ابوطالب کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانا
سوال :اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے :حضرت صادق سے منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو چند روز تک آپ کی والدہ کے دودھ نہ اترا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوش فرماتے۔ تو ابوطالب نے انکا منہ اپنے چھاتی سے لگادیا تو اللہ تعالی نے اس میں دودھ پیدا کردیا. (حیات القلوب جلد:2، ص:139 .(کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، اس کی تحقیق کیلئے اہل سنت کی کتابوں کے بجائے اگر اہل تشیع کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے خود اس روایت کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے.
اس روایت کی سند:
یہ روایت دراصل (الکافی جلد:1) سے نقل کی گئی ہے جس کی سند درج ذیل ہے:
محمد ابن یحیی عن سعد ابن عبداللہ عن ابراہیم ابن محمد الثفی عن علی ابن معلی عن اخیه محمد عن درست ابن ابی منصور عن علی ابن ابی حمزہ عن ابی بصیر عن ابی عبداللہ علیہ السلام.
☆یہ روایت سخت ضعیف ہے.
اس کو ضعیف کہنے والوں میں سے چند علماء کے نام درج ذیل ہیں:
١۔ علامہ مجلسی نے مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول (جلد:5، ص:253) مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ طہران.
٢۔ شیخ شعرانی نے شرح اصول کافی (جلد:7، ص:181) میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد حاشیہ پر لکھا کہ اس کا راوی علی ابن ابی حمزہ ملعون متھم بالكذب ہے۔
٣۔ علامہ علی غفاری رحمه الله نے اس روایت کو اپنی تحقیق میں الکافی کے حاشیہ پر اس روایت کے راوی علی ابن ابی حمزہ کو ملعون اور جھوٹا کہا.
اس روایت میں علی ابن ابی حمزہ نامی راوی کے جھوٹا ہونے کے علاوہ کچھ اور بھی رواۃ مجاہیل میں سے ہیں، جیسے: علی ابن معلی اور اس کا بھائی ۔
چنانچہ شیخ جواہری نے علی ابن ابی معلی کو مجہول لکھا ہے (المفید من معجم الرجال الحدیث ص:414، راوی:8524 مطبوعہ مؤسة التاریخ العربی بیروت(
☆ان تمام حوالوں سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ یہ روایت خود شیعہ حضرات کے نزدیک بھی من گھڑت اور ناقابل اعتبار ہے.
اس طرح کی روایات کا مقصد:
اس طرح کی روایات کا مقصد ابوطالب کیلئے ایسی فضیلت کا ثابت کرنا ہے کہ جس کے ذریعے ابوطالب کو مسلمان ثابت کیا جائے کہ دیکھو جس شخص کا دودھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں داخل ہو وہ جہنمی کیسے ہوسکتا ہے.
اس طرح کی من گھڑت اور لایعنی قسم کی روایات پر حافظ ابن حجر رحمه اللہ نے تفصیلی کلام فرمایا ہے.
کیا ابوطالب مسلمان ہوئے تھے؟
صحیح اور مستند روایات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ابوطالب کی موت حالت کفر میں ہی ہوئی تھی اور موت کے بعد زندہ کرکے مسلمان ہونے والی بات بےاصل اور بےدلیل ہے.
●دلیل نمبر ١:
روى البخاري ومسلم وأحمد والترمذي والنسائي عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: لما حضرت وفاة أبي طالب أتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: “يا عماه! قل لا إله إلا الله، أشهد لك بها يوم القيامة”، فقال: لولا أن تعيرني قريش يقولون: ما حمله عليه إلا جزع الموت، لأقررت بها عينك، ولا أقولها إلا لأقر بها عينك، فأنزل الله عزوجل: {إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء وهو أعلم بالمهتدين}.
یہ روایت صحاح کی تمام کتب میں موجود ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت اپنے چچا سے کلمہ پڑھنے کا مطالبہ کیا تو ابوطالب نے اپنے باپ دادا کے دین پر قائم رہنے کو ہی پسند کیا اور آیات مقدسہ میں آپ علیہ السلام کو استغفار سے بھی منع کیا گیا.
● دلیل نمبر٢:
عبداللہ بن عباس، ابن عمر، مجاہد، شعبی اور قتادہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قول ہے کہ یہ آیت: {انك لا تهدی من احببت ولکن الله یهدی من یشاء} أبوطالب کے بارے میں ہی نازل ہوئی کہ اللہ کے رسول نے ان پر اسلام کو پیش کیا اور ابوطالب نے انکار کیا.
وهكذا قال عبدالله بن عباس وابن عمر ومجاهد والشعبي وقتادة: إنها نزلت في أبي طالب، حين عرض عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقول: لا إله إلا الله.
●دلیل نمبر٣:
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کے چچا آپ کیلئے لوگوں سے لڑتے تھے اور آپ کی حفاظت کرتے تھے تو آپ کی ذات سے اس کو کیا نفع ہوگا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ جہنم کے کنارے پر ہوگا، اور اگر میں نہ ہوتا (یعنی میری شفاعت نہ ہوتی) تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتا.
