مردوں کے لئے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا حکم
جناب محترم مفتی صاحب!
اس ویڈیو میں ایک مفتی صاحب نے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کو ممنوع قرار دیا ہے، اسکے بارے میں تحقیقی بات کی طرف رہنمائی فرمادیجئے.
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ آپ علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہننا ثابت ہے، لہذا کسی ایک ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کو بدعت یا گمراہ لوگوں کا طریقہ کہنا درست نہ ہوگا.
داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا ثبوت:
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا افضل ہے کیونکہ یہ بھی زینت کی چیزوں میں سے ہے اور داہنے ہاتھ کو ایک خاص فضیلت حاصل ہے.
يقول الإمام النووي رحمه الله: “الصحيح المشهور أنه في اليمين أفضل؛ لأنه زينة، واليمين أشرف”. (المجموع 4/462)
روایات سے استدلال:
١. حضور علیہ السلام نے پہلے سونے کی انگوٹھی بنائی اور اس کا نگینہ اندر کی جانب رکھا، جب لوگوں کو علم ہوا تو انہوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنالیں.
آپ علیہ السلام کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ علیہ السلام منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے انگوٹھی اتار دی تو لوگوں نے بھی اتار دی.
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ یہ انگوٹھی داہنے میں پہنی تھی.
١- عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْطَنَعَ خَاتَماً مِنْ ذَهَبٍ وَجَعَلَ فَصَّهُ فِي بَطْنِ كَفِّهِ إِذَا لَبِسَهُ، فَاصْطَنَعَ النَّاسُ خَوَاتِيمَ مِنْ ذَهَبٍ، فَرَقِيَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ اصْطَنَعْتُهُ، وَإِنِّي لاَ أَلْبَسُهُ، فَنَبَذَهُ فَنَبَذَ النَّاسُ. قَالَ جُوَيْرِيَةُ: وَلاَ أَحْسِبُهُ إِلاَّ قَالَ فِي يَدِهِ الْيُمْنَى. (رواه البخاري 5876).
– وفي رواية عند مسلم أيضا (2091): فيها التصريح باليمين أيضا.
٢. حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی داہنے ہاتھ میں پہنی جس کا نگینہ حبشی تھا اور آپ نگینے کو ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے.
٢- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ خَاتَمَ فِضَّةٍ فِي يَمِينِهِ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ كَانَ يَجْعَلُ فَصَّهُ مِمَّا يَلِي كَفَّهُ. (رواه مسلم 2094)
٣. عبداللہ بن جعفر فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے.
امام بخاری رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس باب کی روایات میں یہ سب سے صحیح ترین روایت ہے.
٣- عن عبدالله بن جعفر رضي الله عنه قال: “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ”. (رواه أحمد في “المسند” 3/265)
وقال فيه الإمام البخاري: “هذا أصح شيء روي عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الباب”. (سنن الترمذي، رقم: 1744).
آپ علیہ السلام اور صحابہ کرام سے داہنے اور بائیں دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہننے کا ثبوت:
آپ علیہ السلام کا داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا:
١. أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ كان يتختمُ بيمينِه.
– الراوي: أنس بن مالك.
– المحدث: الخليلي.
– المصدر: الإرشاد.
– الصفحة أو الرقم: 1/305.
– خلاصة حكم المحدث: له متابعة.
٢- أن النبيَّ صلى الله عليه وسلم كان يتختَّمُ بيمينِه.
– الراوي: عبدالله بن جعفر بن أبي طالب.
– المصدر: صحيح النسائي.
– الصفحة أو الرقم: 5219.
– خلاصة حكم المحدث: صحيح.
صحابہ کرام اور تابعین کا داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا:
١. ابورافع نے داہنے میں انگوٹھی پہنی اور کہا کہ عبداللہ بن جعفر داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور کہتے تھے کہ حضور علیہ السلام داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے.
١- رأيتُ ابنَ أبي رافِعٍ يَتختَّمُ في يَمينِه، فسألتُه عن ذلِك، فقال: رأيتُ عبدَاللَّهِ بنَ جَعفرٍ يتختَّمُ في يمينِهِ، وقالَ عبدَاللَّهِ بنَ جعفرٍ: كانَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يتختَّمُ في يَمينِهِ.
– الراوي: ابن أبي رافع.
– المصدر: الترمذي.
– الصفحة أو الرقم: 1744.
– خلاصة حكم المحدث: صحيح.
٢. ابن عباس رضی اللہ عنهما نے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنی اور فرمایا میں نے آپ علیہ السلام کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے دیکھا.
