نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر
سوال: ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص اللہ کے خوف کی وجہ سے اس کو جھکا دےگا وہ چالیس دن تک ایمان کی حلاوت محسوس کرےگا. اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے. .
الجواب باسمه تعالی
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف کتابوں میں منقول ہے، لیکن سند کے لحاظ سے ان میں سے کوئی بھی روایت قابل اعتماد درجے کی نہیں ہے.
١. اس روایت کی پہلی سند اور متن:
یہ روایت امام حاکم اور طبرانی نے نقل کی ہے: حدیث قدسی میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ نظر شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے میں اس کو ایسا ایمان نصیب کرونگا جس کی حلاوت کو وہ محسوس کرےگا.
“إِنَّ النَّظْرَةَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ إِبْلِيسَ مَسْمُومٌ، مَنْ تَرَكَهَا من مَخَافَتِي أَبْدَلْتُهُ إِيمَانًا يَجِدُ حَلاوَتَهُ فِي قَلْبِهِ”.
رواه الحاكم، والطبراني، وهو معدود في الأحاديث القدسية، فقد عده منها المناوي في كتابه “الإتحافات السنية بالأحاديث القدسية”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں دو راوی ہیں
(١) عبدالرحمن الواسطی:
اس راوی کے متعلق ائمہ حدیث کے اقوال کافی سخت ہیں:
١. علامہ ہیثمی نے اسکو مطلقا ضعیف کہا ہے.
وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد (8/63) وقال: رواه الطبراني، وفيه عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي ضعيف.
٢. امام أحمد بن حنبل کا قول اس کے بارے میں یہ ہے کہ “لیس بشئ” یعنی کہ یہ راوی کچھ بھی نہیں اور منکر الحدیث ہے.
أقول: وقال أحمد: ليس شيء، منكر الحديث.
٣. امام ابوحاتم نے بھی اسکو منکر الحدیث قرار دیا ہے.
وقال أبوحاتم: منكر الحديث. والحديث ضعيف.
٤. امام بخاری نے بھی اس کی روایت کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِاللهِ: عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ الَّذِي يَرْوِي عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ؟ فَقَالَ: لَا، هَذَا وَاسِطِيٌّ رَوَى عَنْهُ ابْنُ إِدْرِيسَ وَعَبْدُالْوَاحِدِ، مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
٥. یہ راوی قابل احتجاج نہیں ہے.
يكتب حديثه ولا يحتج به.
(١١) اسحاق بن عبدالقرشي:
اس کے متعلق امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بیکار راوی ہے.
وقال الذهبي في التلخيص: إسحاق بن عبدالقرشي واه.
٢. اس روایت کی دوسری سند اور متن:
“من نظر إلى محاسن امرأة، فغض طرفه في أول نظرة، رزقه الله تعالى عبادة يجد حلاوتها في قلبه”.
– رواه بهذا اللفظ ابن عدى في “الكامل” (5/151 الفكر).
جس نے کسی عورت کو دیکھا اور پہلی نظر میں اپنی آنکھ کو جھکا دیا، اللہ تعالٰی ایسی عبادت نصیب فرمائیں گے جس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرےگا.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کے تمام طرق پر شدید جرح کی گئی ہے.
عمرو بن زیاد:
١ . ابن عدی فرماتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے، روایات چوری کرتا ہے اور باطل روایات بیان کرتا ہے.
قال ابن عدى: منكر الحديث، يسرق الحديث ويحدث بالبواطيل.
٢ . دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ روایت گھڑتا تھا.
وقال الدارقطني: “يضع الحديث”.
٣. تیسری سند:
وقال ابن عدى: هذا بهذا الإسناد غير محفوظ.
قلت: نعم فقد ورد بلفظ: “ما من مسلم ينظر إلى……”
– رواہ أحمد في مسنده (5/264)
– والروياني في مسنده (1212)
– والبيهقى فی “شعب الإيمان” (5/60/5431)
– والطبراني في الكبير (8/7842)
– وابن الجوزي في “ذم الهوى” (250، 253 بحيري).
