ستر ہزار بار کلمہ پڑھنا
سوال: ستر ہزار(٧٠,٠٠٠) بار کلمہ پڑھنے کی جو فضیلت مختلف کتابوں میں لکھی گئی ہے اس کا حکم اور درجہ کیا ہے؟
الجواب باسمه تعالی
اس سوال کے جواب سے پہلے ایک اصول سمجھ لینا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بہت ساری چیزیں “مجربات” کے نام پر مشہور ہیں، ہماری نظر میں ان مجربات کی چار صورتیں ہیں.
مجربات:
ہمارے ہاں عموما مجرب اعمال کا بہت چرچہ رہتا ہے اور سینہ بہ سینہ مجربات منتقل ہوتے رہتے ہیں.
مجربات چار طرح کے ہیں:
١. وہ عمل جس کی اصل نصوص صحیحہ سے ثابت ہو اور اس کے لئے فضائل بھی صحیح روایات سے ثابت ہوں.
جیسے سورہ بقرہ کے بارے میں روایات سے ثابت ہے کہ یہ سحر اور جنات سے حفاظت کیلئے ہے.
حکم: ان مجربات پر عمل کرنا اور انکو پھیلانا بلاشبہ جائز اور مستحسن ہے.
٢. وہ عمل جو نصوص صحیحہ سے ثابت ہو
جیسے کلمہ “لا اله الا اللہ” کی فضیلت عام ہے کہ یہ افضل ترین عمل ہونے کے ساتھ ہی نجات کا سبب بھی ہے، اور اسکو سو(١٠٠) مرتبہ پڑھنا بھی روایات سے ثابت ہے.
وقد وردت أحاديث كثيرة فيها مثل التهليل والتسبيح والتكبير والتحميد وقول لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير وسبحان الله وبحمده، كل هؤلاء ورد فيهم فضل تكريرها ١٠٠ مرة.
البتہ ان کلمات کے کچھ ایسے فضائل بھی ہیں جو موضوع اور من گھڑت روایات سے نقل کئے گئے ہیں.
جیسے ستر ہزار(٧٠,٠٠٠) مرتبہ کلمہ پڑھنے والی روایت موضوع ہے.
حکم: اس عمل کو کرنا اور پھیلانا درست ہے، لیکن ان موضوع فضائل کا تذکرہ درست نہیں.
لہذا مطلقا کلمہ پڑھا جائے لیکن اس روایت کو فضیلت میں بیان نہ کیا جائے.
٣. وہ اعمال جو نصوص سے تو ثابت نہ ہوں لیکن انکے الفاظ اور معانی درست ہوں.
جیسے “درود تنجینا” کہ یہ الفاظ روایات سے ثابت نہیں لیکن درست ہیں، البتہ فضائل کا بیان درست نہیں.
لیکن اگر کسی کے تجربے کے واقعات ہیں کہ انہیں اس عمل کے کرنے سے یہ فائدہ ہوا تو ایسے واقعات کا تعلق چونکہ مشاہدے سے ہے لہذا اس کا بیان کرنا درست ہے.
حکم: ایسے اعمال کو پڑھنا اور پھیلانا درست ہے، لیکن انکے فضائل کا بیان کرنا درست نہیں.
٤. وہ اعمال جن کی بنیاد ہی من گھڑت روایات پر ہو.
جیسے حرز ابودجانہ.
حکم: ایسے اعمال کا کرنا اور پھیلانا درست نہیں.
ستر ہزار (٧٠,٠٠٠) مرتبہ کلمہ پڑھنے والی روایت کی تحقیق:
١. علامہ ابن تیمیہ رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس مضمون کے بارے میں کوئی صحیح یا ضعیف روایت موجود نہیں.
– هللَّ سبعين ألفَ مرةٍ وأهداه للميتِ يكونُ براءةً للميتِ من النارِ.
– المحدث: ابن تيمية.
– المصدر: مجموع الفتاوى.
– الصفحة أو الرقم: 24/32
– خلاصة حكم المحدث: ليس هذا حديثا صحيحا ولا ضعيفا.
