تھر میں صحابی کی قبر
سوال
محترم مفتی صاحب!
ایک ویڈیو موصول ہوئی ہے جس میں ایک صاحب یہ بتا رہے ہیں کہ وہ تھر کے علاقے میں ہیں، اس جگہ کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہاں پر ایک صحابی کی قبر ہے، پھر ایک صاحبِ کشف بزرگ کو لایا گیا جنہوں نے صحابی کا نام بتایا کہ یہ حضرت طلحہ بن جابر رضی اللہ عنہ کی قبر ہے…
اس میں بتائی گئی تمام باتوں کی تحقیق مطلوب ہے کہ کیا واقعی تھر کے علاقے میں موجود قبر ان ہی صحابی کی ہے، نیز کشف وغیرہ کے ذریعے صاحبِ قبر کا نام معلوم ہو جانا وغیرہ امور کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟
الجواب باسمه تعالی
آپ کے سوال میں چند امور قابل غور ہیں:
١. کیا طلحہ بن جابر نام کے کوئی صحابی موجود تھے؟
٢. کیا ان صحابی کا تھر (سندھ) آنا ثابت ہے؟
٣. کیا کشف کے ذریعے قبور کا تعین اسلامی نقطہ نظر سے درست ہے؟
١. پہلی بات:
طلحہ بن جابر نام کا کوئی صحابی تاریخ میں موجود نہیں.
علامہ ابن أثیر رحمه اللہ کی کتاب “أسد الغابة” میں طلحہ نامی تقریباً ١٩ حضرات کے نام ذکر کئے گئے ہیں، (جن میں سے بعض کا تو صحابی ہونا یقینی ہے اور بعض ایسے ہیں جن کے صحابی یا تابعی ہونے کے بارے میں اقوال مختلف ہیں)، لیکن طلحہ بن جابر نام کا کوئی صحابی ان میں موجود نہیں.
علامہ ابن حجر العسقلاني رحمه اللہ کی كتاب “الإصابة في تمييز الصحابة” میں مندرجہ ذیل 22 نام مذکور ہیں، لیکن ان میں بھی طلحہ بن جابر کوئی صحابی نہیں.
٤٢٧٨- طلحة بن أبي حدرد: الأسلميّ، واسم أبي حدرد سلامة.
قال ابن السّكن: حديثه في أهل المدينة، يقال له صحبة.
٤٢٧٩- طلحة بن خراش: بن الصمّة.
٤٢٨٠- طلحة بن داود: غير منسوب.
ذكره الطبرانيّ وأبو نعيم في «الصحابة». وقال سعيد بن يعقوب: ليس له صحبة.
٤٢٨١- طلحة بن ركانة: بن عبد يزيد بن هاشم بن المطلب بن عبد مناف القرشيّ المطلبيّ.
٤٢٨٢- طلحة بن زيد الأنصاريّ: ذكره أبو عمر، فقال: آخى النبيّ صلى الله عليه وسلم بينه وبين الأرقم، قال: وأظنّه أخا خارجة بن زيد بن أبي زهير.
٤٢٨٣- طلحة بن سعيد: بن عمرو بن مرة الجهنيّ.
قال ابن الكلبيّ: له صحبة، واستدركه ابن الأثير.
قلت: لم أر لأبيه سعيد ذكرا في الصحابة، فيحتمل أن يكون مات صغيرا، وجدّه عمرو صحابيّ مشهور.
٤٢٨٤- طلحة بن عبدالله الليثي: ذكره ابن حبّان في «الصحابة»، فقال: يقال له صحبة. وقال الدّوري عن ابن معين: طلحة بن عبدالله النّضري: يقولون له صحبة.
٤٢٨٥- طلحة بن عبيد الله: بن عثمان بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة ابن كعب بن لؤيّ بن غالب القرشيّ التيميّ، أبو محمد، أحد العشرة، وأحد الثمانية الذين سبقوا إلى الإسلام، وأحد الخمسة الذين أسلموا على يد أبي بكر، وأحد الستة أصحاب الشورى.
٤٢٨٦- طلحة بن عبيد الله: بن مسافع بن عياض بن صخر بن عامر بن كعب بن سعد بن تميم التيميّ.
٤٢٨٧- طلحة بن عتبة: الأنصاريّ الأوسيّ، من بني جحجبى.. شهد أحدا، واستشهد باليمامة.
٤٢٨٨- طلحة بن عتبة: آخر.
روى ابن عساكر بسند صحيح إلى موسى بن عقبة أنه استشهد باليرموك، فلا أدري هو الذي قبله أو غيره.
٤٢٨٩- طلحة: بن عمرو النّضري.
قال البخاريّ: له صحبة، وقال ابن السكن: يقال كان من أهل الصّفّة.. وروى أحمد والطّبرانيّ.
٤٢٩٠- طلحة بن عمرو بن أكبر بن ربيعة بن مالك بن أكبر الحضرميّ.
