تنبیہ نمبر69

جنّت کے کپڑے

سوال: مندرجہ ذیل دو واقعات کی تحقیق مطلوب ہے:
١.  روایتوں میں آتا ہے کہ چاند رات کو حضرت اِمام حسن اور حضرت اِمام حُسین رضی اللّٰه عنہما اپنی والدہ محترمہ کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا: ”امی جان! صبح عید کا دِن ہے، مدینہ کے لوگوں کے بچے نئے نئے لِباس پہنیں گے۔ کیا اِمام الانبیاء صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم اور خاتونِ جنّت رضی اللّٰه عنہا کے شہزادے نئے کپڑے نہ پہنیں گے؟”
بچوں کے سوال سے ماں کی مامتا تڑپ اُٹھی،  بچوں کو تسلّی دی کہ میرے بیٹوں!  کوئی فِکر کی بات نہیں،  تمہیں بھی نئے جوڑے مِل جائیں گے۔ سیّدہ نِساءالعالمین خاتونِ جنّت رضی اللّٰه عنہا نے نماز سے فارغ ہو کر بارگاہِ ربّ العزت میں عرض کِیا: ”مولٰی!  تیرے محبوب نبی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں نے مجھ سے نئے کپڑے مانگے ہیں۔  اے مولا!  میں نے ان سے وعدہ کر لیا ہے۔ اے میرے مولا!  میرے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لے۔ ”دُعا سے فارغ ہوئیں تو کسی نے دروازے پر دستک دی۔  پوچھا:  ”کون؟”  آنے والے نے جواب دیا:  ”اہلِ بیت کا درزی شہزادوں کے لیے نئے کپڑے لے کر آیا ہے۔ “سیّدہ رضی اللّٰه عنہا نے وہ کپڑے لئے اور صُبح دونوں شہزادوں کو پہنادئیے.  سرکارِ دوعالم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا:  ”بیٹی!  کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کپڑے کہاں سے اور کون لے کر آیا تھا؟”
عرض کِیا: “ابّا جان! آپ ہی بتادیں۔ ” تو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  “وہ جبریل امین علیہ السّلام تھے جو خدائے تعالٰی کی طرف سے جنّت سے کپڑے لے کر حاضر ہوئے تھے۔” (روضتہ الشہداء، جِلد: ۲، صفحہ: ۱۳۸)
معزز احباب!
اللہ تعالٰی کے یہاں حضرات حسنین کریمین رضی اللّٰه عنہما کا یہ مقام ہے کہ ان کے لئے جنّت سے جوڑے بھیجے گئے اور شہزادوں کی دِل شکنی نہیں کی گئی،  تو جو لوگ ان کی شان میں گُستاخیاں کرتے ہیں وہ کس قدر ظالم اور عذابِ خداوندی کے مُستحق ہوں گے۔
٢.  ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما نے کوئی تحریر لکھی اور دونوں اپنی تحریر کو اپنے نانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لےگئے اور پوچھا کس کی تحریر اچھی ہے؟  ہمارے نبی نے فرمایا کہ اپنی امی کے پاس جاؤ وہ بتائیں گی کہ کس کی تحریر اچھی ہے،  امی کے پاس جاکر پوچھا تو امی بولیں کہ سیب جس کی تحریر پر گرےگا اس کی تحریر اچھی ہوگی، امی نے سیب اچھالا تو اوپر جاکر سیب کے دو ٹکڑے ہوگئے اور دونوں کی تحریر میں گرے. برائے کرم ان دونوں واقعات کی تحقیق فرمادیجئے کہ صحیح ہیں یا نہیں.
الجواب باسمه تعالی

یہ دونوں واقعے اپنے الفاظ سے ہی من گھڑت معلوم ہوتے ہیں کیونکہ شیعوں کی من گھڑت روایات لاکھوں کی تعداد میں ہیں جیسا کہ علماء نے اس بات کی طرف اشارے کئے ہیں کہ روافض نے حضرت علی اور اہل بیت کے فضائل میں تین لاکھ روایات گھڑی ہیں.

