پہلی اولاد کا لڑکی ہونا
سوال: یہ بات بطور حدیث مشہور کی گئی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ جس عورت کی پہلی اولاد لڑکی ہو تو یہ اس عورت کی خوش قسمتی کی علامت ہے، کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
بچیاں اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک خوبصورت نعمت ہیں اور بچیوں اور بہنوں کی تربیت پر آپ ﷺ نے فضائل بهى ذکر فرمائے ہیں:
١. قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
“مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ وَضَمَّ أَصَابِعَه”.
(رواه مسلم: 2631).
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی تربیت کی تو قیامت کے دن وہ میرے ساتھ اس طرح ہوگا جیسے یہ دونوں انگلیاں جڑی ہوئی ہیں.
٢. قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ أَوْ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ وَاتَّقَى اللَّهَ فِيهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ”.
– رواه الترمذي (1916).
-وأبوداود (5147).
– وابن ماجه (3669).
جس نے تین بہنوں یا بیٹیوں کی تربیت کی یا دو بہنوں اور دو بیٹیوں کی تربیت کی تو اس کیلئے جنت ہے.
☆ لیکن پہلی اولاد کے بیٹی ہونے کے بارے میں جس قدر روایات منقول ہیں وہ اس حد تک کمزور ہیں کہ محدثین نے اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے.
١. قال الحافظ السخاوي رحمه الله في “المقاصد الحسنة” (1/677): حديث “من يمن المرأة تبكيرها بالأنثى” رواہ الديلمي عن واثلة بن الأسقع مرفوعا بلفظ: “من بركة تبكيرها بالأنثى” ألم تسمع قوله تعالى: {يهب لمن يشاء إناثا} فبدأ بالإناث، ورواه أيضا عن عائشة مرفوعا بلفظ: “من بركة المرأة على زوجها تيسير مهرها وأن تبكر بالإناث” وهما ضعيفان.. انتهى..
• علامہ سخاوی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ روایات ضعیف ہیں.
٢. وقال السيوطي في فتاويه: لا يصح.
(انظر: “كشف الخفاء” 2/287)
امام سیوطی رحمه اللہ نے بهى اس روایت پر غیر صحیح ہونے کا حکم لگایا ہے.
٣. حضرت علی رضی اللہ عنه کی سند
أخرجه ابن عدي في “الكامل” (6/302) من طريق شيخه محمد بن محمد بن الأشعث: حدثني موسى بن إسماعيل بن موسى بن جعفر بن محمد: حدثني أبي، عن أبيه، عن جده جعفر، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين، عن أبيه، عن علي مرفوعاً.
قلت: موضوع، المتهم به هذا الشيخ ؛ فقد ساق له ابن عدي نحو خمسة وعشرين حديثاً من أصل قرابة ألف حديث بهذا الإسناد العلوي، وقال: “وعامتها من المناكير، وكان متهماً”.
ابن عدي نے یہ روایت محمد بن محمد بن الأشعث کی سند سے نقل کی ہے اور اس پر من گھڑت روایات بنانے کا الزام ہے.
٤. وقال الدارقطني: “آية من آيات الله: وضع ذاك الكتاب؛ يعني العلويات”. وقد مضى له حديث آخر موضوع في المجلد الرابع رقم (1932).
دارقطنی اس راوی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے ایک پوری من گھڑت کتاب گھڑ لی تهى جس کا نام “علویات” رکھا.
٥. وقال الذهبي في “الميزان” : “وساق له ابن عدي جملة موضوعات”
امام ذھبی رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ اس راوی کی روایات میں من گھڑت شامل ہے.
٦. واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنه کی سند:
رواه مسنداً الخرائطي في “مكارم الأخلاق” قال: “حدثنا محمد بن جابر الضرير، حدثنا مسلم بن إبراهيم العبدي، حدثنا حكيم بن حزام، عن العلاء بن كثير، عن مكحول، عن واثلة بن الأسقع، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من بركة المرأة تبكيرها بالأنثى، أما سمعت الله تعالى يقول: يهب لمن يشاء إناثا ويهب لمن يشاء الذكور، فبدأ بالإناث قبل الذكور».
ومن نفس طريقه ابن عساكر في تاريخ دمشق، وكذلك الخطيب في تاريخ بغداد.
وقد رواه ابن الجوزي في الموضوعات من طريق الأثرم إلى سالم الوراق قال حدثنا حكيم بن (حزام) هكذا وقع ثم بنحو ما ذكر الخرائطي.
٧. قال ابن الجوزي بعد أن ذكره: “هذا حديث موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد اتفق فيه جماعة كذابون.
• امام ابن جوزی اس روایت کو من گھڑت قرار دیتے ہیں اسلئے کہ اس کی سند میں بہت سے کمزور راوی جمع ہیں:
(ا) أما سالم الوراق:
فقال يحيى: هو كذاب.
ایک راوی سالم ہیں جن کو یحی مدنی نے جهوٹا کہا ہے.
(اا) وأما حكيم:
فقال أبوحاتم الرازي: متروك الحديث.
دوسرے راوی حکیم ہیں جن کو ابوحاتم رازی نے متروک قرار دیا ہے.
(ااا) وأما العلاء بن كثير:
فقال أحمد ويحيى: ليس بشئ.
وقال ابن حبان: يروى الموضوعات عن الاثبات.
تیسرے راوی علاء بن کثیر ہیں. انکے بارے میں امام احمد اور یحیی فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.
ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ جهوٹی روایات گھڑتا ہے.
٨. قال ابن حجر تبعاً للذهبي في الميزان: روى سالم عن حكيم بن حزام متروك عن العلاء بن كثير تالف عن مكحول عن واثلة مرفوعاً: “من يمن المرأة تبكيرها بأنثى” وهو سالم بن إبراهيم عن أبي بكر بن عياش…انتهى…
والخبر المذكور رواه في جزء بن عترة الموصلي.
علامہ ابن حجر رحمه اللہ نے بهى اس روایت کی سند کو انتہائی کمزور اور ناقابل قبول قرار دیا ہے.
اس قول کی حقیقت:
١. اگرچہ یہ روایت آپ ﷺسے ثابت نہیں لیکن مفسرین اور محدثین نے اس کو حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے.
وسمعت الشيخ سلمان العودة في شريط “نساء” يثبته موقوفاً على واثلة رضي الله عنه.
وراجع كتب التفسير في قوله تعالى: {يهب لمن يشاء إناثاً}.
والله أعلم.
٢. اسی طرح امام بغوی رحمه اللہ نے اس قول کو قتادہ اور وھب بن منبہ کا قول بهى نقل کیا ہے.
وقد حكاه البغوي قولاً بالتمريض فقال: “قيل: من يمن المرأة تبكيرها بالأنثى قبل الذكر، لأن الله تعالى بدأ بالإناث”.
وهو مروي عن قتادة أيضاً.
وقد ذكر هذا الأثر عن قتادة من كلامه، وعن وهب بن منبه وغيرهما.
٣. اسی قول کو حضرت مفتی شفیع صاحب رحمه اللہ نے “معارف القرآن” میں نقل کیا ہے:
حضرت واثلہ بن اسقع نے فرمایا کہ جس عورت کے بطن سے پہلے لڑکی پیدا ہو وہ مبارک ہوتی ہے. (قرطبی)
(معارف القرآن، سورة الشوری آیت: 50)
خلاصہ کلام
اس قول کی نسبت آپ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں، البتہ اس کو صحابہ کا قول کہہ کر بیان کیا جاسکتا ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٥ شوال ١٤٣٨