تنبیہ نمبر 384

اعمالنامہ سب سے پہلے حضرت عمر کو دیا جانا

سوال
محترم مفتی صاحب!
ایک ویڈیو ہے جس میں مولانا ساجد نقشبندی صاحب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں ایک روایت بیان کر رہے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیا جائےگا…
       اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے؟  

الجواب باسمه تعالی


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائےگا یہ روایت مختلف کتابوں اور تفاسیر میں منقول ہے، جیسے علامہ قرطبی، ثعلبی، ابن عساکر، خطیب بغدادی اور ابن جوزی رحمهم اللہ نے اسکو نقل کیا ہے.

اس روایت کی سند اور عبارت کچھ یوں ہے
رواه الثعلبي في “تفسيره” (2358)، وابن عساكر في “تاريخه” (30/154)، والخطيب في “تاريخه” (11/202)، وابن الجوزي في “الموضوعات” (1/320) من طريق عمر بن إبراهيم بن خالد حدّثنا مرحوم بن أرطبان ابن عم عبدالله بن عون قال  حدّثنا عاصم الأحول عن زيد بن ثابت قال  قال رسول الله صلى الله عليه وسلم  “أوّل مَنْ يُعطى كتابه بيمينه من هذه الأمّة عمر بن الخطّاب، وله شعاع كشعاع الشمس، فقيل له  فأين أبوبكر؟ قال  هيهات هيهات زفّته الملائكة إلى الجنّة”.
   اس روایت کی اسنادی حیثیت  

علامہ ابن جوزی نے موضوعات میں اس روایت کو نقل کر کے اس کو غیرصحیح قرار دیا، کیونکہ اس کہ سند میں ایک راوی ہے  عمر بن ابراہیم بن خالد  جو کہ ایک جھوٹا راوی ہے

اس راوی کے متعلق محدثین کرام کے اقوال

 ١. دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ عمر جھوٹا تھا، روایات گھڑتا تھا.

  قال الدارقطني  كان كذابا يضع الحديث.

 ٢. شوکانی نے بھی دارقطنی کا قول نقل کر کے اس عمر کی بنیاد پر روایت کو غیرصحیح قرار دیا.

□ قال الشوكاني في “الفوائد المجموعة” (ص  336) والمتهم به عمر بن إبراهيم بن خالد الكردي.
وعمر هذا.. قال الدارقطني  كذاب خبيث.

 ٣. خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ عمر ثقہ نہیں، ایک اور جگہ فرمایا کہ یہ ثقہ راویوں سے منکر روایات نقل کرتا ہے.

  وقال الخطيب  غير ثقة. وقال أيضا  يروي المناكير عن الإثبات. (لسان الميزان  4/280)

 ٤ علامہ صغانی نے بھی الدرر الملتقط فی تبیین الغلط میں بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے

« فمن الموضوعات ماروي (إنّ أوّل من يعطي كتابه بيمينه عمر بن الخطاب، وله شعاع كشعاع الشمس، قيل  فأين أبو بكر؟ قال  سرقته الملائكة)»
 الدر الملتقط في تبيين الغلط للصغاني مخطوط في دار الكتب المصرية تحت رقم 1580، 
 اس روایت کے دیگر الفاظ

من اول مـــن ياخذ كتابـــــــه بيمينه يوم القيامــــــــــــه –

(((أن أول من يأخذ كتابه بيمينه يوم القيامة عمر بن الخطاب تعجب الصحابة وقالوا وأين أبو بكر يا رسول الله؟ فقال صلى الله عليه وسلم  إن أبا بكر ليس له كتاب وأنه سيدخل الجنة بغير حساب لأنه أعطى الله تعالى بلا حساب .)))

