تنبیہ نمبر82

غار ثور میں پیش آنے والے واقعات کی تحقیق

سوال :سنا ہے کہ ہجرت کے وقت جب آپ علیہ السلام اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار ثور کی طرف گئے تو راستے میں ابوبکر صدیق آپ علیہ السلام کے آگے پیچھے چلتے تھے اور جب آپ علیہ السلام تھک گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ السلام کو کندھے پر اٹھالیا اور جب غار میں گئے تو ابوبکر صدیق نے غار کے تمام سوراخ بند کئے،  البتہ کپڑا ختم ہوجانے کی وجہ سے ایک سوراخ بند نہ کرسکے اور اس میں اپنا انگوٹھا رکھ دیا،  وہاں ایک سانپ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے سے حضور علیہ السلام کے دیدار کیلئے بیٹھا ہوا تھا،  جب ابوبکر صدیق نے اپنا انگوٹھا رکھا تو اس سانپ کو دیدار کا موقعہ نہ مل رہا تھا تو اس سانپ نے ابوبکر صدیق کے انگوٹھے کو ڈس لیا جس کی وجہ سے ابوبکر صدیق کی آنکھوں سے آنسو نکل کر حضور علیہ السلام کے چہرے مبارک پر گرے کیونکہ آپ علیہ السلام ابوبکر صدیق کی گود میں آرام فرمارہے تھے  .جب آپ علیہ السلام نے ابوبکر صدیق کو اس حال میں دیکھا تو دریافت فرمایا: کیا ہوا؟  تو ابوبکر صدیق نے صورتحال بتائی تو آپ علیہ السلام نے اپنا تھوک ابوبکر صدیق کے انگوٹھے پر لگایا جس سے ان کا انگوٹھا ٹھیک ہوگیا.
نیز غار پر مکڑی نے جالا بنایا اور کبوتر نے انڈے دیئے اور مشرکین میں سے ایک شخص نے غار میں پیشاب کیا…
کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی

واضح رہے کہ غار ثور میں آپ علیہ السلام اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تین دن ٹھہرنا تو صحیح احادیث سے ثابت ہے،  لیکن اس واقعے کی تفصیلات میں بہت سی چیزیں وضاحت کی محتاج ہیں،  لہذا ان تمام امور کو نمبروار واضح کیا جاتا ہے:

١ . حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضور علیہ السلام کے آگے پیچھے چلنا.

٢  .غار میں چھ سو سال سے سانپ کا انتظار.

٣ . سانپ کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ڈسنا.

٤ . غار پر مکڑی کا جالا بننا.

٥ . کبوتر کا انڈے دینا.

٦ . مشرک کا غار کی طرف پیشاب کرنا.

١  . ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غار سے باہر اور غار کے اندر معاملہ کرنا:

ایسی روایات جن میں سانپ کا ڈسنا اور حضور علیہ السلام کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ران پر سونا اور ابوبکر صدیق کے آنسو سے جاگنا، یہ روایات مختلف کتابوں میں منقول ہیں،  جیسے:  فیض القدیر،  کنزالعمال،  درمنثور،  ابن کثیر کی البدایہ والنہایہ،  اور امام بیهقی نے دلائل نبوت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ

 ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ راستے میں کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کبھی پیچھے کبھی دائیں کبھی بائیں چلتے تھے اور جب آپ علیہ السلام تھک گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے کندھے پر اٹھالیا اور جب غار میں داخل ہوئے تو سارے سوراخوں کو بند کیا، البتہ ایک سوراخ باقی بچا تو اس میں اپنا انگوٹھا رکھ دیا اور سانپ آپ کے انگوٹھے کو ڈسنے لگے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ابوبکر! غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہیں.

فقصة لدغ الحية لأبي بكر رضي الله عنه في الغار ذكرها المناوي في”فيض القدير” دون ذكر سند، وأوردها علاءالدين في “كنزالعمال” أيضا، وكذا السيوطي في “الدرالمنثور”، وابن كثير في “البداية والنهاية” وقال: أخرج البيهقي في الدلائل عن عمر: أن أبابكر جعل يمشي بين يدي رسول الله تارة وخلفه أخرى وعن يمينه وعن شماله، وفيه أنه لما حفيت رجلا رسول الله حمله الصديق على كاهله، وأنه لما دخل الغار سد تلك الأجحرة كلها وبقي منها جحر واحد فألقمه كعبه فجعلت الأفاعي تنهشه ودموعه تسيل، فقال له رسول الله: لا تحزن إن الله معنا.
ان روایات کی اسنادی حیثیت:

١. علامہ ابن کثیر نے ان روایات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ مضمون کافی عجیب و غریب ہے،  اس روایت کو ایک اور جگہ أبونعیم اصبہانی کے حوالے سے نقل کرکے فرمایا کہ اس کی سند میں دونوں طرف سے انقطاع پایا جارہا ہے.