روی البخاري من حديث عباس بن عبدالمطلب أنه قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: ما أغنيت عن عمك، فإنه كان يحوطك ويغضب لك قال: “هو في ضحضاح من نار، ولولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار”.
●دلیل نمبر ٤:
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ میری شفاعت سے اس کو جہنم کے کنارے پر اتنی آگ میں ڈالا جائےگا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچےگی جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا.
وروى مسلم في صحيحه عن أبي سعيد أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم ذكر عنده عمه فقال: “لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة فيجعل في ضحضاح من نار يبلغ كعبيه يغلي منه دماغه”. وفي رواية: “تغلي منه أم دماغه”.
●دلیل نمبر ٥:
مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے کہ جہنم میں سب سے کم ترین عذاب ابوطالب کو ہوگا کہ اس کو آگ کے دو جوتے پہنائے جائینگے جس سے اس کا دماغ کھول اٹھےگا.
وروى مسلم من حديث ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “أهون أهل النار عذاباً أبوطالب، وهو منتعل بنعلين يغلي منهما دماغه”.
● دلیل نمبر٦:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ علیہ السلام کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ کے چچا ابوطالب گمراہ کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اس کو دفن کرو، اسکے بعد کچھ بھی کرنے سے قبل میرے پاس آجاؤ. میں واپس آیا تو آپ نے مجھے غسل کا حکم دیا اور میرے لئے دعا فرمائی.
قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: إن عمك الشيخ الضال قد مات، قال: اذهب فوار أباك ثم لا تحدثن شيئا حتى تأتيني، فذهبت فواريته وجئته فأمرني فاغتسلت ودعا لي.
– الراوي: علي بن أبي طالب.
– المحدث: أبوداود.
– المصدر: سنن أبي داود.
– الصفحة أو الرقم: 3214.
– خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة: كل ما سكت عنه فهو صالح
ابوطالب کو مسلمان کہنے والوں کی دلیل:
روافض نے ابوطالب کو مسلمان ثابت کرنے کیلئے بہت سی باتیں مشہور کی ہیں اور بہت سے دلائل بیان کئے گئے ہیں لیکن وہ سب یا تو غلط تاویلات یا غلط روایات کی بنیاد پر ہیں.
☆ البتہ اس میں ایک علمی سوال ہے:
سوال: اگر ابوطالب کافر تھے تو فاطمہ بنت اسد (جو کہ ایک مسلمان صحابیہ تھیں ان) کو ابوطالب کے نکاح میں کیوں رہنے دیا گیا؟
جواب :ابوطالب کا انتقال ہجرت سے تین سال قبل عام الحزن کو ہوا اور مسلمان عورتوں کو کافر شوہروں سے الگ ہونے کا حکم صلح حدیبیہ کے موقع پر چھ ہجری میں نازل ہوا، لہذا اس سے قبل تفریق کا سوال بےبنیاد ہے.
وأما سماحه صلى الله عليه وسلم ببقاء فاطمة بنت أسد في عصمة أبي طالب، فإن ذلك كان قبل تحريم بقاء المؤمنات تحت الكفار، لأن أباطالب مات عام الحزن، وهو قبل الهجرة بثلاث سنين، وتحريم بقاء المؤمنات في عصم الكفار نزل في صلح الحديبية عام ستة من الهجرة.
أخرج الشيخان عن المسور ومروان بن الحكم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما عاهد كفار قريش يوم الحديبية جاءت نساء من المؤمنات، فأنزل الله: {ياأيها الذين أمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات…} إلى قوله تعالى: {… ولا تمسكوا بعصم الكوافر{.
وأخرج الواحدي عن ابن عباس قال: إن مشركي مكة صالحوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية على أن من أتاه من أهل مكة رده إليهم، ومن أتى من أهل مكة من أصحابه فهو لهم، وكتبوا بذلك كتاباً وختموه، فجاءت سبيعة بنت الحارث الأسلمية بعد الفراغ من الكتاب، والنبي صلى الله عليه وسلم بالحديبية، فأقبل زوجها وكان كافراً، فقال: يامحمد! رد علي امرأتي، فإنك قد شرطت علينا أن ترد علينا من أتاك منا، وهذه طينة الكتاب لم تجف بعد، فأنزل الله هذه الآية.
فوفاة أبي طالب، ونزول تحريم بقاء المؤمنات في عصم الكفار بينهما تسع سنين… والعلم عند الله تعالى.
خلاصہ کلام
اس طرح کی تمام روایات من گھڑت ہیں جن میں ابوطالب کا مسلمان ہونا مذکور ہے یا اس کی کسی ایسی فضیلت کا تذکرہ ہے کہ جس سے ان کا جنت میں داخل ہونا ثابت ہوجائے، یہ تمام روایات روافض کی من گھڑت روایات ہیں، لہذا نہ ان پر اعتماد کیا جائے اور نہ انکو بیان کیا جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