 یہ روایت بلاسند منقول ہے

 اسلام قیامت کے دن خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا شکریہ ادا کرے گا

أول من يعطى كتابه بيمينه يوم القيامة  
عن عمران بن حصين قال  سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول  إذا كان يوم القيامة و حشر الناس جاء عمر بن الخطاب حتى يقف في الموقف فيأتيه شيء أشبه به فيقول  جزاك الله عني يا عمر خيرا، فيقول له  من أنت؟ فيقول  أنا الإسلام جزاك الله يا عمر خيرا ثم ينادي مناد ألا لا يدفعن لأحد كتاب حتى يدفع لعمر بن الخطاب، ثم يعطي كتابه بيمينه و يؤمر به إلى الجنة، فبكى عمر و أعتق جميع ما يملكه و هم تسعة. .

 اس کی بھی کوئی سند باوجود تلاش کے نا مل سکی

 مولانا ساجد نقشبندی صاحب نے حاشیۃ السباعی علی شرح الدردیر الخریدہ البھیہ فی العقائد السنیۃ کا حوالہ دیا ہے، وہاں بھی یہ روایت بلاسند ہی منقول ہے

   ابوسلمہ کو سب سے پہلے نامہ اعمال دیئے جانے والی روایت  

ابن ابی عاصم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ سب سے پہلے نامہ اعمال داہنے میں ابوسلمہ بن اسد کو دیا جائےگا، جبکہ بائیں ہاتھ میں سب سے پہلے سفیان بن عبدالأسد کو دیا جائےگا.

□ وقد روى ابن أبي عاصم في “كتاب الأوائل” (82) من طريق حَبِيب بْن زُرَيْقٍ، ثنا ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمِّهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَن ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ  “أَوَّلُ مَنْ يُعْطَى كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالْأَسَدِ”.

 یہی روایت  سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (ت ٣٦٠هـ) نے اپنی کتاب الأوائل للطبراني میں بھی نقل کی ہے اور اس پر کلام بھی نقل کیا ہے کہ راوی حبیب بن زریق پر ابوحاتم اور ابن عدی نے کلام کیا ہے  

 باب أول من يعطي كتابه بيمينه، وأول من يعطي بشماله.
82 – حدثنا أحمد بن داود المكي، حدثنا حبيب بن زريق كاتب مالك حدثنا محمد بن عبد الله أخي الزهري، عن الزهري، عن القاسم بن محمد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال
«أول من يعطى كتابه بيمينه  أبو سلمة بن عبد الأسد، وأول من يعطي كتابه بشماله  أخوه أبو سفيان بن عبد الأسد».
  الإسناد  فيه حبيب بن رزيق كاتب مالك رماه أبو حاتم وابن عدي بالوضع
كتاب الأوائل – الطبراني – الصفحة ١١٢
   اس روایت کی اسنادی حیثیت  

یہ روایت بھی سند کے لحاظ سے درست نہیں، کیونکہ اس کی سند میں  حبیب بن زریق  جھوٹا راوی ہے.

اس راوی کے متعلق محدثین کرام کے اقوال

 ١. أبوحاتم کہتے ہیں کہ اس نے زہری کے بھتیجے سے من گھڑت روایات نقل کی ہیں.

  قال أبوحاتم  روى عن ابن أخي الزهري أحاديث موضوعة.

 ٢. ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ سب سے جھوٹا شخص تھا.

  وقال أبوداود  كان من أكذب الناس.

 ٣. ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی سب روایات من گھڑت ہیں.

  وقال ابن عدى  أحاديثه كلها موضوعة. (ميزان الاعتدال 1/452).

 ابن حبان کہتے ہیں کہ ثقہ راویوں سے ایسی روایات نقل کرتا تھا جو ان کی نہیں ہوتی، اور ثقہ راویوں سے من گھڑت روایات نقل کرتا تھا

خلاصہ کلام

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل کے متعلق اس قدر صحیح روایات کی موجودگی میں اس طرح کی انتہائی کمزور اور من گھڑت روایات کا سہارا لینا انتہائی نامناسب عمل ہے.

علمائے کرام کو احادیث کے بیان کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیئے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٨ جولائی ٢٠٢٣ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں