مقام ابراہیم کو چھونا یا چومنا
سوال: مسجد حرام روئے زمین پر اللہ رب العزت کا سب سے عظیم گھر ہے جس میں اللہ رب العزت نے اپنی عظیم نشانیاں رکھی ہیں، ان ہی میں سے ایک عظیم نشانی “مقام ابراہیم” بھی ہے، جس کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا :”ان اول بیت وضع للناس للذي ببکة مبارکا وهدی للعالمین○ فیه آیات بینات مقام ابراہیم” سب سے پہلا گھر بیت اللہ ہے، اس میں واضح نشانیوں میں سے مقام ابراہیم ہے.
الجواب باسمه تعالی
مقام ابراہیم کی تاریخی حیثیت:
مقام ابراہیم کی تاریخی حیثیت کے بارے میں کچھ باتیں مشہور ہیں:
١. ایک یہ کہ اس پتھر پر کھڑے ہوکر ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر کرتے تھے، اور اس پتھر پر آپ کے قدموں کے نشان ثبت ہوگئے.
مقام ابراہیمهو “الحجر الذي كان يقف عليه، فلما ارتفع البناء عن قامته وضع له ولده هذا الحجر المشهور ليرتفع عليه لما تعالى البناء … وقد كانت آثار قدمي الخليل عليه السلام باقية في الصخرة إلى أول الإسلام. (البداية والنهاية 1/163).
• قال ابن حجر: الْمُرَاد بِمَقَامِ ابراہیمالْحَجَر الَّذِي فِيهِ أَثَر قَدَمَيْهِ.
• وقال ابن كثير:
“وكانت آثار قدميه ظاهرة فيه ولم يزل هذا معروفا تعرفه العرب في جاهليتها، وقد أدرك المسلمون ذلك فيه أيضا، كما قال أنس بن مالك: رأيت المقام فيه أصابعه عليه السلام وأخمص قدميه؛ غير أنه أذهبه مسح الناس بأيديهم.
٢. ابراہیم علیہ السلام نے اس پتھر پر کھڑے ہوکر اللہ تعالی کے حکم پر لوگوں کو حج کی دعوت دی.
ومن فضائله: أن ابراہیمعليه السلام وقف عليه كما أمره الله عزوجل وأذن في الناس بالحج.
فقد روى الفاكهي عن ابن عباس رضي الله عنهما: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لما فرغ ابراہیمعليه السلام من بناء البيت أمره الله عزوجل أن ينادي في الناس بالحج، فقام على المقام، فقال: ياأيها الناس إن ربكم قد بنى بيتًا فحجوه.
٣. کہ تمام مشاعر وہ مقام ابراہیم ہیں.
وقيل: إن مقام ابراہیمهي كل المشاعر، لكن المشهور هو الأول أنها الصخرة.
مقام ابراہیم کا مقام:
مقام ابراہیم ابتداء میں بیت اللہ سے جڑا ہوا تھا اور لوگ یہیں پر طواف کی نماز پڑھتے تھے، لیکن طواف کرنے والوں کیلئے جب اس میں دقت پیدا ہونے لگی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مقام ابراہیم کو بیت اللہ سے کچھ فاصلہ پر کردیا گیا اور اس مقام پر لایا گیا جہاں پر آج موجود ہے. پھر بعد کے زمانوں میں اس پر ایک کمرہ بنایا گیا، لیکن جب سعودی تعمیرات شروع ہوئیں تو کمرے کو ہٹاکر اس جگہ شیشے کا خول بنایا گیا.
كانت في الأول هذه الصخرة ملاصقة للكعبة ويصلي عندها الناس فيحصل زحام بين الطائفين والمصلين، ثم في خلافة عمر بن الخطاب رضي الله عنه فصل هذه الصخرة عن البيت وجعلها في مكانها الذي هو موجود الآن، وفي عمارات المسجد الحرام بُني عليها غرفة وجُعل عندها مكان للصلاة، ولما جاءت العمارة السعودية هدمت هذه الغرفة لتوسعة المطاف وأرادوا نقل المقام إلى مكان آخر خارج المطاف بسبب الزحام وحصل في ذلك أخذٌ ورد ما بين مجيز ومانع ولما رأوا الخلاف أخذوا رأياً وسطاً وهو أن يزال المبنى ويوضع حاجزاً زجاجياً وهو الموجود الآن.
