ہرنی کی درخواست
سوال: ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک سفر میں آپ علیہ السلام کے ساتھیوں نے ایک ہرنی پکڑی، جب آپ علیہ السلام کا گذر اس ہرنی پر ہوا تو اس نے درخواست کی کہ یارسول الله! میرے بچے بھوکے ہیں، آپ علیہ السلام مجھے اجازت دیں تو میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاونگی. آپ علیہ السلام نے اس کو چھوڑ دیا، وہ گئی اور کچھ دیر کے بعد واپس آگئی. آپ علیہ السلام نے اس شخص سے اس ہرنی کی قیمت معلوم کی تو اس دیہاتی نے وہ ہرنی آپ علیہ السلام کو ہدیہ دےدی اور آپ علیہ السلام نے اس کو آزاد کردیا. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ خدا کی قسم وہ ہرنی دوڑتی جارہی تھی اور کلمہ شہادت پڑھتی جارہی تھی. اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ سیرت کی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، لیکن اس واقعے کی کوئی صحیح یا ضعیف قابل اعتماد سند نہیں جس کی بنیاد پر اس واقعے کو ثابت مانا جاسکے، بلکہ تمام محدثین نے اس واقعے پر بہت سخت کلام کیا ہے.
اس واقعے کی اسنادی حیثیت:
١. علامہ ابن کثیر رحمه اللہ اس واقعے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اگرچہ مشہور ہے لیکن صحاح ستہ میں موجود نہیں.
ابن كثير عن حديث تسليم الغزالة: هو حديث مشهور عند الناس، وليس هو في شيء من الكتب الستة.
اس واقعہ کو ” ابونعیم الاصبہانی ” نے نقل کیا ہے لیکن وہ انتہائی کمزور ہے.
وقد رواه الحافظ أبونعيم الأصبهاني من حديث عمرو بن علي الفلاس ثنا يعلى بن إبراهيم الغزال ثنا الهيثم بن جماز عن أبي كثير عن زيد بن أرقم قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في بعض سكك المدينة، فَمَرَرْنا بِخِباء أعرابي فإذا ظبية مَشدودة إلى الخباء، فقالت: يارسول الله! إن هذا الأعرابي صادني ولي خشفان في البرية، وقد تَعَقّد هذا اللبن في اخلافي، فلا هو يذبحني فاستريح، ولا يدعني فأرجع الى خِشفيّ في البرية، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن تركتك ترجعين؟ قالت: نعم، وإلا عَذّبني الله عَذَاب العَشّار، فأطلقها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم تلبث أن جاءت تَلَمّظ فَشَدّها رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الخباء، وأقبل الأعرابي ومعه قِربه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتبيعها مني؟ فقال: هي لك يارسول الله. قال: فأطلقها رسول الله صلى الله عليه وسلم.
قال زيد بن أرقم: وأنا والله رأيتها تسيح في البر، وهي تقول: لا إله إلا الله محمد رسول الله.
روایت کی سند پر کلام:
● پہلی سند کی حیثیت:
علامہ ابن کثیر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا متن کافی عجیب و غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے.
١. یعلی بن إبراهيم الغزال مجہول ہے.
٢. الہیثم بن جماز کے بارے میں یحيی بن معین کہتے ہیں لیس بشئ.
امام أحمد بن حنبل اور امام نسائی فرماتے ہیں کہ ہیثم متروک الحدیث ہے.
○ هذا الحديث في مَتْنه نَكَارة.
– وسَنَده ضعيف، فإن شيخ الفلاّس يَعْلى بن إبراهيم الغزال لا يُعْرَف.
– وشيخه الهيثم بن جماز:
◇ قال يحیي بن معين: ليس بشىء.
◇ وقال مَرّة: ضعيف.
◇ وقال أحمد بن حنبل والنسائي: متروك الحديث.
٢. اس روایت کی دوسری سند ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے.
أخرجه الطبراني في “المعجم الكبير” (23/331، ح:763):
عن أم سلمة قالت: كان رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم في الصحراء، فإذا منادٍ يناديه: يارسولَ الله! فالتفت، فلم يَرَ أحدًا، ثم التفتَ فإذا ظبية موثقة، فقالت: ادنُ مني يارسولَ اللهِ!……الخ
● اس سند کی حیثیت:
اس روایت کی سند میں اغلب بن تمیم ہے جس کو امام بخاری نے منکر الحدیث قرار دیا ہے.
في إسناده أغلب بن تميم:
قال عنه الذهبي في “المُغني في الضعفاء” (1/93) ترجمة (778:
قال البخاري: مُنكَر الحديث.
وقال الذهبي رحمه الله في (ميزان الاعتدال: 1/6) ترجمة(3): ونقَل ابن القطان أنَّ البخاري قال: كلُّ مَن قُلتُ فيه: مُنكر الحديث: فلا تحلُّ الرواية عنه.
٣. اس روایت کی تیسری سند انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے.