من طرق عن يحیی بن أيوب عن عبيدالله بن زحر عن على بن يزيد عن القاسم به.
اس سند میں عبیداللہ بن زحر راوی من گھڑت روایات بیان کرتا ہے.
عبيدالله بن زحر: منكر الحديث جدا، لا يجوز الاحتجاج به.
ابن حبان کا اس راوی پر تبصرہ:
یہ راوی منکر الحدیث ہے، من گھڑت روایات بیان کرتا ہے.
قول ابن حبان (2/62-63) في ترجمة عبيدالله: منكر الحديث جدا، يروى الموضوعات عن الأثبات، وإذا روى عن على بن يزيد أتى بالطامات.
اس سند میں تین مجروح راوی جمع ہیں.
وإذا اجتمع في إسناد خبر عبيدالله وعلى بن يزيد والقاسم أبوعبدالرحمن، لا يكون من ذلك الخبر الا مما عملته أيديهم.
یہ روایت بھی سند کے لحاظ سے قابل اعتبار نہیں.
٤. اس روایت کی ایک اور سند اور متن:
من طريق ابن عفير ثنا شعب ثنا عصمة ثنا موسى بن عقبة عن القاسم بن محمد عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم مرفوعا بلفظ:
“ما من عبد يكف بصره عن محاسن امرأة؛ ولو شاء أن ينظر إليها نظر؛ إلا أدخل الله تعالى قلبه عبادة يجد حلاوتها”.
جو بندہ کسی عورت کو دیکھنے پر قدرت ہونے کے باوجود اسکو نہ دیکھے تو اللہ تعالٰی اسکے دل میں ایسی عبادت داخل فرمائیں گے جس کی حلاوت کو وہ محسوس کرےگا.
– رواه ابن عدى في “الكامل” (5/372)
– وعنه أبونعيم في “الحلية” (2/187)
– وعنه ابن الجوزي في “ذم الهوى” (255).
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس سند میں عصمہ جھوٹا راوی ہے.
– فی سندہ
“عصمة”:
قال يحيی بن معين: کذاب يضع الحديث.
وقال العقيلي: یحدث بالبواطيل عن الثقات، ليس ممن يكتب حديثه.
وقال الدارقطني: متروك.
یہ روایت بھی سند کے لحاظ سے ناقابل اعتبار ہے.
٥. ایک اور سند اور متن:
من طريق عنبسة بن عبدالرحمن قال حدثني أبوالحسن المدني عن علي بن أبي طالب رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “نظر الرجل في محاسن المرأة سهم من سهام إبليس مسموم، فمن أعرض عن ذلك السهم أعقبه الله عبادة تسره”.
اس سند میں عنبسہ ہیں جن پر من گھڑت روایات کا الزام ہے.
قلت: فيه عنبسة، وهو متروك، ورماه البعض بالوضع.
٦. ایک اور سند اور متن:
النظرة الأولى خطأ، والثانية عمد، والثالثة تدمر، نظر الرجل إلى محاسن المرأة سهم من سهام إبليس المسموم، من تركها من خشية الله ورجاء ما عنده، أثابه الله ذلك عبادة تبلغه لذتها.
اس روایت کی سند میں سعید بن سنان ہے جو انتہائی کمزور راوی ہے.
– في سنده
“سعيد بن سنان”.
قال الذهبي: هالك.
وقال البخاري: منكر الحديث.
قلت: وهذا جرح شديد جدا عنده رحمه الله.
وقال النسائی: متروك.
وقال مسلم: منكر الحديث.
وقال الحافظ: متروك، رماه الدارقطني وغيره بالوضع.
یہ روایت بھی سند کے لحاظ سے قابل اعتبار نہیں.
خلاصہ کلام
نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، یہ مضمون اگرچہ بعض سلف اور بزرگوں سے ثابت ہے لیکن اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں، لہذا بطور حدیث اس کا بیان کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