کیا موجودہ مقام ہی مقام ابراہیم ہے؟
شیخ ابن عیثمین فرماتے ہیں کہ مقام ابراہیم تو یہی ہے لیکن یہ جو قدموں کے نشان ہیں اس کے بارے میں یقینا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وہی ہیں، بلکہ یہ تو بعد کے زمانے میں صرف علامت کے طور پر لگائے گئے ہیں، اور حضرت ابراہیم کے پیروں کے نشان زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ مٹ گئے ہیں.
وقال الشيخ ابن عثيمين:
لا شك أن مقام ابراہیمثابت وأن هذا الذي بني عليه الزجاج هو مقام إبراهيم، لكن الحفر الذي فيه لا يظهر أنها أثر القدمين، لأن المعروف من الناحية التاريخية أن أثر القدمين قد زال منذ أزمنة متطاولة، ولكن حفرت هذه أو وضعت للعلامة فقط، ولا يمكن أن نجزم بأن هذا الحفر هو موضع قدمي ابراہیمعليه الصلاة والسلام.
مقام ابراہیم کے فضائل:
١. سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کے قریب نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے.
من فضائله: أن الله تعالى أمر المسلمين باتخاذه مصلى في الحج والعمرة، وذلك في قوله تعالى: {وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ ابراہیممُصَلًّى} (البقرة: 125)
٢. یہ جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت ہے، اگر اللہ رب العزت اس کے نور کو ختم نہ فرماتے تو اس کی روشنی سے مشرق و مغرب چمک اٹھتے.
ومن فضائله: أنه ياقوتة من يواقيت الجنة.
فقد روى الإمام أحمد والترمذي وابن خزيمة وابن حبان والحاكم عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما أنه قال: أنشد بالله ثلاثًا ووضع أصبعه في أذنيه، لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول: «إن الركن والمقام ياقوتتان من ياقوت الجنة، طمس الله نورهما، ولولا أن الله طمس نورهما لأضاءتا ما بين المشرق والمغرب.
٣. مقام ابراہیم اور حجر اسود جنت کے جواہر میں سے ہیں.
قد رواه الأزرقي وغيره باسناد صحيح عن عبدالله بن عمرو وروي باسناد صحيح عن ابن عباس قال: ليس في الأرض من الجنة إلا الركن الأسود والمقام؛ فإنهما جوهرتان من جواهر الجنة؛ ولولا ما مسهما من أهل الشرك ما مسهما ذو عاهة إلا شفاه الله عزوجل.
مقام ابراہیم کے پاس کرنے کا عمل:
آپ علیہ السلام نے طواف کے بعد اس مقام پر دو رکعت نماز پڑھی ہے.
وأخرج البخاري (395) عن عبدالله بن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما أنه قال:
قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَصَلَّى خَلْفَ المَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، وَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، وَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
وأخرج مسلم (1218) وأبوداود (1905) والنسائي (2939) والترمذي (856)
عن جابر بن عبدالله الأنصاري رضي الله عنهما أنه قال في شأن حجة الوداع مع النبي صلى الله عليه وسلم:
حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ، اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ نَفَذَ إِلَى مَقَامِ ابراہیمعَلَيْهِ السَّلَام فَقَرَأَ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ ابراہیممُصَلًّى}، وكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ: {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} وَ {قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ}، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا.
مقام ابراہیم کو چومنا اور ہاتھ لگانا:
● عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنهما نے لوگوں کو دیکھا کہ مقام ابراہیم کو ہاتھ لگارہے تھے تو فرمایا کہ تمھیں یہاں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، ہاتھ لگانے کا نہیں.
إذ قال عبدالرزاق الصنعاني رحمه الله في “مصنفه”: (8958)
عن الثوري عن نُسير بن ذُعلوق: أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَأَى النَّاسَ يَمْسَحُونَ الْمَقَامَ فَنَهَاهُمْ، وَقَالَ: إِنَّكُمْ لَمْ تُؤْمَرُوا بِالْمَسْحِ، وَقَالَ: إِنَّمَا أُمِرْتُمْ بِالصَّلَاةِ. وإسناده صحيح.