قال الحافظ أبو يعلی الخليلي  في كتاب “الإرشاد”: وضعت الرافضة في فضائل علي رضي الله عنه وأهل البيت نحو ثلاث مئة ألف حديث.
سیب اور حضرت فاطمہ کی پیدائش کے متعلق عجیب روایات:

روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے ایک مرتبہ صحابہ سے دریافت فرمایا:  بتاؤ فاطمہ کو کس چیز سے پیدا کیا گیا؟  صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ انسانی حور ہے، انسان نہیں ہے اور اس کی پیدائش جبرائیل کے پسینے اور پروں سے ہوئی ہے،  صحابہ نے عرض کیا کہ یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ انسانی حور ہے لیکن انسان نہیں، اور آپ نے فرمایا کہ جبرائیل کے پسینے اور اس کے پروں سے پیدا ہوئی ہے.  آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جنت کا ایک سیب مجھے تحفے کے طور پر بھجوایا جس کو جبرائیل لے کر آنے لگے تو اس سیب کو اپنے سینے سے چمٹایا،  اس کے بعد جبرائیل کو بھی پسینہ آیا اور سیب کو بھی پسینہ آیا اور دونوں کا پسینہ مل گیا،  پھر جبرائیل نے وہ سیب میری خدمت میں پیش کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے آپ کو جنت کے سیب کا تحفہ دیا ہے،  آپ یہ سیب کھالیں.  میں نے کہا کہ کیا اللہ تعالی کا تحفہ کھایا جاتا ہے؟  تو جبرائیل نے کہا کہ یہ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ آپ اس سیب کو کھالیں.  میں نے اس سیب کو جیسے ہی کاٹا تو اس میں سے ایک نور نکلا جو پورے افق پر چھا گیا،  مجھ سے کہا گیا کہ یہ منصورہ کا نور ہے. میں نے کہا کہ منصورہ کون ہے؟  جبرائیل نے کہا کہ ایک لڑکی جو آپ کے خاندان میں ہوگی، اس کا آسمانی نام منصورہ اور دنیاوی نام فاطمہ ہوگا.

اور اس کو فاطمہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ماننے والے جہنم سے دور ہونگے اور نہ ماننے والے اللہ کی رحمت سے دور ہونگے.

عن أبي عبدالله جعفر بن محمد بن علي، عن أبيه، عن جده قال: قال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم: معاشر الناس! أتدرون لما خلقت فاطمة؟ قالوا: الله ورسوله أعلم.
قال: خلقت فاطمة حوراء إنسية لا إنسية، وقال: خُلقت من عَرَق جبرئيل ومن زَغَبه. قالوا: يارسول الله، استشكل ذلك علينا، تقول: حوراء إنسية لا إنسية. ثم تقول: من عَرَق جبرئيل ومن زَغَبه؟ قال: إذا أنبئكم: أهدي إلى ربي تفاحة من الجنة، أتاني بها جبرئيل عليه السلام، فضمها إلى صدره فعرق جبرئيل، وعرقت التفاحة، فصار عرقهما شيئا واحدا، ثم قال: السلام عليك يارسول الله ورحمة الله وبركاته، قلت: وعليك السلام ياجبرئيل! فقال: إن الله أهدي إليك تفاحة من الجنة، فأخذتها وقبلتها ووضعتها على عيني وضممتها إلى صدري.
ثم قال: يامحمد! كلها. قلت: ياحبيبي ياجبرئيل! هدية ربي تؤكل؟ قال: نعم، قد أمرت بأكلها، فأفلقتها فرأيت منها نورا ساطعا ففزعت من ذلك النور، قال: كل فإن ذلك نور المنصورة، قلت: ياجبرئيل! ومن المنصورة؟ قال: جارية تخرج من صلبك واسمها في السماء منصورة، وفي الأرض فاطمة، فقلت: ياجبرئيل! ولم سميت في السماء منصورة وفي الأرض فاطمة؟ قال: سميت “فاطمة” في الأرض لأنه فطمت شيعتها من النار، وفطموا أعداؤها عن حبها، وذلك قول الله تعالی في كتابه: {ويومئذ يفرح المؤمنون بنصر الله} بنصر فاطمة.
بيان: الزغب: الشعيرات الصغرى على ريش الفرخ، وكونها من زغب جبرئيل إما لكون التفاحة فيها وعرقت من بينها، أو لأنه التصق بها بعض ذلك الزغب فأكله النبي.



خلاصہ کلام


یہ واقعات اور اس طرح کے بےشمار واقعات جو روافض اور شیعوں نے گھڑے ہیں جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ کوئی پیر ہے، ان واقعات کو سنانا اور پھیلانا سخت گناہ اور جھنم میں ٹھکانہ بنانے کی طرح ہے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں