحاوي” (2/48): عن عليّ رضي الله عنه قال: خَلَقَ الله تَعَالَى فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً ثَمَرُهَا أَكْبَرُ مِنَ التُّفَّاحِ، وَأَصْغَرُ مِنَ الرُّمَّانِ، أَلْيَنُ مِنَ الزُّبْدِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَأَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، وَأَغْصَانُهَا مِنَ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ، وَجُذُوعُهَا مِنَ الذَّهَبِ، وَوَرَقُهَا مِنَ الزَّبَرْجَدِ لَا يَأْكُلُ مِنْهَا إِلَّا مَنْ أَكْثَرَ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس روایت کی کوئی سند منقول نہیں، اور ان حضرات سے قبل کسی کتاب میں منقول بھی نہیں.
اس مفہوم کی ایک اور روایت:
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جس نے ایک دن نفلی روزہ رکھا اس کیلئے جنت میں ایک درخت لگایا جاتا ہے، جس کا پھل انار سے چھوٹا، سیب سے بڑا ہوتا ہے، اس کی مٹھاس شہد کی طرح ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن روزہ دار کو کھلائیں گے.
روى الطبراني في “المعجم الكبير” (935) عَنْ قَيْسِ بْنِ زَيْدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ صَامَ يَوْمًا تَطَوُّعًا غُرِسَتْ لَهُ شَجَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ، ثَمَرُهَا أَصْغَرُ مِنَ الرُّمَّانِ، وَأَضْخَمُ مِنَ التُّفَّاحِ وَعُذُوبَتُهُ كَعُذُوبَةِ الشَّهْدِ، وَحَلَاوَتُهُ كَحَلَاوَةِ الْعَسَلِ، يُطْعِمُ اللهُ الصَّائِمَ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں جریر بن ایوب البجلی الکوفی ہے،
اس کے متعلق ائمہ محدثین کے اقوال کافی سخت ہیں:
١. ابن معین کہتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں.
قال ابن معين: ليس بشيء.
٢. ابونعیم کہتے ہیں کہ یہ روایات گھڑتا تھا.
وقال أبو نعيم: كان يضع الحديث.
٣. امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.
وقال البخاري: منكر الحديث.
٤. امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
وقال النسائي: متروك. (ميزان الاعتدال:1/391)
(الكامل، عبدالله بن عدي، ج: ٢، الصفحة:١٢٣)
اس کے علاوہ بھی اس سند میں کافی سقم ہے.
خلاصہ کلام
درودشریف کے صحیح اور مستند فضائل الحمدللہ محفوظ بھی ہیں، اور تمام مستند کتابوں میں سند کے ساتھ منقول بھی ہیں.
لہذا بےسند فضائل کو ذکر کرنا اور ان کو پھیلانا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٠ مارچ ٢٠٢٣ کراچی