٢- كان ابنُ عبَّاس يتختَّمُ في يمينِه، ولا إِخالُه إلَّا قال: رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يتختَّمُ في يمينِه.
– الراوي: عبدالله بن عباس.
– المحدث: البخاري.
– المصدر: العلل الكبير.
– الصفحة أو الرقم: 286.
– خلاصة حكم المحدث: هذا الحديث أصح شيء عندي في هذا الباب.
بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا:
١. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرتے تھے.
١- أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كان يَتختمُ في يسارِهِ، قال: وكانَ ابنُ عمرَ يَتختمُ في يسارهِ فإذا توضأَ نزعَ خاتمَهُ.
– الراوي: عبدالله بن عمر.
– المحدث: ابن عدي.
– المصدر: الكامل في الضعفاء.
– الصفحة أو الرقم: 7/151.
– خلاصة حكم المحدث: [فيه] قاسم بن عبد الله العمري عامة رواياته مما لا يتابع عليه.
٢- أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ كان يتختَّمُ في يسارِه، قال: وكان ابنُ عمرَ يتختَّمُ في يَسارِه فإذا تَوضَّأَ نزعَ خاتمَهُ.
– الراوي: عبدالله بن عمر.
– المحدث: ابن رجب.
– المصدر: الخواتيم.
– الصفحة أو الرقم: 2/688.
– خلاصة حكم المحدث: القاسم هذا قد تكلم فيه وقال البخاري سكتوا عنه.
٣. ابن عمر رضی اللہ عنہ بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے.
٣- أنَّ ابنَ عمرَ رضيَ اللَّهُ عنْهما كانَ يتختَّمُ في يسارِہ.
– المحدث: النووي.
– المصدر: المجموع.
– الصفحة أو الرقم: 4/462.
– خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح.
٤. آپ علیہ السلام بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور اسکا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھتے.
٤- أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كان يتختَّم في يسارِه وكان فصُّه في باطنِ كفِّه.
– الراوي: عبدالله بن عمر.
– المحدث: أبو داود.
– المصدر: سنن أبي داود.
– الصفحة أو الرقم: 4227.
– خلاصة حكم المحدث: قال ابن إسحاق وأسامة عن نافع في يمينه.
ایک روایت میں ہے کہ داہنے ہاتھ میں پہنتے تھے.
ابن عباس رضی اللہ عنھما کا داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا:
أنَّ ابنَ عبَّاسٍ رضي اللَّهُ عنهُما تختَّمَ في يمينِهِ.
– المحدث: النووي.
– المصدر: المجموع.
– الصفحة أو الرقم: 4/463.
– خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن.
دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہننا:
آپ علیہ السلام نے پہلے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنی اور پھر بائیں ہاتھ کی طرف منتقل کی.
• أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم تختَّم في يمينِه ثم إنه حوَّله في يَسارِه.
– الراوي: عبدالله بن عمر.
– المحدث: السفاريني الحنبلي.
– المصدر: كشف اللثام.
– الصفحة أو الرقم: 7/133.
– خلاصة حكم المحدث: سنده ضعيف.
شیعہ (روافض) کے ہاں انگوٹھی پہننے کا عمل:
شیعوں کی روایات میں انگوٹھی پہننے کا ثبوت و طریقہ:
١. موسی کاظم سے پوچھا گیا کہ انگوٹھی کس ہاتھ میں پہننی چاہیئے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ چاہے داہنے ہاتھ میں پہنو چاہے بائیں ہاتھ میں.
محمد بن يعقوب عن عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد عن محمد بن علي عن علي بن اسباط عن علي بن جعفر قال سألت اخي موسى عليه السلام عن الخاتم يلبس في اليمين قال: ان شئت في اليمين وان شئت في اليسار.
(الكافي 6: 469|9).
٢. ابوعبدالله سے پوچھا گیا کہ بنوہاشم کی عادت داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کی ہے تو کیا داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننی چاہیئے یا نہیں؟
تو انہوں نے فرمایا کہ میرے والد بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور وہ ان سے افضل اور زیادہ علم والے تھے.
وعنهم عن احمد عن علي بن الحكم عن ابان عن يحيى بن ابي العلاء عن أبي عبدالله عليه السلام انه سأله عن التختم باليمين وقلت اني رأيت بني هاشم يتختمون في ايمانهم فقال: كان ابي يتختم في يساره وكان افضلهم وافقههم.
(الكافي 6: 469|8).
٣. حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے.
وعنهم عن احمد عن احمد بن محمد بن ابي نصر عن ابان عن يحيى بن ابي العلاء عن ابي عبدالله عليه السلام قال: كان الحسن والحسين عليهما السلام يتختمان في يسارهما.
(الكافي 6: 470|14).