قال ابن كثير: وفي هذا السياق غرابة ونكارة.
أخرجها أبونعيم الاصبهاني في حلية الأولياء (1/22) عن عبدالله بن محمد بن جعفر عن محمد بن العباس بن أيوب عن أحمد بن محمد بن حبيب المؤدب عن أبي معاوية عن هلال بن عبدالرحمن عن عطاء بن أبي ميمونة أبي معاذ عن أنس بن مالك قال: لما كان ليلة الغار، قال أبوبكر: يارسول الله! دعني فلأدخل قبلك….. الخ
فرفع النبي صلى الله عليه وسلم يده فقال: اللهم اجعل أبابكر معي في درجتي يوم القيامة. فأوحى الله تعالى إليه: إن الله قد استجاب لك.
وذكره ابن كثير في تاريخه (3:179) فقال: فيه انقطاع من طرفيه.

اس روایت میں یہ دعا بھی ہے کہ آپ علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ:  یااللہ! قیامت کے دن ابوبکر کا مقام میرے مقام کے ساتھ رکھنا.

٢ . امام ذہبی نے اس واقعے کو “سیر اعلام النبلاء” میں ذکر کرنے بعد فرمایا کہ یہ واقعہ سند کے لحاظ سے منکر ہے،  اسی لئے امام بیهقی نے اس واقعہ کو ذکر کرکے کوئی حکم نہیں لگایا،  اور اس سند کی مصیبت “یحی بن ابی طالب”  ہے جو مجہول اور غیر ثقہ ہے.

فقصة تعرض أبي بكر للدغ حية له أثناء مرافقته رسول الله صلى الله عليه وسلم في غار ثور أثناء هجرته قصة مشهورة، ذكرها أهل السير والتراجم: وممن ذكرها الخطيب في مشكاة المصابيح في باب مناقب أبي بكر رضي الله عنه، وذكرها الحافظ الذهبي في سير أعلام النبلاء، وقال بعد ذكر الرواية: وهو منكر سكت عنه البيهقي وساقه من حديث يحيى بن أبي طالب (وذكر السند) ثم قال: وآفته من هذا الراسبي فإنه ليس بثقة مع كونه مجهولاً ذكره الخطيب في تاريخه فغمزه.
٣. ابونعیم اصبہانی والی روایت:

اس روایت میں

عبداللہ بن محمد بن جعفر نامی ایک راوی ہے:

وإسناد أبي نعيم المذكور لا يعول عليه لمكان عبدالله بن محمد بن جعفر.
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:

١. ابن یونس فرماتے ہیں کہ آخری عمر میں ان کی دماغی کیفیت ٹھیک نہیں رہی اور بہت سی روایات وضع کیں.

قال ابن يونس: خلط في الآخر، ووضع أحاديث على متون معروفة، وزاد في نسخ مشهورة فافتضح وحرقت الكتب في وجهه.

٢. امام حاکم نے دارقطنی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے، اس نے سنن شافعی کے نام سے ایک کتاب لکھی اور اس میں دو سو ایسی روایات ذکر کیں جو امام شافعی نے بیان نہیں کی تھیں.

وقال الحاكم عن الدارقطني: كذاب، ألف كتاب سنن الشافعي وفيها نحو مائتي حديث لم يحدث بها الشافعي.

٣. دارقطنی کہتے ہیں کہ عمرو بن حارث کے نسخے میں اس نے سو(١٠٠) احادیث کا اپنی طرف سے اضافہ کیا.

وقال الدارقطني: وضع في نسخة عمرو بن الحارث أكثر من مائة حديث.

٤. علی بن رزیق نے بھی اس پر الزام لگایا کہ یہ روایات گھڑتا تھا.

وقال علي بن رزيق: كان إذا حدث يقول: لأبي جعفر ابن البرقي في حديث بعد حديث: كتبت هذا عن أحد. فكان يقول: نعم عن فلان وفلان، فاتهمه الناس بأنه يفتعل الأحاديث، ويدعيها ابن البرقي كعادته في الكذب. قال: وكان يصحف أسماء الشيوخ.
٥. عبداللہ بن محمد بن جعفر کا انتقال 315 میں ہوا اور ابونعیم کی پیدائش 336 میں ہوئی، لہذا ان دونوں کی ملاقات ممکن نہیں.

لہذا اس روایت کا انقطاع واضح ہے.

ان عبدالله بن محمد توفي سنة 315 (كما في لسان الميزان) فلا تتم رواية أبي نعيم عنه وهو من مواليد 336.
محمد بن العباس بن ایوب بن اخزم:

اس راوی کو بھی انتقال سے پہلے اختلاط ہوگیا تھا، لہٰذا اس کی روایات جب تک واضح نہ ہوں اس پر اعتبار کرنا ممکن نہیں.

محمد بن العباس بن أيوب الحافظ الشهير بابن الاخزم، قال أبونعيم نفسه:
اختلط قبل موته بسنة (كما في لسان الميزان 5/216) ولما لم يعلم تاريخ صدور الرواية منه أهو قبل الاختلاط أم بعده؟
)إن لم تعد الرواية من بينات الاختلاط) سقطت عن الاعتبار كما هو الشأن في رواية كل من اختلط.
ابومعاویہ محمد بن خازم:

یہ راوی مرجئہ کے بڑوں میں سے ہے.