٣- حديث أنس بن مالك رضي الله عنه:
أخرَجه الطبراني في (المعُجم الأوسط) (6/21) ح (5547): عن أنس بن مالك قال: مرَّ رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم…..الخ
● اس سند کی حیثیت:
١) اس سند میں ایک راوی صالح بن بشیر المری ہے جس کو امام ابوداؤد اور نسائی نے متروک قرار دیا ہے.
قُلت: وصالح هو ابن بشير المري، تركه النسائي وأبوداود، وهو مُتَّفق على ضعْفه.
١١) دوسرا راوی عبدالکریم بن ہلال ہے، امام ذہبی رحمه اللہ نے اس راوی کو مجہول قرار دیا ہے.
وعبدالكريم بن هلال، قال عنه الذهبي رحمه الله في “المغني في الضعفاء” (2/402) ترجمة (3786): لا يُدرَى مَن هو. (قاله الأزدي).
٤. اس روایت کی چوتھی سند ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے.
أخرجه البيهقي في “دلائل النبوة” (6/34):
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: مرَّ رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم بظبية مربوطة إلى خبراء…..الخ
● اس سند کی حیثیت:
اس سند میں عطیہ العوفي مشہور شیعہ راوی ہے، اسکی روایات اگرچہ ترمذی شریف میں بھی ہیں لیکن محدثین کا اس راوی کے ضعف پر اتفاق ہے.
قُلت: فيه *عطية*ُ، وهو ابن سعد العوفي.
قال الحافظ الذهبي رحمه الله في “ميزان الاعتدال” (2/436) ترجمة (4139): *مُجمَع على ضعْفه.*
محدثین کرام کا اس واقعے پر تبصرہ:
١. ملا علی قاری رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ ہرنی والا واقعہ اگرچہ مشہور ہوا ہے لیکن اس کی کوئی اصل نہیں.
قال العلامة ملا علي القاري: حديث تسليم الغزالة اشتهر على الألسنة وفي المدائح النبوية.
قال ابن كثير: ليس له أصل ومن نسبه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقد كذب. (المصنوع في معرفة الحديث الموضوع، ص:80).
٢. حافظ ابن حجر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس واقعے کی کوئی سند قوی یا ضعیف نہیں ہے (یعنی تمام اسناد ضعیف کے درجے سے بھی کم ہیں).
وقال الحافظ ابن حجر: وأما تسليم الغزالة فلم نجد له إسناداً؛ لا من وجه قوي ولا من وجه ضعيف… والله أعلم. (فتح الباري 7/404).
٣. ایک اور مقام پر اس واقعے پر کلام کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بارے کوئی مستند بات موجود نہیں اور جتنے سند ہیں سب ہی بہت کمزور ہیں اور ایسا ہی واقعہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں بھی مشہور ہے.
وقد تكلم الحافظ ابن حجر بالتفصيل على هذه القصة وذكر عدة روايات لها في كتابه ”تخريج أحاديث مختصر ابن الحاجب” فقال: وأما تسليم الغزالة فمشتهر على الألسنة وفي المدائح النبوية ولم أقف لخصوص السلام على سند، وإنما ورد الكلام في الجملة. وبالسند الماضي إلى الـبـيهقي قال: باب كلام الظبية إن صح الخبر. ثم ذكر أن هذه القصة وردت منسوبة إلى عيسى عليه السلام. ثم قال الحافظ ابن حجر: وقد ورد كلام الظبية من طرق أخرى أشد وهاءً من الأول. (انظر تخريج أحاديث مختصر ابن الحاجب 1/245-246).
٤. علامہ ذہبی نے اس قصے کو باطل قرار دیا ہے اور ابن حجر نے بھی اس کو باطل ہی قرار دیا ہے.
الحافظ الذهبي ذكره في ميزان الاعتدال وأشار إلى أنه خبر باطل. (ميزان الاعتدال: 4/456).
وقد ذكر الحافظ ابن حجر أن هذا الـحـديـث بـاطـل موضوع. (”لسان الميزان” 6/311).
٥. علامہ سخاوی نے اس واقعے کے متعلق فرمایا کہ یہ مشہور ضرور ہے لیکن جھوٹا واقعہ ہے.
وقال العلامة السخاوي: حديث تسليم الغزالة الذي اشتهر على الألسنة وفي المدائح النبوية وليس له أصل كما قال ابن كثير، ومن نسبه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقد كذب. (المقاصد الحسنة، ص: 156).
٦. شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے ان تمام محدثین کے اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اگرچہ اس واقعے کے متعدد طرق ہیں لیکن یہ سب ناقابل اعتبار ہیں اور اس واقعے کی سند اور اس کا متن دونوں قابل اعتماد نہیں.
وذكر الشيخ عبدالفتاح أبوغدة يرحمه الله كلام الحافظ ابن حجر والسخاوي وابن كثير وذكر أن للقصة روايات متعددة. ثم قال الشيخ أبوغدة: هي أحاديث ضعيفة واهية لا يصح الاعتماد عليها في إثبات ما هو خرق للعادة. . (المصنوع في معرفة الحديث الموضوع، ص:88)
خلاصہ کلام
یہ واقعہ باوجود اپنی شہرت کے اس قابل نہیں کہ اس کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاسکے، لہذا اس کے بیان کرنے میں احتیاط کی جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