٤. حضرت علی اور ان کے دونوں صاحبزادے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے.
وعنهم عن سهل بن زياد عن جعفر بن محمد الاشعري عن ابن القداح عن ابي عبدالله عليه السلام قال: كان علي والحسن والحسين عليهما السلام يتختمون في ايسارهم. (الكافي 6: 469|12).
٥. علی العسكري نے اپنی جماعت کے لوگوں سے ٢٦٠ہجری میں کہا کہ ہم تم لوگوں کو پہلے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا حکم دیتے تھے جبکہ ہم یہاں موجود تھے، اب چونکہ ہم مخفی ہورہے ہیں لہذا انگوٹھی بائیں ہاتھ میں پہن لو.
عن الحسن بن علي بن شعبة في “تحف العقول”: عن الحسن بن علي العسكري عليه السلام انه قال لشيعته في سنة ستين ومئتين: امرناكم بالتختم في اليمين ونحن بين ظهرانيك، والآن نأمركم بالتختم في الشمال لغيبتنا عنكم الى ان يظهر الله امرنا وامركم فإنه من ادل دليل عليكم في ولايتنا اهل البيت، فخلعوا خواتيمهم في ايمانهم بين يديه ولبسوها في شمائلهم وقال لهم: حدثوا بهذا شيعتنا.
(تحف العقول: 367).
ان تمام روایات سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ شیعوں کے ہاں بھی انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننے کی کوئی تخصیص نہیں.
البتہ بعض غالی قسم کے شیعہ اس معاملے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم اجمعین کی مخالفت کو بنیاد بناکر داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا کہتے ہیں.
وہ کہتے ہیں کہ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا حضور علیہ السلام کی سنت ہے اور بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا حضرت عمر اور معاویہ رضی اللہ عنہم کی سنت ہے.
يقول الرافضي: التختم باليمين سنة النبي صلی اللہ علیه وسلم، لكن سنة عمر ومعاوية هى التختم باليسار.
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام اور خلفاء داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے، پھر حضرت معاویہ نے اس کو بائیں ہاتھ کی طرف منتقل کیا اور تمام بنوامیہ کے خلفاء کا یہی معمول رہا پھر السفاح العباسی نے اس کو داہنے ہاتھ کی طرف منتقل کیا لیکن پھر ہارون رشید نے اسکو واپس بائیں ہاتھ کی طرف منتقل کیا.
وذكر السلامي ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم كان يتختم في يمينه والخلفاء بعده.
فنفله معاويه الى اليسار، واخذ الامويه بذلك، ثم نقله السفاح الى اليمين فبقى الى ايام الرشيد، فنفله الى اليسار واخذ الناس بذلك.
کیا کسی بدعتی کے کسی عمل کو اختیار کرلینے سے اس سنت عمل کو ترک کردینا چاہیئے:
یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ آپ علیہ السلام اور صحابہ کرام سے داہنے اور بائیں دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہننا ثابت ہے، لہذا اگر کوئی بدعتی اور گمراہ طبقہ کسی سنت کو اپنالے اور اپنا شعار بنالے تو کیا اسکی وجہ سے (باقی لوگوں کو) اس سنت کو ترک کردینا چاہیئے؟
علامہ نووی رحمه اللہ فرماتے ہیں:
انگوٹھی کا داہنے ہاتھ میں پہننا افضل اور بہتر ہے، یہ روافض کا شعار نہیں ہے، اور اگر ہے بھی تو کسی بدعتی فرقے کے عمل کی وجہ سے سنت کو ترک نہیں کیا جائےگا.
• هل تترك السنن النبوية الثابتة، إذا ما عمل بها الروافض؟
○ أجاب على هذا الإمام النووي في رده على صاحب الإبانة من الشافعية في مسألة لبس الخاتم في خنصر اليمنى حيث قال: وقال صاحب الإبانة: في اليسار أفضل؛ لأن اليمين صار شعار الروافض، فربما نسب إليهم.
هذا كلامه، وتابعه عليه صاحب التتمة والبيان.
☆ والصحيح الأول وليس هو في معظم البلدان شعارا لهم، ولو كان شعارا لما تركت اليمين، وكيف تترك السنن لكون طائفة مبتدعة تفعلها …. (المجموع شرح المهذب: 4/462)
ابن عبدالبر رحمه اللہ فرماتے ہیں:
داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا مباح اور اچھا کام ہے اور سلف سے دونوں عمل ثابت ہیں، جیسا کہ آپ علیہ السلام سے دونوں عمل ثابت ہیں.
جب روافض کے ہاں اس کا چرچا ہوا تو بعض علماء نے مکروہ یا حرام کہے بغیر داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کو ناپسند کیا.