أبومعاوية محمد بن خازم، مرجئ مدلس رئيس المرجئة بالكوفة. (كما في تهذيب التهذيب: 9/139(.
ہلال بن عبدالرحمن:

اس کے بارے میں

   امام عقیلی نے فرمایا کہ اس کی روایات منکر ہوتی ہیں، نہ ان روایات کی کوئی اصل ہوتی ہے اور نہ کوئی متابعت.

   امام ذہبی نے فرمایا کہ اس کی روایات پر ضعف اتنا غالب ہوتا ہے کہ اس کی روایات کا ترک کرنا ہی بہتر ہے.

هلال بن عبدالرحمن:
   قال العقيلي: منكر الحديث، وقال بعد ما ذكر له أحاديث: كل هذه مناكير لا أصول لها ولا يتابع عليها.
   وقال الذهبي: الضعف على أحاديثه لائح فليترك. (لسان الميزان: 6/202(.
عطاء بن ابی میمون:

یہ راوی قدری ہے، اس کی روایات قابل اعتبار نہیں.

عطاء بن أبي ميمون: ثقة صالح قدري لا يحتج بحديثه.(راجع”تهذيب التهذيب”7: 215(

اس واقعے کی کمزوری کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ امام سیوطی نے “خصائص کبری” نامی کتاب میں بہت سی کمزور روایات ذکر کرنے کے باوجود اس روایت کو ذکر کرنے سے گریز کیا.

ولما لم يصح شئ من أسانيد الرواية ومتونها لم يوعز إليها السيوطي في الخصائص الكبرى في باب ما وقع في الهجرة النبوية من الآيات والمعجزات، وقد ذكر فيه أحاديث ضعيفة مع النص على ضعفها.

سیرت کی مشہور اور معتبر کتب میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضور علیہ السلام سے پہلے غار میں داخل ہونا ثابت ہے،  لیکن اس سے زائد تمام باتیں کسی بھی معتبر کتاب میں موجود نہیں.

   وهكذا لم يذكرها أحد ممن ألف في أعلام النبوة ومعاجز النبي الأعظم.
   إن الأصول القديمة في القرون الأولى لا يوجد فيها إلا أن أبابكر دخل الغار قبل  النبي صلى الله عليه وآله وسلم لينظر أفيه سبع أو حية…(كما في سيرة ابن هشام(

امام حاکم رحمه اللہ نے بھی جب اس واقعے کو ذکر کیا تو اسی قدر حصے پر اکتفاء فرمایا، اس لئے کہ اس میں صرف اتنی مقدار ہی سند کے لحاظ سے درست ہے، باقی حصے کی سند کا حال معلوم ہوچکا.

v   ولم يصح عند الحاكم من القصة إلا هذا المقدار كما سمعت، ولو صح شيء زائد على هذا لما فاتته.

  اس روایت میں یہ تمام اضافے چوتھی صدی میں کئے گئے.

v   وزيدت في القرن الرابع قصة الثوب وبقاء جحر واتكاء أبي بكر عليه بعقبه ودعاء النبي صلى الله عليه وآله وسلم له لاتقائه عنه صلى الله عليه وآله وسلم بثوبه عن لدغ الحشرات المزعومة.

اس روایت میں محب طبری نے کپڑے پھاڑنے اور حضور علیہ السلام کی دعا کا اضافہ کیا ہے.

یہ محب طبری موضوع روایات جمع کرنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے.

v   وجددت النغمات في قرن المحب الطبري المتخصص الفنان في رواية الموضوعات وجمع شتاتها، فجاء في روايته ما سمعت غير أن ألفاظه مع وجازته مضطربة جدا لا يلتئم شيء منها مع الآخر.

پھر حلبی نے اپنی کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گود میں سونے کو ذکر کیا.

ثم جاء الحلبي فذکر نوم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورأسه في حجر أبي بكر، وسقى وجه رسوله الكريم بدموع أبي بكر المتساقطة من الألم.

یہ تمام اضافے کسی بھی ایسی سند سے ثابت نہیں جس پر اعتماد اور اعتبار کیا جاسکے، البتہ جن اسانید سے ثابت ہیں ان کا حال معلوم ہوچکا.

 ☆ روایات کی تحقیق کرنے والے ایک مستند ادارے سے جب اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا جواب بھی یہی تھا کہ ہمیں اس واقعے کی کوئی معتبر سند نہیں مل سکی.

ولم نقف (فيما اطلعنا عليه) على من ذكر تلك القصة بسند صحيح أو مقبول.
وقد ثبت في فضل أبي بكر رضي الله عنه وحسن صحبته للرسول صلى الله عليه وسلم في الغار وغيره بالأسانيد الصحيحة ما فيه غنية عن ذلك.
خلاصہ کلام

اس پوری بحث سے اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ غار کے اندر سانپ کا وجود اور سانپ کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ڈسنا کسی بھی مستند روایت سے ثابت نہیں، لہذا اس کو روایات کی طرف منسوب کرنا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں