سال کے ابتداء کی ایک دعا
سوال: ایک شخص مولانا شاکر نوری امیر سنی دعوت اسلامی کی ویڈیو عام ہورہی ہے جس میں وہ سال کے شروع کی دعا کی ترغیب دے رہے ہیں، برائے مہربانی اس دعا اور اس کے ساتھ منسلک باقی دونوں اعمال کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ مستند ہے اور اس کو کرنا چاہیئے یا نہیں؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ سال کی ابتداء کے متعلق جس قدر روایات اور اعمال مشھور ہیں یا اس کی ترغیب دی جارہی ہے وہ تمام اعمال کسی بھی مستند اور صحیح روایات سے ثابت نہیں، بلکہ بعض اعمال تو ایسے ہیں کہ موضوعات کی کتب میں بھی تلاش کرنے کے باوجود اس کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا.
سال کے ابتداء میں پڑھی جانے والی دعائیں:
١. پہلی دعا:
“اللهم أنت الأبدي القديم الأول وعلى فضلك القديم وجودك المعول، وهذا عام جديد قد أقبل نسألك العصمة من الشيطان وأوليائه، والعون على هذه النفس الأمارة بالسوء، والإشتغال بما يقربني إليك زلفى ياذا الجلال والإكرام يا أرحم الراحمين”. -يقول ذلك ثلاثاً- وصلى الله على سيدنا محمد النبي الأمي وعلى آله وصحبه وسلم.
جو شخص اس دعا کو پڑھتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ باقی عمر یا باقی سال مجھ سے محفوظ ہوا اور اس شخص کی حفاظت کیلئے دو فرشتے مقرر کئے جاتے ہیں جو شیطان سے اس کی حفاظت کرتے ہیں.
ويزعمون ” أن من دعا بهذا الدعاء أول يوم من المحرم فإن الشيطان يقول: استأمن على نفسه فيما بقي من عمره؛ لأن الله يوكل به ملكين يحرسانه من الشيطان”.
(انظر: هامش دلائل الخيرات للجزولي (237 _ 238)
اس دعا کا ثبوت کسی بھی مستند غیرمستند حدیث کی کتاب میں وجود نہیں، البتہ بعض وظائف کی کتب میں بغیر سند کے مذکور ہے.
٢. دوسری دعا:
جو شخص سال کے آخیر میں یہ دعا پڑھے “اے اللہ اس سال میں نے جتنے گناہ کئے ان سب کو معاف فرما ” تو شیطان کہتا ہے کہ ہم نے پورے سال اس کو گناہ کرانے میں خود کو تھکادیا اور اس نے ساری محنت ایک لمحے میں ختم کردی.
أما دعاء آخر السنة فهو: اللهم ما عملت في هذه السنة مما نهيتني عنه فلم أتب منه بعد جرأتي على معصيتك فإني أستغفرك فاغفر لي … الخ . ويقولون بزعمهم أن من قرأ هذا الدعاء ثلاث مرات فإن الشيطان يقول تعبنا معه طول السنة فأفسد علينا تعبنا في ساعة واحدة.
(المصدر السابق 242 _ 243)
یہ دعا بھی فقط وظائف کی کتابوں میں ہی پائی جاتی ہے.
٣. تیسرا عمل:
جو شخص ذی الحجہ کے آخری دن اور محرم کے پہلے دن روزہ رکھے تو اللہ تعالی ان روزوں کو پچاس سال کے گناہوں کا کفارہ بنادیتے ہیں.
كما استدلوا في تعظيم هذين اليومين إلى حديث موضوع لا يصح عن رسول الله وهو “من صام آخر يوم من ذي الحجة وأول يوم من المحرم فقد ختم السنة الماضية، وافتتح السنة المقبلة بصوم جعله الله كفارة خمسين سنة”.
(انظر: الموضوعات لابن الجوزي 2/199).
اس روایت کو علامہ ابن جوزی نے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے.
٤. چوتھا عمل:
ہر سال کے آخری دن وضو کرکے چاشت کے وقت دو رکعت نفل پڑھیں اور یہ دعا مانگے اور پھر زوال کے بعد اور پھر عصر سے پہلے ایک دن میں تین مرتبہ یہ عمل کریں تو شیطان مایوس ہوکر کہتا ہے اس نے پورے سال کی محنت ضائع کردی.
دعاء آخر السنة:
“في آخر يوم من كل سنة تتوضأ وتصلي ركعتين نافلة في الضحى ثم تدعو بهذا الدعاء:
بسم الله الرحمن الرحيم وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليما، اللهم ما عملت في هذه السنة مما نهيتني عنه فلم أتب منه ولم ترضه ونسيته ولم تنسه وحلمتٌ علي بعد قدرتك على عقوبتي ودعوتني إلى التوبة بعد جرأتي على معصيتك فإني أستغفرك فاغفر لي بفضلك وما عملت فيها مما ترضاه ووعدتني عليه الثواب فأسالك اللهم يا كريم ياذا الجلال والإكرام أن تتقبله مني، ولا تقطع رجائي منك يا كريم وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليما.
و تفعل مثل ذلك بعد الزوال ثم قبل صلاة العصر و بذلك تكون قد دعوت في هذا اليوم ثلاث مرات، فإن انت فعلت ذلك حملت الشيطان على أن يقول: تعبنا مع هذا الشخص طوال السنة فأفسد تعبنا في ساعة واحدة.”
الإجابة:
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
– فقد ورد بعض هذا الكلام في بعض الكتب التي لا تهتم بتصحيح الحديث مثل حاشية الشيخ كنون على البناني، وبحثنا عنه في غالب كتب السنة فلم نجد له ذكراً.
یہ روایت بھی حدیث کی کسی صحیح یا ضعیف کتاب میں نہ مل سکی، البتہ بعض وظائف کی کتابوں میں پایا جانا اس کے مستند ہونے کی دلیل نہیں ہے.
٥. پانچواں عمل:
یکم محرم الحرام کو عصر کے بعد تین سو ساٹھ بار بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ آیةالکرسی پڑھ کر یہ دعا پڑھیں تو آپ پر پورے سال کسی قسم کی پریشانی کا منحوس سایہ نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی ظالم آپ پر ظلم کرسکےگا.
اللهم يا محول الأحوال! حول حالي إلى أحسن الأحوال بحولك وقوتك يا عزيز يا متعال، وصلى الله على نبينا محمد وصحبه”
یہ دعا بھی کسی مستند کتاب یا مصدر میں موجود نہیں ہے، بلکہ بعض پوسٹوں میں اس کو غلط لکھا گیا ہے یعنی “متعال” کی جگہ “مفضال” لکھا گیا ہے.
خلاصہ کلام
سال کی ابتداء یا انتہا پر کوئی بھی عمل یا کوئی بھی خاص دعا آپ علیہ الصلاة والسلام سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی اکابرین امت سے کسی مستند ذریعے سے ان اعمال کا کرنا یا انکی ترغیب چلانا ثابت ہے.
لہذا اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ ہر نئے عمل کو کرنے سے پہلے اس بات کی تسلی کرلی جائے کہ کیا وہ عمل مستند اور صحیح ہے تاکہ عمل کرنے کا ثواب حاصل ہو، نہ کہ مسلمان ایسے عمل کا مرتکب ہو جو گناہ کا باعث بنے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