قال ابوعمرو ابن عبدالبر: وقد كان التختم في اليمين مباحا حسنا لأنه قد تختم به جماعة من السلف في اليمين كما تختم منهم جماعة في الشمال وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم الوجهان جميعا. فلما غلبت الروافض على التختم في اليمين ولم يخلطوا به غيره كرهه العلماء منابذة لهم وكراهية للتشبه بهم لا أنه حرام ولا أنه مكروه.
فقہ حنفی کی رو سے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا حکم:
فقیہ ابواللیث نے جامع صغیر کی شرح میں دائیں اور بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کو برابر قرار دیا ہے کہ چاہے دائیں ہاتھ میں پہنے یا بائیں میں.
وفی غایة البیان قد سوی الفقیه ابواللیث فی شرح الجامع الصغیر بین الیمین والیسار؛ وهو الحق… الخ.
(شامی زکریا ج۹؍ص۵۱۹؍ کتاب الحظر والاباحة، فصل فی اللبس، حاشیة الشلبی علی الزیلعی ص:۱۶، ج:۶، کتاب الکراہیة، فصل فی اللبس، مطبوعہ امدادیه ملتان، مجمع الانهر ص:۱۹۷، ج:۴، کتاب الکراھیة، فصل فی اللبس، مطبوعہ دارالکتب العلمیة، بیروت)
فتاوی محمودیہ:
فتاوی محمودیہ میں مفتی محمود الحسن صاحب فرماتے ہیں:
انگوٹھی یا گھڑی کس ہاتھ میں پہنے.
سوال: انگوٹھی (انگشتری) اور واچ (گھڑی) سیدھے ہاتھ میں پہننا سنت ہے یا بائیں ہاتھ میں بھی پہن سکتے ہیں؟
الجواب حامدا ومصلیاً:
گھڑی ہاتھ میں پہننے کو سنت کہنا غلط ہے، پھر داہنے اور بائیں کا سوال سنت کی حیثیت سے بےمحل ہے، انگوٹھی (وزن محدود میں) جس ہاتھ میں چاہے پہن سکتا ہے، کوئی قید نہیں۱
فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم.
(حررہ العبد محمود غفرلہٗ)
(دارالعلوم دیوبند ۲۵؍۳؍ ۹۲ھ)
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کا فتوی:
Question: 4644
سوال:
برائے کرم صحیح احادیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ کس ہاتھ اور کس انگلی میں چاندی کی انگوٹھی پہننی چاہیئے؟
Aug 28,2013
Answer: 46445
فتوی: 1121-867/H=10/1434
جواب:
سب سے چھوٹی والی انگلی خواہ داہنے ہاتھ والی میں اور خواہ بائیں ہاتھ والی میں پہنے، دونوں طرح گنجائش ہے.
(فتاوی شامی: ۵/۲۳۰)
اور ترک “تختم” یعنی انگوٹھی پہننے کو ترک کردینا بہتر اور افضل ہے. (وترک التختم….. اھ)
– وفي البستان عن بعض التابعین: لا یتختم إلا ثلثة: أمیر أو کاتب أو أحمق..اھ․ (فتاوی شامي: ۵/۲۳۱، مطبوعہ نعمانیہ) واللہ تعالیٰ اعلم (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
انگوٹھی کونسی انگلی میں پہنی جائے:
• ابن ملقن رحمه اللہ نے بخاری کی شرح میں نقل کیا ہے کہ انگوٹھی شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی میں پہننی چاہیئے.
□ حديثُ التَّختمِ…وفيهِ: في هذِه أو هذِه؛ أی السبابةِ والوسْطَي.
– المحدث: ابن الملقن.
– المصدر: شرح البخاري لابن الملقن.
– الصفحة: 85/28
– خلاصة حكم المحدث: إسناده صحیح.
حضور علیہ السلام کی انگوٹھی بائیں ہاتھ کی چھنگلی انگلی میں تھی.
كان خاتمُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في هذه. وأشار إلى الخِنصرِ من يدِه اليُسرى.
– الراوي: أنس بن مالك.
– المحدث: مسلم.
– المصدر: صحيح مسلم.
– الصفحة أو الرقم: 2095
– خلاصة حكم المحدث: صحيح.
خلاصہ کلام
آپ علیہ السلام اور صحابہ کرام کے عمل سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہننا بلاکراہت درست ہے، لہذا کسی ایک ہاتھ کو کسی کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہوتی، اور اگر کوئی بدعتی فرقہ اس عمل کو اپناتا بھی ہے تب بھی ان کے عمل کی وجہ سے سنت رسول علیہ السلام کو ترک نہیں کیا جائےگا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