وأخرج ابن أبي شيبة في “مصنفه” (15512) والفاكهي في “تاريخ مكة” (1004)
● عطاء بن ابی رباح رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ مقام ابراہیم کو چھونا یا چومنا کوئی عمل نہیں.
مفتي المسلمين في المناسك التابعي عطاء بن أبي رباح رحمه الله.
إذ قال عبدالرزاق الصنعاني رحمه الله في “مصنفه” (8957)
عن ابن جريج قال: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: أَرَأَيْتَ أَحَدًا يُقَبِّلُ الْمَقَامَ أَوْ يَمَسُّهُ؟ فَقَالَ: أَمَّا أَحَدٌ يُعْتَبَرُ بهِ فَلَا. وإسناده صحيح.
وأخرج الفاكهي في “أخبار مكة” (1005) من طريق ابن جريج نحوه.
وقال الفاكهي رحمه الله أيضاً (1006:)
حدثنا محمد بن علي الشَّقِيقِي قال: سمعت أبي يقول: أخبرنا أبوحمزة عن ابراہیمالصائغ عن عطاء: أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُقَبِّلَ الرَّجُلُ الْمَقَامَ أَوْ يَمْسَحَهُ. وإسناده حسن.
● تابعی جلیل قتادہ رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ اس جگہ پر نماز پڑھنے کا حکم ملا ہے، اسکو چھونے کا حکم نہیں.
قال الإمام التابعي قتادة:
أمروا أن يصلوا (يعني: ركعتي الطواف) عنده (يعني:مقام إبراهيم)، ولم يؤمروا بمسحه.
ذكره سعيد بن أبي عروبة رحمه الله في كتاب “المناسك” (ص: 68، رقم: 23)
● مجاہد رحمه اللہ کہتے ہیں کہ مقام ابراہیم کو نہ تو چھونا چاہیئے اور نہ ہی چومنا چاہیئے.
التابعي مجاهد بن جبر رحمه الله.
إذ قال ابن أبي شيبة رحمه الله في مصنفه”(15513)
نا ابن فضيل عن ليث عن مجاهد قال: لَا تُقَبِّلِ الْمَقَامَ، وَلَا تَلْمَسْهُ.
وليث: هو ابن أبي سليم، وھو متكلم فيه.
● امام احمد بن حنبل اور إمام اسحاق رحمهما اللہ فرماتے ہیں کہ اس مقام کو چھونے کا حکم نہیں، بلکہ اس جگہ پر صرف نماز پڑھنے کا حکم ہے.
الإمامان أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه رحمهما الله إذ قال إسحاق بن منصور الكوسج رحمه الله في “مسائله عن الإمامين أحمد وإسحاق” (1541)
قلت: مس المقام؟ قال: لا يمسه.
قال إسحاق: كما قال، إنما أمر بالصلاة إليه.
● امام ابن تیمیہ رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ مقام ابراہیم کے چومنے اور چھونے کی ممانعت پر امت کا اجماع ہے.
وقال ابن تيمية: “لا يشرع تقبيل المقام ولامسحه إجماعا”. (الاختيارات، ص: 175)
● امام نووی رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ اس مقام کا چومنا بدعت ہے.
وقال النووي: “لايقبل مقام ابراہیمولايستلمه؛ فإنه بدعة”. (الإيضاح)
خلاصہ کلام
مقام ابراہیم کو اللہ رب العزت نے بہت بڑا شرف عطا فرمایا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس مقام کے متعلق اپنی منشا اور اپنا حکم بھی نازل فرمایا ہے جسکو حضور علیہ السلام نے عملا کرکے بھی دکھا دیا کہ اس جگہ طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھی جائے، یہی حکم ہے اور یہی اسوہ رسول بھی ہے.
البتہ اس کے علاوہ کئے جانے والے تمام اعمال علمائے امت کے اقوال کی روشنی میں غلط اور بدعت شمار ہوتے ہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