شهد بدرا والعقبة، حكاه الرّشاطي عن الهمدانيّ، قال: ولم يذكره أبوعمر ولا ابن فتحون.
٤٢٩١- طلحة بن أبي قتادة: في القسم الرّابع.
٤٢٩٢- طلحة بن مالك الخزاعيّ: ويقال الليثي.
قال ابن حبّان: له صحبة. وقال: قال ابن السّكن قال البغويّ: طلحة بن مالك سكن البصرة، ونسبه ابن حبان سلميا.
٤٢٩٣- طلحة بن معاوية بن جاهمة. قد ذكرته في القسم الرّابع.
٤٢٩٤- طلحة بن نُضَيلة: بالنون والمعجمة مصغّر.
٤٢٩٥- طلحة الأنصاريّ: غير منسوب.
٤٢٩٦- طلحة الزّرقيّ: ذكره أبونعيم أيضا، وقال: قيل إنه ابن أبي حدرد.
وأخرج من طريق عمرو بن دينار، عن عبيد بن طلحة الزّرقيّ، عن أبيه، وكان من أصحاب الشجرة.
٤٢٩٧- طلحة السّلمي: والد عقيل.
ذكر البخاريّ في «الصّحابة».
وقال البغويّ: له صحبة. وقال ابن حبّان: سكن الشّام، وحديثه عند أهلها.
٤٢٩٨- طلحة، غير منسوب: ذكره ابن إسحاق فيمن استشهد بخيبر هو وأوس بن العائذ.
٢. دوسری بات:
محمد بن قاسم کے واقعے سے پہلے صحابہ کرام کا سندھ آنا تاریخی طور پر ثابت نہیں.
محمد بن قاسم 93 ہجری میں ولید بن عبدالملک کے دور میں سندھ آیا تھا، اور اس لشکر میں کسی صحابی رسول کا وجود تاریخی طور پر ثابت نہیں، لہذا سندھ میں کہیں پر بھی کسی صحابی کی قبر کا دعوی ہمارے مطالعے کے اعتبار سے تاریخی طور پر درست نہیں.
٣. تیسری بات:
سوال کیلئے ارسال کردہ ویڈیو میں اس بات کا دعوی کیا گیا ہے کہ مفتی عبدالعزیز صاحب (لاہور والوں) نے کشف کے ذریعے یہ بات بتائی کہ یہ کسی طلحہ بن جابر نامی صحابی کی قبر ہے.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض کسی شخص کے کشف کو کیا اس طرح کے امور کیلئے دلیل بنایا جا سکتا ہے؟
مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
امام غزالی رحمه اللہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ ابوسلیمان درانی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے، کہ الہام پر اس وقت تک عمل نہ کرو جب تک آثار سے اس کی تصدیق نہ ہو جائے.
مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ “فتوح الغیب” میں فرماتے ہیں کہ الہام اور کشف پر عمل جائز ہے، بشرطیکہ وہ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاسِ صحیح کے مخالف نہ ہو.
آگے لکھتے ہیں:
قاضی ثناء اللہ رحمہ اللہ “ارشاد الطالبین” میں فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کا الہام علم ظنی کا موجب ہے، اگر کسی ولی کا کشف والہام کسی حدیث کے خلاف ہو اگرچہ خبرآحاد میں سے ہو، بلکہ اگر قیاس صحیح کے بھی خلاف ہو کہ جو شرائط قیاس کو جامع ہوں تو اس جگہ بمقابلہ کشف والہام قیاس کو ترجیح دینی چاہیئے، یہ مسئلہ تمام سلف اور خلف میں متفق علیہ ہے. انتہی،
لہذا تاریخی طور پر یہی کہا جائےگا کہ یہ قبر کسی طور پر بھی کسی صحابی کی نہیں ہو سکتی، اور نہ کسی کشف اور کرامت کا ایسے امور کے ثبوت میں کوئی دخل ہے.
خلاصہ کلام
عجب تعجب کا منظر ہے، علماء کرام قبروں کی تلاش میں نکلے ہیں، سکھر کی تین قبروں کو صحابہ کی قبریں ثابت کرنے پر علماء کرام تلے ہیں، جبکہ تاریخی اعتبار سے ایسا ممکن نہیں.
کوہِ سلیمان کے دامن کی قبر کو بھی علماء کرام سنان بن سلمہ صحابی کی قبر بنانے پر مُصِرّ ہیں، جبکہ تاریخ انکاری ہے.
ہمارے پاس تاریخ کی صورت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں محفوظ ہیں، اگر تاریخی اعتبار سے کوئی قبر کسی صحابی رسول کی ثابت ہوتی ہے، تو یقیناً قابل ذکر ہے اور وہاں سے گزرنے والوں کو جانا چاہیے، لیکن بلاتحقیق یوں قبروں کی مشہوری اہل علم کیلئے ہرگز مناسب نہیں،
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٨ اکتوبر ٢٠٢٣ کراچی