٢. علامہ البانی نے حافظ ابن حجر رحمه اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس روایت کی کوئی صحیح، حسن یا ضعیف سند نہیں، البتہ یہ موضوع اور باطل روایت ہے.
هذا الحديث باطل لا يصح.
قال الشيخ الألباني رحمه الله في سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة (11/465):
«وأما حديث: “من قال لا إله إلا الله سبعين ألفاً؛ فقد اشترى نفسه من الله تعالى”.
فقد قال الحافظ ابن حجر -وقد سئل عنه- : “ليس بصحيح ولا حسن ولا ضعيف، بل هو باطل موضوع، لا تحل روايته إلا مقروناً ببيان حاله”.
اس روایت کا کتب مشائخ میں تذکرہ:
مختلف کتب میں اس روایت کے ضمن میں ایک واقعہ کثرت سے نقل کیا جاتا ہے کہ ایک نوجوان کی والدہ کو جہنم میں ڈالا جارہا تھا کہ اس نوجوان کو کشف ہوا اور وہ رونے لگا تو حاضرین میں سے ایک شخص نے اپنا “ستر ہزار بار کلمے والا” عمل اس کی والدہ کو بخش دیا تو اس نوجوان نے کہا کہ الحمدللہ میری والدہ کی مغفرت ہوگئی.
وذكر الإمام الرافعي أن شابا كان من أهل الكشف ماتت أمه فبكى وصاح فسئل عن ذلك فقال: إن أمي ذهبوا بها إلى النار وكان بعض الأخوان حاضرا فقال: اللهم إني قد هللت سبعين ألف تهليلة وإني أشهدك أني قد أهديتها لأم هذا الشاب؛ فقال: أخرجوا أمي من النار وأدخلوها الجنة. قال المهدي المذكور: فحصل لي صدق الخبر وصدق كشف الشاب.
بہت سارے مشائخ صوفیہ اس عمل کی باقاعدہ وصیت کیا کرتے تھے.
نقله الشيخ محمد بن أحمد نجم الدين الغيطي في “الابتهاج في الكلام على الإسراء والمعراج” (5/1)، ثم علق عليه بقوله: “لكن ينبغي للشخص أن يفعلها اقتداءً بالسلف، وامتثالاً لقول من أوصى بها، وتبركاً بأفعالهم”.
اس عمل کے متعلق مشکل:
تلاش اور جستجو کے بعد جہاں بھی اس عمل کا ثبوت ملا ہے وہیں پر اس عمل کو حدیث کی طرف منسوب کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مشائخ اس روایت کو بنیاد بنا کر اس عمل کا پرچار کیا کرتے تھے.
جیسے شیخ حموی نے اس عمل کو مشائخ کے معمولات میں شمار کیا اور آخر میں فرمایا کہ اس کے بارے میں حدیث بھی وارد ہے.
المحبي الحموي في خلاصة الأثر في ترجمة ابي بكر باعلوي المهدي: وهذا المذكور (التهليل سبعين الفا) تداوله الصوفية قديما وحديثا وأوصى بعضهم بالمحافظة عليه وذكروا أن الله تعالى يعتق به رقبة من أهدى له وأنه ورد في الحديث.
اور جیسے ابن عربی کی طرف بھی اس کی نسبت کی گئی کہ انہوں نے اس کو حدیث کہہ کر بیان کیا ہے.
كذا قال، ويعني بـ(السلف) هنا: مشايخ الصوفية، وبـ(من أوصى بها): ابن عربي -النكرة- ، كما ذكر هو نفسه قبيل الحديث.
خلاصہ کلام
ستر ہزار مرتبہ کلمہ پڑھنے کی روایات سند کے لحاظ سے بلکل بھی درست نہیں ہیں، لہذا اس عمل کو حدیث کہہ کر بیان کرنا جائز نہیں.
البتہ اگر کوئی شخص کسی خاص تعداد اور کسی خاص فضیلت کو بیان کئے بغیر اس کلمے کے کثرت سے ورد کرنے پر نجات کے حاصل ہونے کو بیان کرے تو یقینا یہ کلمہ افضل ترین کلمات میں سے ہے اور اس کے عمومی فضائل بےشمار ہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